منافقت کا طلائی تمغہ جیتنے والے

ایک سوال ایسا ہے جس پر کم و بیش تمام کالم نگار کالم لکھ چکےہیں، ہر اینکر پرسن ٹی وی پروگرام کر چکا ہے اورہر تجزیہ نگار اپنا تجزیہ پیش کر چکا ہے۔ ہر محفل میں اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہر سیانے بندے سے اِس پر رائے لی جاتی ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اب تک اِس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا جا سکا۔ سوال بڑا سادہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں گالم گلوچ اور بد تمیزی کا کلچر اِس قدر عام کیوں ہو گیا ہے؟ اِس معاملے میں عام طور پر سیاسی جماعتوں کو موردِ الزام ٹھہراکر کہا جاتا ہے کہ لیڈران چونکہ بیہودہ زبان استعمال کرتےہیں اِس لیے اُن کے پیروکار بھی وہی رویہ اپنا لیتے ہیں اور یوں معاشرے میں بد زبانی کا چلن عام ہوجاتا ہے۔ ایک اور توجیہہ یہ دی جاتی ہے کہ سوشل میڈیا پرچونکہ کسی کو شناخت کرنا ممکن نہیں ہوتا اِس لیے وہاں لوگ کھل کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں، روکنے ٹوکنے والا کوئی ہوتا نہیں توجذبات کی رو میں بہہ کر گالی بھی ’کی بورڈ‘ سے نکل جاتی ہے۔ ایک بات اور بھی کہی جاتی ہے کہ گالم گلوچ کی یہ روایت نئی نہیں ،فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ گفتگو گلی محلوں میں تھڑوں پر بیٹھ کر کی جاتی تھی، اب موبائل فون کے ذریعے کی جاتی ہے۔

جب بھی کسی مذاکرےیا نشست میں مجھ سے یہ سوال کیا جاتا تھا تو میں یہی تین جوابات دیا کرتا تھا لیکن سچ پوچھیں تو میں اِن جوابات سے مطمئن نہیں۔ سیاسی لیڈران کی بد زبانی اپنی جگہ مگر ایسا نہیں ہوتاکہ کوئی شخص خواہ مخواہ جلسے میں گالیاں بکنا شروع کردے اور لوگ تالیاں پیٹنے لگیں۔ تاہم سیاسی لیڈران کو بہرحال اِس سے مکمل طور پر بری الذمہ بھی قرار نہیںدیا جا سکتا ، اُن کے انداز گفتگو اور بیان بازی سے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور اُن جیسا طرز عمل اپناتے ہیںکیونکہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ سوشل میڈیا والی توجیہہ بھی فقط دل کے بہلانے کو اچھی ہے۔ پہلے تو یہ بات ہی غلط ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگوں کا پتا نہیں چلایا جا سکتا، کسی گمنام خط کے مقابلے میں سوشل میڈیاکھاتے کا سراغ لگانا زیادہ آسان کام ہےالبتہ یہ بات درست ہے کہ وہاں لوگ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ لوگوں کے پاس گالم گلوچ والےکھاتوں کی راہ مسدود کرنے (Block)کا اختیار ہوتا ہےجبکہ ڈاک کے زمانے میں یہ اختیار نہیں ہوا کرتا تھا ۔اور پھر سوشل میڈیا کیا صرف پاکستان میں ہی آیا ہے،باقی دنیا میں نہیں آیا؟ اگر تو دنیا بھر میں گالم گلوچ کی روایت عام ہوگئی ہے تو پھر ہمیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ ہم انوکھے نہیں لیکن اگر صرف ہمارے ہاں ہی ایسا ہے تو پھر یہ سوشل میڈیا کا قصور نہیں، وجہ کچھ اور ہے ۔تیسری اور آخری دلیل تو ویسے ہی Self Defeating ہے کیونکہ اگر ہمارا معاشرہ پہلے ہی بد زبان تھا تو پھر بد زبانی کایہ سوال اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔

اصل سوال بد زبانی یا گالم گلوچ کا نہیں، اصل سوال اُس نفرت کا ہے جو گالی کا سبب بنتی ہے۔ یہ نفرت کیوں ہے اور کس سے ہے؟ ایک مثال سے سمجھ لیتے ہیں۔ آج کل پورے ملک میں بارشیں ہو رہی ہیں، بلوچستان میں سیلاب کے باعث بیسیوں لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں، ہزاروں کے گھر تباہ ہوچکے ہیں، غریبوں کے بچوں کی لاشیں پانی میں بہہ رہی ہیں، چھوٹے چھوٹےمعصوم بچے گھر سے بے گھر ہوچکے ہیں…. یہ تمام مناظر ہم ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں اور بظاہر ایک آہ بھر کر اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم پر اِن کا کوئی اثر نہیں ہوتا جبکہ حقیقت میں یہ ہمارے ذہن پر ایک نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم اخبار کھولتے ہیں تو پچھلے صفحے پر ایک سنگل کالمی خبر پر نظر پڑتی ہے کہ چوتھی جماعت کی بچی کو ریپ کرکے قتل کردیا گیا، ملزم اسکول کا چوکیدار نکلا۔ہمارے ذہن پر ایک نقش اور بن جاتا ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر، بے ہنگم ٹریفک، بڑھتی ہوئی آبادی، اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے لوگ، سرکاری دفاتر میں ذلیل ہونے والے شہری، شاپنگ مالز میں کام کرنے والی لاغر لڑکیاں، چوراہوں میں بھیک مانگنے والے بچے…. ہمارے ذہن پر ایک کے بعد ایک نقش چھوڑتے چلے جاتے ہیںاور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اِس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی لیڈر کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ فلاں شخص یا گروہ تمہاری بربادی کا ذمہ دار ہے اور ساتھ میں وہ گالی بھی دیتا ہے تو ہمیں سکون ملتا ہے کیونکہ وہ لیڈر دراصل ہماری اُس نفرت کو کیش کروا رہا ہوتا ہے۔ مجھے اِس نفرت کے اظہار پر اب کوئی حیرت نہیں ہوتی اور نہ ہی مجھے ایسے لوگو ں کی غیر منطقی سوچ عجیب لگتی ہے کیونکہ یہ سوچ اور نفرت دراصل نظام کی اُس ناکامی کا شاخسانہ ہے جس کی ذمہ دار تگڑی آمریتیں بھی ہیں اور لنگڑی لولی جمہوریتیں بھی۔ کوئی بھی اِس سے بری الذمہ نہیں۔ لوگ جب گزشتہ75برسوں میں اپنائی جانے والی یہ متضاد پالیسیاں اور اِن کے نتائج دیکھتے ہیں تو انہیں اپنی نفرت اور گالی کی شکل میں اِس کا اظہار بالکل منطقی اور درست لگتا ہے۔

اِن تمام باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ماں بہن کی غلیظ گالیاں دینے والوں کا جواز درست تسلیم کرلیا جائے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اِن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خود اشرافیہ کا حصہ ہیں اور گزشتہ75برسوں میں ہونے والے اِس ظلم میں برابر کے شریک ہیں، یہ لوگ گالیوں میں اپنا حصہ صرف اِس لیے ڈالتے ہیں کہ شہیدوں میں اپنا نام لکھوا سکیں اور اپنے ضمیر کو یہ دلاسہ دے کر سلا سکیں کہ دیکھو میں تو نظام بدلنے کی جدو جہد میں اپنا حصہ ڈال رہا ہوں۔ بے شک یہ لوگ منافقت کے طلائی تمغے کے حقدار ہیں!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے