ہم ایک ایسے معاشرتی قحط کا شکار ہیں جو ہمارے خاندانی نظام، سیاسی صورتحال، سماجی ڈھانچے اور ریاستی اداروں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہ قحط بڑے اور چھوٹے کے درمیان عزت، شفقت اور ذمہ داری کے فقدان کا ہے۔ بڑے اپنی حیثیت کا ادراک کھو بیٹھے ہیں، اور چھوٹے ادب و احترام کے اصولوں کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ یہی وہ بحران ہے جس نے معاشرتی نظام کو بگاڑ کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔
ہم مجموعی طور پر بربادی کی طرف گامزن ہیں۔ گھر سے لے کر ریاست تک، کمزور اور طاقتور اداروں تک، سیاسی و مذہبی گروہوں سے سماجی حلقوں تک، آفیسر سے لےکر ماتحت تک، ہر جگہ بڑے اور چھوٹے کی تمیز مٹ چکی ہے۔ نہ بڑے کو اپنی بڑائی کا شعور رہا، نہ چھوٹے کو اپنی چھوٹائی کا احساس۔ یہی وہ قحط ہے، جس نے فرد سے لے کر اداروں تک اور معاشرے سے لے کر ریاست تک سب کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
بڑائی کا گم گشتہ وقار
بڑائی کا مفہوم صرف اقتدار، رتبہ اور اختیار کا نام نہیں بلکہ یہ احساسِ ذمہ داری، حوصلہ افزائی، اور رہنمائی کا تقاضا کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج کے بڑے اپنی بڑائی کے زعم میں اس جوہر کو بھلا بیٹھے ہیں۔ انہیں اپنے مفادات اور بڑائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، ان کے دلوں سے ہمدردی کا چشمہ خشک ہوچکا ہے اور ان کے رویوں سے شفقت کا نور ماند پڑ گیا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں کی شکایات کو بے وزن اور ان کے مسائل کو معمولی گردانتے ہیں۔
چھوٹے کی کھوئی ہوئی عاجزی
دوسری طرف، چھوٹوں نے بھی اپنی چھوٹائی کو فراموش کر دیا ہے۔ نہ ادب کا پاس رہا، نہ سیکھنے کی طلب باقی۔ وہ اپنی ناسمجھی میں خود کو بڑوں کے برابر سمجھ بیٹھے ہیں اور رہنمائی کو اپنی انا کی توہین تصور کرتے ہیں۔ یہی عدم تعاون اور نافرمانی کا رویہ معاشرتی نظم و ضبط کو پارہ پارہ کر دیتا ہے۔
ریاستی ادارے
یہی قحط ریاستی اداروں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی و مذہبی رہنما ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگتے ہیں اور عوام مسائل کی دلدل میں دھنس جاتی ہے۔ افسر اور ماتحت ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام کا رشتہ بھول چکے ہیں۔ یوں ادارے بے حس اور معاشرہ بے روح ہو جاتا ہے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ ضلع سے لے کر ریاست تک، چھوٹے اور بڑے ادارے، طاقتور اور کمزور ادارے اور آفیسر سے ماتحت تک سب ایک دوسروں سے دست گریباں ہیں؟
اور روز ایک دوسرے کو تباہ کرنے میں کسی بھی حد سے آگے نکل رہے ہیں ؟
اللہ نے ہر مسئلہ اور مشکل کا حل بتا دیا ہے۔ قرآن کریم انسانوں کو ذمہ داریوں اور تعلقات کا واضح شعور دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَرۡفَعۡنَا بَعۡضَهُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجَـٰتࣲ لِّيَتَّخِذَ بَعۡضُهُم بَعۡضًا سُخۡرِيࣰّاۗ” (الزخرف: 32)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ نے انسانوں کو مختلف درجات اور حیثیتوں میں تقسیم کیا تاکہ معاشرے میں نظم و ضبط قائم رہے۔ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں کی دیکھ بھال اسی توازن کا حصہ ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات
نبی کریم ﷺ نے بھی بڑے اور چھوٹے کے حقوق کو نہایت خوبصورتی سے بیان فرمایا:
"لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَیُوَقِّرْ کَبِیرَنَا” (ترمذی)
"وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔”
یہ حدیث معاشرتی تعلقات کی اصل روح کو اجاگر کرتی ہے کہ بڑوں کے لیے احترام اور چھوٹوں کے لیے شفقت لازم ہے۔
آج کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ بڑوں نے شفقت اور رہنمائی کے فریضے سے منہ موڑ لیا ہے، جبکہ چھوٹوں نے ادب و احترام کا رویہ ترک کردیا ہے۔ گھر کے بزرگوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا وقار ختم ہوچکا ہے، اور دفاتر میں افسران اور ماتحتوں کے تعلقات رسمی اور غیر اخلاقی ہوچکے ہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کو حریف سمجھتے ہیں ۔ اور پھر حد سے نیچے گر جاتے ہیں ۔
یہ قحط ختم کرنے کے لیے ہمیں قرآنی تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کی رہنمائی کو اپنانا ہوگا۔ ہر فرد کو اپنی حیثیت کا ادراک کرنا ہوگا، بڑوں کو رہنما اور ہمدرد بننا ہوگا، اور چھوٹوں کو ادب اور سیکھنے کا رویہ اپنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو معاشرتی بگاڑ کو ختم کرکے ایک مضبوط اور مہذب معاشرے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔