چیف جسٹس تکبر اور من مانی نہ کریں ،جیوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس ملتوی کیا جائے. جسٹس قاضی فائز عیسی کا سپریم جیوڈیشل کونسل کو خط

25 جولائی 2022ء
معزز چیئرمین اور قابل احترام ارکان جیوڈیشل کمیشن آف پاکستان
السلام علیکم

1۔ مجھے اپنی سالانہ تعطیلات کے دوران میں عدالت عظمی کے ایڈیشنل رجسٹرار کی جانب سے ایک واٹس ایپ پیغام وصول ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ معزز چیف جسٹس آف پاکستان نے 28 جولائی 2022 کو جیوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کیا ہے تاکہ سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی تقرری کا فیصلہ کیا جا سکے ۔ سالانہ تعطیلات کے آغاز سے پہلے جیوڈیشل کمیشن کا کوئی اجلاس طے نہیں کیا گیا تھا مگر جونہی میں پاکستان سے روانہ ہوا، چیف جسٹس صاحب نے سندھ اور لاہور کی اعلی عدالتوں میں تقرریوں کے متعلق دو اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا اور اب عدالت عظمی میں موسمِ گرما کی چھٹیوں کے دوران میں جیوڈیشل کمیشن کا تیسرا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے ، حالانکہ سپریم کورٹ میں موسمِ گرما کی تعطیلات کا فیصلہ خود چیف جسٹس صاحب نے کیا تھا اور اس کے بعد اس کا سرکاری اعلان کیا گیا۔ اگر چیف جسٹس اپنے اعلان کردہ نوٹیفیکیشن کی پاسداری نہیں کرنا چاہتے تو بہتر ہے کہ اس کی خلاف ورزی کے بجاے وہ پہلے اسے منسوخ کردیں۔

2۔ جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس منعقدہ28 جون 2022 میں، چیف جسٹس اور جناب اعجاز الحسن کے سوا تمام ارکان نے اتفاق راے سے اجلاس کو ملتوی کرنے کے حق میں راے دی کیونکہ گرما کی اعلان شدہ تعطیلات میں اس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا جبکہ عدالت کے سینیئر ترین جج منظور شدہ چھٹی پر جا چکے ہوں ۔ اس بات کو بھی نوٹ کیا گیا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ چیف جسٹس کے بعد سینیئر ترین جج کو جیوڈیشل کمیشن کی پس منظر دیکھنے والی اور صلاحیت جانچنے والی کمیٹیوں کے اجلاسوں کی سربراہی نہیں کرنے دی گئی ۔ اس کے باوجود جیوڈیشل کمیشن کا ایک اور اجلاس بلانا ناقابل فہم ہے، جبکہ وہ تمام وجوہات جن کی بنیاد پر پہلے اجلاس ملتوی کیے گئے تھے ، اب بھی برقرار ہیں، اور ان کے ساتھ اضافی وجہ یہ بھی ہے کہ اٹارنی جنرل کا ابھی حال ہی میں آپریشن ہوا ہے۔
3۔ میں نہایت احترام کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ چیف جسٹس صاحب جیوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کو مسترد نہیں کر سکتے ۔ باقاعدہ اعلان شدہ سرکاری تعطیلات کے دوران میں، جبکہ کچھ ارکان سالانہ چھٹی پر ہوں اور دوسری طرف اٹارنی جنرل حال میں کرائے گئے دوسرے آپریشن کے بعد روبہ صحت ہوں، ایک اور میٹنگ طلب کرنا بلا جواز ہے۔ ان حالات میں جیوڈیشل کمیشن کا اجلاس نہ بلانے کے متعلق جمہوری طریقے سے کیے گئے فیصلے کی پاسداری ضروری ہے۔ جمہوریت آئین کی روح اور پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔

4۔ جب چیف جسٹس صاحب کو یہ معلوم ہے کہ چند دنوں میں سینئر ترین جج پاکستان واپس آ رہے ہیں ( ان شاءاللہ، 13 اگست 2022 کو ) تو وہ کچھ دن مزید انتظار کیوں نہیں کر سکتے ؟ مہینوں تک جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس نہ بلانا اور پھر تین اجلاس یوں طلب کرنا جبکہ سینیئر ترین جج اپنی منظور شدہ سالانہ چھٹی پر ہوں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ چیف جسٹس نہیں چاہتے کہ وہ اجلاس میں طبعی طور پر شریک ہوں جو واضح طور پر غیر قانونی و غیر آئینی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں موسم سرما کی تعطیلات کے دوران میں بھی کام کرتا رہا ہوں اور عام طور پر میں شام کو دفتر سے نکلنے والا آخری فرد ہوتا تھا ۔ میں نے ایک بھی زیر التوا فیصلہ نہیں چھوڑا اور نہ ہی تفصیلی وجوہات کی فراہمی کا انتظار کرتے ہوئے کوئی ‘مختصر فیصلہ’ سنایا ۔

5۔ جب عدالت عظمی میں اسامیاں خالی ہوئیں تو چیف جسٹس صاحب نے کوئی اجلاس طلب نہیں کیا لیکن اب اچانک ہی عجلت میں تھوک کے حساب سے تقرری کرنا چاہتے ہیں ۔ پانچ ججوں کی تقرری کا مطلب عدالت عظمی کے ایک تہائی سے زیادہ حصہ ہے جسے چیف جسٹس اعلان شدہ سرکاری تعطیلات کے دوران کمیشن کے تمام ارکان کی شرکت سے گریز کرتے ہوئے کرنا چاہتے ہیں ۔

6۔ چیف جسٹس ایک "متوقع ” اسامی کو بھی پر کرنا چاہتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 175 (8) اس کی اجازت نہیں دیتی۔ نہ ہی آئین اس کی اجازت دیتا ہے کہ چیف جسٹس اکیلے نام تجویز کریں کیونکہ یہ صرف جیوڈیشل کمیشن کا استحقاق ہے ۔ تاہم آئین پر حاوی کرنے کےلیے ناقص طور پر وضع کردہ قواعد کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔

7۔ یہ متوقع اسامی، جناب جسٹس سجاد علی شاہ کے ریٹائر ہونے پر وجود میں آئے گی جن سے کہا جا رہا ہے کہ وہ خود اپنے جانشین کا انتخاب کریں ۔ یہ غیر آئینی ہے ۔ پاکستان ماضی کی کوئی بادشاہت نہیں ہے جس میں بادشاہ اپنے جانشینوں کا فیصلہ کرتے تھے۔ اگر اس کی اجازت دی گئی تو چیف جسٹس اگلی بار ان "متوقع آسامیوں ” کو پر کرنے کے لیے جیوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلا سکتے ہیں جو عدالتِ عظمیٰ کے تمام ججوں کے ریٹائر ہونے پر خالی ہوں، بشمول ان کے جو چیف جسٹس کے بعد ریٹائر ہوں۔ ججوں کے ریٹائر ہونے سے قبل نامزدگی یا تقرری آئین کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے ۔ پاکستان کا نظام چیف جسٹس کی مرضی یا خواہش پر نہیں، بلکہ آئین کے مطابق چلانا ہوگا۔

8۔ عدالت عظمی بارہا یہ قرار دے چکی ہے کہ طویل مدتی اثرات کے حامل فیصلے کسی ایسے شخص کو نہیں کرنے چاہئیں جس کی ریٹائرمنٹ قریب ہو ۔ غالبا یہ ایک وجہ تھی کہ محترم جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل کسی جج کی تقرری کی سفارش کرنے سے با وقار طریقے سے انکار کر دیا تھا ۔ عزت مآب جسٹس سجاد علی شاہ مزید دو ہفتوں کےلیے ہی جج رہیں گے، اور اس کے باوجود ان پر پانچ ججوں کی تعیناتی کی سفارش کرنے کا بوجھ ڈالا گیا ہے جو برسوں اس عہدے پر رہیں گے۔

9۔ اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری بہت احتیاط اور غور و فکر کی متقاضی ہے کیونکہ یہ انتہائی نازک معاملہ ہے ۔ چیف جسٹس صاحب! براہ کرم آئین کی خلاف ورزی کے ذریعے جیوڈیشل کمیشن اور اپنے ہی نامزد کردہ ارکان کی تضحیک مت کریں۔ جیوڈیشل کمیشن کو صرف ان افراد پر غور کرنے تک محدود کرنا جنھیں چیف جسٹس نے پہلے سے نامزد کیا ہو، نامناسب ہے ۔ کمیشن اپنے چیرمین کی جانب سے احترام اور عنایت کے برتاؤ کا استحقاق رکھتا ہے۔

10۔ چیف جسٹس نے امتیازی برتاؤ کرنے کا اعتراف کیا ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے صرف چند ججوں کے بارے میں غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اور ایسا انھوں نے امتیاز برت کر کیا ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے پشاور سے 3، لاہور سے 6 اور سندھ سے 12ججوں کی تعیناتی تجویز کی ۔ یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کیونکہ لاہور کی اعلی عدالت سندھ سے کہیں بڑی ہے ۔ نہ ہی مذکورہ تعداد کا خیال رکھا گیا، نہ ہی مذکورہ تناسب کا۔

11۔ تاہم چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ انہوں نے عدالتِ عالیہ سندھ کے چیف جسٹس کو اپنی زیرِ غور فہرست سے خارج کیا۔ اس کا سبب چیف جسٹس نے یہ بتایا کہ انھوں نے انکار کیا تھا، اور اس کےلیے حوالہ 13 مارچ 2022ء کو ان کے تحریر کردہ خط کا دیا۔ لیکن یہ خط کہتا ہے کہ یہ خط 12 مارچ 2022ء کے خط کے تسلسل میں لکھا گیا تھا ( جو فراہم نہیں کیا گیا) ۔ بہرحال 13 مارچ کا مذکورہ خط کہتا ہے کہ "5اگست 2021ء کے بعد کے حقائق ، صورت احوال اور پیش رفت کی روشنی میں ،جس سے جناب عالی آگاہ ہیں ، میں دلچسپی نہیں رکھتا ” ۔ یہ واضح ہے کہ یہ خط ایک بالکل مختلف سیاق میں لکھا گیا ۔ بہرحال اگر کسی چیف جسٹس کو عدالت عظمی کے لیے نامزد کیا جائے اور وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دے، تو آئین قرار دیتا ہے کہ وہ ریٹائر ہوجاتا ہے ۔ اس سلسلے میں بلوچستان کی اعلی عدالت کے چیف جسٹس امیر الملک مینگل کی نظیر بھی موجود ہے ۔ آئین چیف جسٹس کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ آئین کی تدوینِ نو کریں یا اس کے اطلاق سے بچنے کےلیے حیلہ تراشیں۔ ججوں سے یہ راے طلب کرنا یا نہ کرنا کہ کیا ان کو عدالت عظمی کا جج نامزد کیا جاے، یا بغیر طلب کیے ان کی جانب سے راے آنا اور اس میں ظاہر کردہ خواہش کو قبول کرنا، آئین کی دفعہ 206(2) کی نفی ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ "عدالت عالیہ کا وہ جج جو عدالت عظمی میں اپنی نامزدگی کو قبول نہیں کرتا ، اپنے عہدے سے ریٹائر تصور کیا جائے گا ” ۔ چیف جسٹس نے اس آئینی شق کو عملاً بے معنی کر دیا ہے۔

12۔ چیف جسٹس نے عدالتِ عالیہ بلوچستان کے چیف جسٹس اور جج صاحبان اور عدالتِ عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کو زیرِ غور فہرست میں شامل نہ کرکے مزید امتیازی رویہ برتا ہے۔ ان علاقوں میں سردست پائے جانے والے احساس محرومی میں اس اقدام سے مزید اضافہ ہو جائے گا۔ بصد احترام، یوں محسوس ہوتا ہے کہ چیف جسٹس نے صنعتِ معکوس کا سہارا لیتے ہوے پہلے طے کیا کہ کن کو نامزد کیا جائے اور پھر کوئی سیاق تراش کر اپنی نامزدگیوں کو جواز دینے کی کوشش کی ہے۔

13۔ تعیناتی کی جائز امید پر عدالت عظمی کے فیصلے موجود ہیں ۔ اہلیت رکھنے والوں کو موہوم بنیادوں پر خارج نہیں کیا جا سکتا، بالخصوص جبکہ ان کی وجوہات ان کے اختیار سے باہر ہوں ۔ اس حوالے سے چیف جسٹس یہ فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں نے صرف دیوانی، فوجداری یا ٹیکس کے مقدمات کی سماعت کی اور اسی میں فیصلے کیے اور پھر مزید کہتے ہیں کہ وہ قانون کے دیگر شعبوں میں مطلوبہ تجربہ نہیں رکھتے ۔ جج خود اپنے تئیں اس کا تعین نہیں کرتے کہ وہ کس نوعیت کے مقدمات سنیں گے، لہٰذا اس بنیاد پر ان کو محروم کرنا نا انصافی اور ناجائز ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی جج کے بارے میں یہ احساس ہو کہ وہ بہت زیادہ خودمختار ہے اس وجہ سے اسے عمداً کسی خاص نوعیت کا کام نہ دیا جائے، اور/یا غیر اہم اور معمولی نوعیت کے مقدمات اس کے سپرد کیے جائیں جبکہ وہ ان مقدمات کےلیے بھی اہلیت رکھتا ہوں اور ان شعبوں کا ماہر ہو جن سے اسے دور رکھا جاتا ہو۔ کسی جج کے ساتھ عدالتِ عالیہ میں ہونے والی ایسی ان نا انصافی کو جاری رکھنا جیوڈیشل کمیشن کےلیے مناسب نہیں ہے۔

14۔ تمام تعیناتیاں آئین کے مطابق پہلے سے طے شدہ غیر امتیازی معیار کے مطابق ہونی لازمی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ذاتی پسند و ناپسند کا شائبہ بھی نہ ہو۔ آئین چیف جسٹس کو جیوڈیشل کمیشن کے دیگر ارکان سے زیادہ کسی قسم کے اضافی اختیارات نہیں دیتا ۔ چیف جسٹس کو صرف جیوڈیشل کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے ۔

15۔ جب موجودہ چیف جسٹس سینئر ترین جج کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، تو انھیں پانچ رکنی کمیٹی کی سربراہی سونپی گئی تھی تاکہ وہ ججوں کی تقرری کے لیے واضح معیار طے کریں ، اگر چیف جسٹسز اور سینئر ترین ججوں کو نامزد نہ کرنا ہو۔ ان کو دیا گیا کام تاحال نامکمل ہے ۔ اس کمیٹی کا صرف ایک ہی اجلاس 9 مارچ 2022 کو بلایا گیا تھا جس کی کارروائی پر محترم جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ تحریر کرتے ہوے دستخط کیے: "معزز چیئرمین نے قیمتی آرا اور تجاویز دینے پر تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا اور توقع ظاہر کی کہ ٹھوس خیالات کو ضبط تحریر میں لانے کے بعد آگے بڑھنے کےلیے جلد ہی اجلاس ہوگا” ۔ بعد ازاں کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا، کوئی ‘ٹھوس خیالات تحریر’ نہیں کیے گئے، نہ ہی کمیٹی نے کوئی رپورٹ جیوڈیشل کمیشن کو جمع کرائی۔ اس کے باوجود چیف جسٹس (اب) فرماتے ہیں کہ کمیٹی اپنا کام مکمل کر چکی ہے ۔ کمیٹی کے جن ارکان سے میری بات ہوئی ہے انھوں نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ کمیٹی کا صرف ایک ہی اجلاس ہوا تھا اور کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔

16۔ تاہم چیف جسٹس نے متکبرانہ طور پر اپنے لیے یہ ذمہ داری لی کہ وہ ایک بے معنی اور سطحی ‘معیار’ تشکیل دیں، اور ایسا کرچکنے کے بعد خود ہی آگے بڑھ کر اپنے پہلے سے نامزد کردہ افراد کو اس ‘معیار’ پر پرکھ لیں۔ بصد احترام، یہ جیوڈیشل کمیشن کی تضحیک اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔

17۔ اس خط کے لکھنے سے پہلے میں نے چیف جسٹس صاحب سے تحریری گزارش کی کہ وہ من مانی مت کریں اور انھیں یاددہانی کرائی کہ تکبر اور انا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، لیکن چونکہ انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، اس لیے میں آپ سب کو لکھنے پر مجبور ہوں کیونکہ یہ میرا فریضۂ منصبی اور میرے حلف کا تقاضا ہے کہ میں آئین کا دفاع اور تحفظ کروں۔

18۔ آئین کی دفعہ 175 اے اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے بارے میں بہت واضح ہے اور اس کی سختی سے تطبیق لازمی ہے۔ آئین جیوڈیشل کمیشن کو یہ استحقاق دیتا ہے کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کے لیے ججوں کو نامزد کریں۔ چیف جسٹس یک طرفہ طور پر فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ اگر اپنا طریقِ کار طے کرنے کےلیے اولین جیوڈیشل کمیشن کے بنائے ہوے قواعد آئین سے متصادم ہوں، تو ان کو نظر انداز کرنا لازم ہے، نہ کہ آئین کو۔ ہر شہری کے لیے لازم ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے ( دفعہ 5) مگر ججوں کی اضافی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین پر عمل کریں اور اس کا تحفظ اور دفاع کریں، جیسا کہ اس حلف میں مذکور ہے جو وہ اٹھاتے ہیں اور اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ کسی کو نوازنے کا کام نہیں کریں گے۔ جیوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ کسی خالی اسامی پر جج کا انتخاب کرے اور اس پر یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ صرف چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججوں کو ہی منتخب یا مسترد کرے۔ آئین کی دفعہ 175 اے یہ نہیں کہتی کہ اکیلے چیف جسٹس ہی کسی جج کو نامزد کریں، نہ انھیں اجازت دیتی ہے کہ وہ کسی کو نامزد کرنے یا مسترد کی وجوہات بیان کرتے رہیں ۔

19۔ چیف جسٹس صاحب نے ایک سوالنامہ تشکیل دیا، اسے ارسال کیا اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات اور جمع شدہ دستاویزات اکٹھی کرکے 2347 صفحات پر مشتمل پلندہ ہمارے غوروفکر لیے تیار کیا، لیکن اس کام کےلیے پہلے جیوڈیشل کمیشن سے منظوری نہیں لی۔ جو کام کیا گیا اس پر یقیناً کئی مہینے لگے ہوں گے مگر چیف جسٹس نے ایک دفعہ بھی اس کے بارے میں گفتگو نہیں کی، نہ ہی کبھی یہ بات ظاہر کی۔ آئین پاکستان چیف جسٹس کو اس طرح یک طرفہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مفاد عامہ اور عدلیہ سے متعلق امور کو خفیہ اور صیغۂ راز میں رکھا جائے ۔

20۔ جس نوعیت کا اختیار چیف جسٹس نے استعمال کیا ہے، آئین اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ چیف جسٹس نے یک طرفہ اور بغیر کسی اصول کے ان امور کو طے کیا: 1) ججوں کی تعداد جن کی تعیناتی کی جانی ہے؛ 2) عدالت عالیہ جس سے انھیں لیا جائے گا؛ 3) انھوں نے ایک خاص تعداد تک ججوں پر غور کیا؛ 4) اپنی راے میں بہترین امیدواروں کے بارے میں پیشگی اظہار کردیا؛ 5) جیوڈیشل کمیشن کے سامنے صرف اپنے ہی پہلے سے نامزد کردہ امیدواروں کو پیش کیا؛ 6) کوائف کی فراہمی کے لیے سوالنامہ تشکیل دیا جس میں حاضر سروس ججوں کو اپنے ذرائع آمدن ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا ( طرفہ تماشا یہ ہے کہ چیف جسٹس خود ایسا کرنے سے انکار کر چکے ہیں جب عدالت عظمی میں آئین کی دفعہ 19 اے کے تحت یہ معلومات حاصل کرنے کے لیے درخواست دی گئی )؛ اور 7) طبی معلومات کی فراہمی جو آئین میں مہیا کردہ نجی زندگی کے تحفظ اور وقار کے منافی ہے ۔

21۔ فیصلہ تحریر کرنے میں تاخیر کو چیف جسٹس نے نا اہل قرار دیے جانے کے ایک سبب کے طور پر ذکر کیا ہے۔ عدالت ہاے عالیہ کے ججوں کو عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کی نسبت کہیں زیادہ کام سونپا جاتا ہے ۔ اگر یہ ایک معیار ہے، اور اس میں کچھ غلط نہیں ہے، تو آئیے ہم خود بھی غور کریں اور خود احتسابی کریں ۔ چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کا ایک سروے کریں تاکہ معلوم ہو سکے کہ: 1) چیف جسٹس اور ہر جج ایک فیصلہ تحریر کرنے میں اوسطاً کتنا وقت لیتے ہیں؟ 2) ‘مختصر حکمناموں’ کے ذریعے کتنے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں؟ 3) مختصر فیصلے کے بعد اس کی تفصیلی وجوہات ظاہر کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ اور 4) کتنے مختصر حکمناموں کی تفصیلی وجوہات کا اب بھی انتظار ہورہا ہے؟ میں کہہ سکتا ہوں کہ مختصر فیصلہ سنانا ایک نئی اختراع ہے؛ دفعہ 189 عدالتِ عظمی کے ‘فیصلوں ‘ کا ذکر کرتی ہے، مختصر حکمنامے ایسی اختراع ہیں جس کی اجازت آئین نہیں دیتا۔

22۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے جس کا آئین اس اعلان سے شروع ہوتا ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کی مقرر کردہ حدود کی پاسداری ضروری ہے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ قرآن مجید سورۃ الشوری (42) کی آیت 38 میں مشاورت کو لازم کیا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی جلیل القدر ذات مبارک کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ مشورہ کریں ۔ ( سورۃ آل عمران (3)، آیت159 ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔ ( سنن الترمذی،کتاب الجہاد، حدیث نمبر 48)

23۔ سورۃ الشوری (42) کی آیت 38 کے مفہوم کے بارے میں صدیوں سے مفسرین قرآن کی یہی راے رہی ہے۔ میں صرف دو مثالیں ذکر کرتا ہوں ؛ پہلی پاکستان کے معروف عالم دین ابو الاعلیٰ مودودی (1903ء-1979ء) کی تفسیر تفہیم القرآن ( جلد 4، ص 508-510) اور دوسری قرطبہ ، اندلس، سے تعلق رکھنے والے مفسر قرآن اور محدث ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی (1214ء-1273ء) کی الجامع لاحکام القرآن (جلد 18، ص 586-588) سے، جو بیان کرتے ہیں کہ آیت الشوری کی رو سے ان معاملات میں مشورہ کرنا واجب ہے جس کا تعلق ایک سے زیادہ افراد سے ہوکیونکہ: ا) کسی کو دوسرے پر اپنی مرضی نہیں مسلط کرنی چاہیے؛ ب) اپنی مرضی مسلط کرنے کا مطلب ہے کہ وہ شخص دوسروں کی راے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، یا وہ خود کو دوسروں سے زیادہ دانا و عقلمند سمجھتا ہے ، اور یہ دونوں باتیں غیر اخلاقی ہیں؛ ج) لوگوں کے اجتماعی امور سے متعلق فیصلہ کرنا ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس میں اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ دیگر مفسرین کی طرح ان دونوں شارحین کی راے میں اس آیت سے مندرجہ ذیل اصول ثابت ہوتے ہیں: 1) تمام درکار معلومات فراہم کی جانی چاہییں؛ 2)کسی قسم کی تقرری خوف یا لالچ کی بنیاد پر نہیں کی جانی چاہیے؛ 3) قائدین کو مشیروں سے مشورہ لینا چاہیے؛ 4) جس سے مشورہ طلب کیا جاے، اسے چاہیے کہ وہ دیانت داری سے اچھی طرح سوچ بچار کے بعد بے لاگ مشورہ دے؛ اور 5) معاملات کو حتی الامکان اتفاق راے سے طے کرنا چاہیے، اور اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو کثرت راے سے فیصلہ کرنا چاہیے ۔

24۔ چیف جسٹس انتہائی نازک معاملے کو جلد بازی میں سخت قابل اعتراض طریقے سے نمٹانا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ہفتے میں 2347 صفحات پر مشتمل دستاویزات کی جانچ کی جائے جبکہ مجھے یہ دستاویزات فراہم تک نہیں کی گئیں ۔ اس کی بجاے واٹس ایپ پیغام کے ذریعے مجھ تک پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن میری رسائی اس میں صرف چودہ صفحات پر مشتمل پہلی دستاویز تک ہی ہو سکی ہے اور میں صرف وہی پڑھ سکا ہوں ۔ باقی سب کے لیے میرا فون "سٹوریج فل ” کا اشارہ دیتا ہے ۔ میں اس کی اطلاع دے چکا ہوں مگر ابھی تک مجھے کوئی دستاویزات کوریئر کی گئیں، نہ ہی میڈرڈ میں موجود پاکستانی سفارتخانہ کو دی گئیں تاکہ وہ مجھ تک پہنچاسکے۔ اگر کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا اور معاملہ عدالت تک پہنچتا، تو عدالت اس قسم کی بے اصولی اور عجلت پر ناراض ہوتی کیونکہ اسے ناکافی اطلاع قرار دیا جاتا جس سے ‘مناسب طریقے’ کے متعلق آئینی دفعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس مناسب طریقے اور ناکافی اطلاع کے قانون کو تاراج نہیں کر سکتے ۔

25۔ اس لیے میری گزارش ہے کہ جیوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس ملتوی کیا جائے ۔ اس کے بجاے پہلے ہمیں اس پر اجلاس کرنا چاہیے کہ اس معاملے میں آگے کس طرح بڑھنا ہے ، اور اگر عدالت ہاے عالیہ کے چیف جسٹسز اور ان کے بعد سینئر ترین ججوں کو نظر انداز کرنا ہے، تو پہلے یہ کرنا چاہیے کہ نامزد کردہ افراد کےلیے معیاراتِ اہلیت کو جیوڈیشل کمیشن کے سامنےغور کےلیے رکھا جائے کیونکہ اس وقت کے سینئر ترین جج وہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں جو انھیں سونپی گئی تھی۔

آپ کا مخلص
قاضی فائز عیسیٰ
سینیئر ترین جج ، عدالت عظمی پاکستان
نقل براے ایڈیشنل رجسٹرار جنھیں ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اس پیغام کو طبع کرا کے فی الفور جیوڈیشل کمیشن کے ارکان تک پہنچائیں۔

پس نوشت : چونکہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ اور قومی اہمیت کا حامل آئینی معاملہ ہے ، اس لیے آئین کی دفعہ 19 اے میں درج شفافیت اور معلومات تک رسائی کے عوامی حق کے تقاضے کے تحت، چیف جسٹس یا ایڈیشنل رجسٹرار اسے طبع کرا کے نشر کرنے کے لیے پریس تک پہنچائیں ۔

مترجم
ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ، اسسٹنٹ پروفیسر، کلیہ اصول الدین، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد
taimia.sabiha@iiu.edu.pk

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے