بیگج اسکیم: مسافروں پر نئی پابندیاں یا حکومت کا مذاق؟

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بیرونِ ممالک سے پاکستان آنے والے مسافروں پر نئی اور سخت پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیگج اسکیم کے تحت، مسافروں کو اپنے ساتھ کمرشل مقدار میں اشیاء لانے کی اجازت نہیں ہوگی، اور 1200 ڈالر سے زائد مالیت کی اشیاء کو کمرشل ٹریڈنگ تصور کیا جائے گا۔

ایف بی آر نے بیگج رولز 2006 میں ترامیم کا مسودہ تیار کر کے اسٹیک ہولڈرز سے آراء اور تجاویز طلب کی ہیں۔ ان تجاویز کو سات دن کے اندر پیش کرنا ہوگا، اور مقررہ وقت کے بعد دی جانے والی تجاویز کو مسترد کر دیا جائے گا۔ اگر اس عرصے کے دوران کوئی تجویز پیش نہ کی گئی، تو ان ترامیم کو گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے نافذ کر دیا جائے گا۔

نئی شرائط کیا ہیں؟

بیگج اسکیم میں پیش کی جانے والی نئی شرائط کچھ اس طرح ہیں:

1. صرف ایک موبائل فون ذاتی استعمال کے لیے لانے کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ جو بھی موبائل فون لائے جائیں گے، انہیں ضبط کر لیا جائے گا۔

2. 1200 ڈالر سے زائد مالیت کی اشیاء کو ڈیوٹی اور ٹیکسز کی ادائیگی کے باوجود کلیئر نہیں کیا جائے گا۔

مسافروں کے لیے مشکلات کا نیا آغاز

ان قوانین کے تحت وہ پاکستانی جو بیرونِ ممالک سے اپنے خاندان کے لیے تحفے یا ضرورت کی اشیاء لاتے تھے، اب شدید مشکلات کا شکار ہوں گے۔ ایک موبائل فون تک کی حد بندی اور اشیاء کی قیمت پر کڑی پابندیاں نہ صرف غیر منطقی ہیں بلکہ عوام کے لیے مزید مسائل پیدا کریں گی۔

نظام کی شفافیت کہاں ہے؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کی پابندیاں واقعی عوام کے فائدے کے لیے ہیں یا یہ صرف حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کی ایک اور کوشش ہے؟

ملک میں اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول نہیں ہے۔

مارکیٹ میں اشیاء کی کوالٹی کا کوئی معیار نہیں ہے۔

کرپشن اور دھوکہ دہی عروج پر ہیں، جنہیں روکنے کے لیے کوئی موثر نظام موجود نہیں۔

عام عوام کی شکایت یہ ہے کہ حکومت پہلے اپنے نظام میں شفافیت لے کر آئے۔ بازاروں میں اشیاء کی قیمتوں کو اعتدال پر لانے کے اقدامات کرے اور کرپشن کے خلاف موثر پالیسیاں نافذ کرے۔ ایسے نظام میں جہاں بیس روپے کی چیز سو روپے میں بیچی جا رہی ہو، اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو، وہاں باہر سے اشیاء لانے پر پابندی لگانا عوام کو مزید مہنگائی اور مشکلات کی دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔

مذاق یا حقیقت؟

حکومت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب عوام پہلے ہی بے تحاشا مہنگائی اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ نہ تو معیاری اشیاء کی دستیابی ممکن ہے، نہ قیمتوں پر قابو پایا جا رہا ہے۔ حکومت کا اپنے نظام کو درست کیے بغیر مسافروں پر اس قسم کی پابندیاں عائد کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کچی جھونپڑی میں بائیو میٹرک مشین لگا دی جائے۔

حل کیا ہونا چاہیے؟

حکومت کو چاہیے کہ پہلے:

1. ملک میں اشیاء کی قیمتوں اور کوالٹی کے حوالے سے ایک موثر اور شفاف نظام متعارف کروائے۔

2. بازاروں میں ناجائز منافع خوری اور دھوکہ دہی کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

3. عوام کو معیاری اور سستی اشیاء فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

4. بیرونِ ممالک سے اشیاء لانے پر پابندیاں صرف اسی وقت لگائے جب مقامی سطح پر عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کا نظام موجود ہو۔

عوام کی آواز

حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عوام پہلے ہی مہنگائی اور بدانتظامی سے تنگ آ چکی ہے۔ ان نئی پابندیوں سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ جب مقامی سطح پر کوئی اشیاء خریدنے کی گارنٹی دینے والا نہ ہو، تو عوام کے پاس باہر سے اشیاء لانے کے علاوہ کیا راستہ بچتا ہے؟

یہ وقت عوام پر بوجھ ڈالنے کا نہیں بلکہ ان کے مسائل کو سمجھ کر ان کا حل نکالنے کا ہے۔ اگر حکومت واقعی عوام کی بھلائی چاہتی ہے تو اسے اپنے نظام کی خامیوں کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ عوام کے محدود مواقعوں کو بھی چھیننے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے