چوہدری شجاعت کا موقف

چوہدری سالک حسین چوہدری شجاعت حسین کے چھوٹے صاحب زادے ہیں‘ یہ این اے 65 سے ایم این اے بھی ہیں اور انویسٹمنٹ بورڈ اینڈ اسپیشل اینی شیٹوز کے وفاقی وزیر ہیں‘ میری ہفتے کی رات لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی‘ میں نے ان سے چوہدری خاندان کی اندرونی دراڑ کے بارے میں چند سوال کیے اور سالک حسین نے ان کے سیدھے اور صاف جواب دیے۔

میں نے پوچھا ’’کیا عمران خان آپ کو مونس الٰہی کی جگہ وفاقی وزیر بنانا چاہتے تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہاں یہ درست ہے چوہدری شجاعت‘ چوہدری پرویز الٰہی اور طارق بشیر چیمہ جون 2021میں وزیراعظم سے ملے‘ عمران خان نے والد صاحب سے کہا‘ مونس الٰہی کے خلاف کرپشن کے کیسز ہیں‘ میں سالک کو وزیر بنا دیتا ہوں‘ وزیراعظم نے اس کے ساتھ مٹھیاں بھی بھیجیں اور دونوں ہاتھ صوفے پر بھی مارے تھے‘ چوہدری شجاعت کا جواب تھا‘ آپ مونس الٰہی کے خلاف ایک ثبوت دے دیں میں اپنا کلیم واپس لے لوں گا‘ والد صاحب کا کہنا تھا‘ وزیر بنے گا تو صرف مونس الٰہی بنے گا‘ یہ کہہ کر یہ لوگ واپس آ گئے۔

مجھے اگلے دن مونس الٰہی نے کہا‘ آپ پرویز خٹک اور زلفی بخاری کو فون کر کے کہیں میں وزارت کا طلب گار نہیں ہوں‘ ہمارا امیدوار صرف مونس الٰہی ہے اور میں نے مونس کی خواہش پر دونوں کو فون کر دیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ لوگوں کا پی ڈی ایم کے ساتھ عدم اعتماد پر رابطہ کب ہوا؟‘‘ یہ مسکرا کر بولے ’’یہ آصف علی زرداری کا آئیڈیا تھا‘ یہ فروری میں چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی سے ملے اور پیش کش کی میں پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتا ہوں‘ آپ بس ہاں کر دیں‘ باقی کام میرا ہے‘ ہماری طرف سے ہاں تھی‘ اس کے بعد ن لیگ کی ٹیم سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔

ٹیم میں خواجہ سعد رفیق‘ رانا تنویر‘ ایاز صادق‘ عطاء تارڑ اور ملک محمد احمد شامل ہوتے تھے‘ طے ہوا ہم عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کا ساتھ دیں گے اور جواب میں ہمیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور اگلے الیکشنز میں قومی اسمبلی کی 15سے 17 سیٹیں ملیں گی‘‘ میں نے پوچھا ’’مذاکرات کے گارنٹر کون تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’یہ سوال ہم بھی پوچھتے تھے‘ میاں شہباز شریف 13فروری کو ہمارے گھر تشریف لائے تو یہ ابہام ختم ہوگیا‘ میاں شہباز شریف نے 15 منٹ تنہائی میں چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی سے میٹنگ کی اور اس کے بعد مونس‘ مجھے‘ حسین الٰہی اور طارق چیمہ کو اندر بلایا اور کہا‘ ہمارے درمیان جو طے ہوا ہم آپ کو اس کا گواہ بنا رہے ہیں‘ میاں شہباز شریف نے اس کے بعد طے ہونے والی ہر بات دہرا دی‘ چوہدری پرویز الٰہی بہت خوش تھے۔

انھوں نے باہر نکل کر اقبال کو بلایا اور کہا‘ یہ خبر میڈیا کو لیک کر دو اور یوں چینلز پر ٹکرز چلنا شروع ہوگئے‘ ہر طرف سے مبارک بادیں بھی شروع ہو گئیں‘ اس ملاقات میں طے ہوا تھا ہم کھانے کے لیے شریف فیملی کے گھر جائیں گے لیکن کھانے سے پہلے ہی مونس الٰہی نے عمران خان کی موجودگی میں تقریر کر دی ’’ہم سیاسی لوگ ہیں اور سیاسی لوگ تعلقات بناتے اور نبھاتے ہیں‘ کوئی گھر آئے تو اسے ویلکم کرتے ہیں‘ ہمارا آپ سے تعلق نبھانے کے لیے بنا ہے‘ آپ پی ٹی آئی والوں کو تگڑے طریقے سے کہہ دیں گھبرانا نہیں ہے‘‘ اور بس یہ خبر چلنے کی دیر تھی سارا معاملہ ٹھس ہو گیا‘ کھانا بھی منسوخ ہو گیا اور مذاکرات بھی ختم ہو گئے۔‘‘

میں نے پوچھا ’’مذاکرات دوبارہ کیسے اسٹارٹ ہوئے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’پرویز الٰہی نے چوہدری شجاعت کو تیار کیا آپ آصف علی زرداری کو دوبارہ درمیان میں ڈالیں اور بات چیت شروع کرائیں‘ ان کو بتائیں مونس الٰہی کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا تھا‘ پرویز صاحب نے شجاعت صاحب کو اسلام آباد بھجوا دیا‘ والد صاحب نے زرداری صاحب سے رابطہ کیا‘ زرداری صاحب نے کہا‘ آپ مونس الٰہی کو ساتھ لے کر آئیں‘ ہم ان سے ملے‘ انھوں نے میاں نواز شریف سے رابطہ کیا اور مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے۔

مونس الٰہی نے اس بار پی ٹی آئی کے 17 ایم این ایز سے بھی رابطہ کر لیا تھا‘ یہ لوگ مختلف گروپوں میں روزانہ ہمارے گھر لنچ پر آتے تھے اور مونس الٰہی انھیں بتاتے تھے آپ نے عدم اعتماد کے دوران میاں شہباز شریف کو ووٹ دینا ہے‘ اگلے الیکشن میں ق لیگ آپ کو ٹکٹ دے گی اور ن لیگ آپ کے مقابلے میں امیدوار کھڑے نہیں کرے گی اور یوں آپ جیت کر اسمبلی میں واپس آ جائیں گے۔

یہ لوگ تیار ہو گئے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ سندھ ہاؤس والے لوگ تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہمارے پاس ان 22 لوگوں کے علاوہ لوگ تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ ان کا جواب تھا ’’مثلاً سردار محمد خان لغاری ریگولر ہمارے گھر آتے تھے اور مونس الٰہی کے لنچ میں شریک ہوتے تھے‘ باقی فہرست میں چند دنوں میں آپ کو دے دوں گا‘ ہم ن لیگ سے سرائے عالم گیر کی سیٹ بھی لینا چاہتے تھے‘ ہم نے بہت زور لگایا لیکن ن لیگ کا کہنا تھا عابد رضا وہاں سے دو بار منتخب ہو چکے ہیں۔

ہم یہ سیٹ نہیں دے سکتے بہرحال معاملات ایک بار پھر چل رہے تھے‘ اس بار حکومت کے دوسرے اتحادی بھی ایک ایک کر کے ہم سے ملنے لگے اور ہر ملاقات سے پہلے چوہدری پرویز الٰہی والد صاحب سے کہتے تھے آپ ان سے کہیں یہ میڈیا ٹاک میں میری چیف منسٹری کی بات ضرور کریں اور ہم ہر اتحادی سے بھی یہ کہلواتے تھے لیکن مونس الٰہی نے ایک بار پھر یہ مذاکرات سبوتاژ کرا دیے‘ چوہدری شجاعت اور وجاہت حسین دونوں کو شدید غصہ آیا‘ خاندان کے اندر بھی غم اور غصہ تھا‘ ہم بہرحال خاموش ہو کر بیٹھ گئے لیکن پھر پرویز الٰہی نے عمران خان کے خلاف انٹرویوز دینا شروع کر دیے۔

ان سے پی ڈی ایم تھوڑی سی نرم ہوئی اور پرویز صاحب نے شجاعت صاحب کو مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے پاس جانے کا کہا‘ والد صاحب کا جواب تھا مونس ہر بار گڑ بڑ کر دیتا ہے‘ میں کس منہ سے ان کے پاس جاؤں؟ پرویز صاحب کا کہنا تھا‘ میں نے مونس کو لندن بھجوا دیا ہے‘ یہ اب عدم اعتماد تک واپس نہیں آئے گا‘ آپ آخری کوشش کر لیں‘ مونس اس وقت واقعی لندن جا چکا تھا‘ ہم نے بہرحال ملاقاتیں شروع کر دیں‘ مولانا کا رویہ بہت سخت تھا۔

میں نے زندگی میں پہلی بار والد کو اتنی سخت باتیں برداشت کرتے دیکھا تھا‘ مجھے اس بے عزتی پر بہت غصہ آ رہا تھا لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ آصف علی زرداری نے بھی ہمیں سنائیں اور کہا‘ میں دو بار آپ کے پاس بارات لے کر آیا لیکن عین وقت پر دلہا بھاگ جاتا تھا‘ بہرحال آخر میں انھوں نے کہا‘ میں نواز شریف کو تیار کر لوں گا لیکن آپ حلف دیں اس بار کوئی گڑ بڑ نہیں ہوگی اور ہم نے حلف دے دیا یوں تیسری بار مذاکرات شروع ہو گئے اور ن لیگ کا وفد باقاعدہ وزارت اعلیٰ لے کر ہمارے گھر آ گیا‘ یہ 27 مارچ کی رات تھی‘ کھانے کا مینیو پرویز الٰہی نے خود تیار کیا تھا‘ استقبال بھی انھوں نے کیا تھا اور یہ اس رات غیر معمولی حد تک خوش بھی تھے‘ رانا ثناء اللہ نے بات شروع کی اور کہا‘ ہم آپ کے لیے میاں نواز شریف کا پیغام لے کر آئے ہیں۔

ہم آپ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ پیش کرتے ہیں‘ چوہدری پرویز الٰہی دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر تھوڑے سے جھکے اور کہا‘ مجھے قبول ہے‘ سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کی اور آخر میں خواجہ سعد رفیق نے دس منٹ لمبی دعا کرائی‘ وفد رخصت ہوا تو پرویز الٰہی نے پورچ میں کھڑے کھڑے ہمارے خاندانی ملازم فہیم کو بلایا اور کہا دوڑ کر جاؤ اور پھول اور پھلوں کے ٹوکرے لے کر آؤ‘ ہم ابھی شکریے کے لیے بلاول ہاؤس جا رہے ہیں۔

ہم نے کہا‘ رات زیادہ ہو گئی ہے‘ ہم صبح چلے جائیں گے مگر یہ بہت زیادہ پرجوش تھے‘ بہرحال پھلوں کے ٹوکرے اور پھول آ گئے اور ہم بلاول ہاؤس پہنچ گئے‘ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو دونوں ہمارے ساتھ ملے‘ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور خوش خوش واپس آ گئے۔‘‘

میں نے پوچھا ’’کیا مونس الٰہی اس وقت تک لندن سے واپس آ چکے تھے؟‘‘ سالک حسین کا جواب تھا ’’جی ہاں‘ یہ واپس آ چکے تھے اور یہ ن لیگ کی طرف سے آفر کے دوران بھی موجود تھے‘ ہم واپس آ کر کمروں میں چلے گئے تو پرویز الٰہی کا ملازم اشرف آیا اور اس نے مجھے اٹھا کر کہا‘ آپ کو چوہدری صاحب بلا رہے ہیں‘ میں پرویز صاحب کے پاس گیا تو یہ مضطرب ہو کر ٹہل رہے تھے‘ ان کا خیال تھا‘ مجھے خطرہ ہے عمران خان کہیں کل پنجاب اسمبلی نہ توڑ دے لہٰذا آپ فوری طور پر ن لیگ سے ملیں اور عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا دیں۔

میں فوراً منسٹر انکلیو گیا‘ ہم طارق چیمہ کے گھر میں بیٹھے‘ ن لیگ کے لوگوں کو بلایا‘ عطاء تارڑ نے فون کر کے اپنے ایم پی ایز کو اٹھایا اور عثمان بزدار کے خلاف تحریک کا بندوبست شروع کر دیا‘ پرویز صاحب نے محمد خان بھٹی کو لاہور بھجوا دیا تھا‘ میں صبح فجر کے وقت واپس آیا‘ نو بجے سویا ہوا تھا تو اشرف نے مجھے ایک بار پھر اٹھا دیا‘ میں پرویز صاحب کے پاس آیا تو وہ بہت پریشان تھے‘ ان کا کہنا تھا نو بج گئے ہیں لیکن ن لیگ کے لوگ ابھی تک تحریک لے کر پنجاب اسمبلی نہیں پہنچے‘ پتا کرو یہ تاخیر کیوں ہو رہی ہے اور میں ہاتھ منہ دھوئے بغیر ایک بار پھر اس کام پر لگ گیا اور یوں تحریک جمع ہو گئی‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر چوہدری پرویز الٰہی عمران خان کے پاس کیوں چلے گئے؟‘‘ سالک حسین نے ہنس کر جواب دیا ’’ یہ ایک حیران کن واقعہ تھا‘‘۔

(جاری ہے)
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے