گرین لینڈ ہوٹل بند ہوگیا!

میں نے ڈرائیور سے کہا گاڑی نکالو اور منہ طرف موٹروے کرکے اسلام آباد کے لئے روانہ ہو جائو۔ اسلام آباد پہنچ کر میں نے اس سے کہا اب یہاں سے سیدھا ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے گھر کی طرف کار کا رُخ موڑو۔ باہر جا کر بیل دی، ڈاکٹر صاحب اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ میرے سامنے کھڑے تھے، میں نے کہا ’’بیٹھیں‘‘ ۔ وہ گھر کا مین دروازہ وا کرنے لگے تو میں نے عرض کی سرکار میں نے نہیں، آپ نے میرے ساتھ بیٹھنا ہے۔ میرے ساتھ لاہور سے میرا نوجوان خوبصورت دوست ابرار ندیم بھی آیا تھا۔ انعام الحق جاوید کی طرح اس کے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا، ہم دوستوں کا معاملہ یہی ہے ’’ہمہ یاراں دوزخ، ہمہ یاراں بہشت۔‘‘ سو انہیں علم نہیں تھا کہ میں انہیں ’’اغوا‘‘ کرکے کہاں لے جا رہا ہوں، دوزخ میں یا بہشت میں۔انہیں تب منزل کا کچھ احساس ہوا جب میں نے گاڑی کا رُخ کوہ مری ’’پہاڑ‘‘ کی طرف موڑنے کا کہا۔

تب ڈاکٹر انعام الحق جاوید گویا ہوئے، ’’قبلہ مجھے کچھ زادِ راہ لے جانے کا موقع تو دیتے‘‘۔یہیں پر ابرار بولا ’’مجھے بھی انہوں نے کچھ نہیں بتایا تھا‘‘۔ میں نے ان کی یہ ہوش ربا گفتگو سنی تو خیال آیا کہ واقعی مجھے بھی گھر سے کچھ ’’مال پانی‘‘ لے کر نکلنا چاہیے تھا۔ مری کی رونقیں اسی طرح عروج پر تھیں جیسی اس موسم میں ہوتی ہیں۔ مال روڈ پر پہنچنے سے پہلے مختلف ہوٹلوں کے ایجنٹ اپنے ہوٹل کے کارڈ ہمارے ہاتھوں میں تھمانا شروع ہوئے۔ ’’سر آپ ایک دفعہ ہمارے ہاں قیام کریں گے تو پھر کہیں اور قیام کو جی نہیں چاہے گا‘‘۔ میں نے ہر ایک کو سمجھایا کہ یہ دنیا قیام کی جا نہیں ہے۔ بس چند دن یہاں رہنا ہے پھر اوپر سے بلاوا آ جانا ہے مگر میری اس تصوفانہ گفتگو سے انہیں کوئی غرض نہیں تھی۔ ایک نے کہا جتنے دن بھی یہاں ہیں ، بس ہمارے ہاں قیام کرکے دیکھیں۔ بلاوا آنے پر سارے انتظامات ہم پر چھوڑ دیں۔ ایک ایجنٹ تو بلا کا محنتی شخص تھا، یہاں ٹریفک جام تھی، سو وہ کار کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور جہاں ذرا سی بریک لگتی وہ اپنے ’’ڈریم لینڈ ہوٹل‘‘ کا کارڈ ہم تینوں کے علاوہ ڈرائیور کو بھی تھما دیتا۔میں جہاں اس شخص کی اپنے کام کے ساتھ وابستگی سے متاثر تھا وہاں مجھے الجھن ہونے لگی تھی کہ اس کارندے کے علاوہ دوسرے ہوٹلوں کے کارندے بھی کار کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے’’سر ہمارا ہوٹل ابھی کل مکمل ہوا ہے‘‘۔ اس کی ابھی چٹیں بھی نہیں اتریں۔ میںنے اسے کہا ’’چھ مہینے تک پتہ چلے گا کہ اس کی تعمیر میں کیا میٹریل استعمال کیاگیا ہے، میں ان شا اللہ چھ ماہ بعد آئوں گا اور اگر یہ موجود ہوا تو تم سے وعدہ ہے یہیں قیام کروں گا‘‘۔ اس پر وہ بدتمیز بولا ’’ سر اگر بندے کی شکل اچھی نہ ہو تو وہ بات تو اچھی کرے۔

اب ہم مری کے قدیم ترین جی پی او پہنچ چکے تھے سب ہوٹلوں کے ایجنٹ اب ادھر ادھر بکھر چکے تھے بس ایک ڈریم لینڈ ہوٹل کا ایجنٹ ابھی تک ہمارے پیچھے تھا ،اس پر میری رگ ’’خباثت‘‘ پھڑکی میں نے اسے اپنا کان میرے قریب لانے کو کہا اور بہت راز درانہ انداز میں بتایا کہ میں جس محکمے سے تعلق رکھتا ہوں مجھے ابھی وہاں سے فون آیاہے کہ مری کا ڈریم لینڈ ہوٹل گرانے کا حکم دے دیا گیا ہے اور اس کام کے لئے عملہ روانہ ہو گیا ہے تم مجھے اچھےآدمی لگتے ہو فوراً واپس جائو، مالکوں کو اطلاع کرو اگر وہ یہ حکم رکوا سکتے ہیں تو رکوا لیں، یہ سن کر اس کا رنگ فق ہو گیا اور وہ چشم زدن میں وہاں سے غائب ہو گیا۔

اب گاڑی کی پارکنگ کا مسئلہ تھا جس کے لئے ’’رقم‘‘ درکار تھی ڈرائیور کہنے لگا سرفکر نہ کریں آپ نے کچھ فالتو رقم ہنگامی ضرورتوں کے لئے میرے پاس رکھوائی ہوئی ہے آپ یہیں کھڑے ہوں میں آتا ہوں اتنے میں ایک خوبصورت دراز قد ٹریفک انسپکٹر میرے پاس آیا مجھے کھٹکا محسوس ہوا کہ ٹریفک کی کوئی غلطی پکڑی گئی ہے مگر وہ تو مجھ سے بے پناہ محبت کرنے والا تھا، اس کا نام عمر عباس تھا، اس نے بتایا میں صرف آپ کے کالم کےلئے اپنےوالد کو روزنامہ جنگ باقاعدگی سے دیا کرتا تھا ،سوری یہ پیرا ہمارے کالم کی ’’ابسرڈ‘‘ ہیئت کو حقیقت کے قریب لے آیا بہرحال خوبصورت مری کی خوبصورت مال پر خوش وخرم لوگوں کےساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے مرحبا ہوٹل پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ یا تو بند ہو چکا ہے یا شام کو کھلے گا۔ واضح رہے میں کالم کے کلائمکس کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہوں ہم اس دوران وہاں پہنچ گئے جہاں دس بارہ گھوڑے اپنے سواروں کے منتظر تھے، ارد گرد کھانے پینے کی دکانیں تھیں۔ اب سب کو بھوک لگ چکی تھی ہم ڈرتے ڈرتے ایک پکوڑوں کی دکان پر بیٹھ گئے اب مسئلہ ’’مال وزر‘‘ کا تھا اس دوران انعام الحق جاوید نے مجھے مخاطب کیا اور کہا آپ نے کیسے سوچ لیا تھا کہ میں خالی جیب مری روانہ ہو جائوں گا پھر اس کےساتھ ہی انہوں نے پانچ پانچ ہزار کےپانچ نوٹ میز پر اس طرح رکھے جیسے کوئی چودھری کہہ رہا ہو اب آپ ’’شو‘‘ کرو، چنانچہ میں نے ڈرائیور سے کہا تمہارے پاس میری جتنی رقم ہے وہ ’’شو‘‘ کرو، اس نے دس نوٹ میز پر رکھ دیئے اب ابرار کی باری تھی ابرار شاعر بھی ہے کالم نگار بھی ،اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور معقول رقم میز پر رکھ دی ہم نے باہمی میٹنگ کی کہ اتنے پیسوں سے پکوڑوں کی یہ دکان ہی خریدلیتے ہیں ۔مگر دکاندار سے سودا فائنل نہ ہوا چنانچہ ہم نے پچاس روپے کے پکوڑے کھائے اور دکاندار سے کہا اگلی دفعہ ہم بہرحال بیعانہ دے کر جائیں گے ۔

اور اب کالم کی ’’اخیر ‘‘ یہ ہے کہ جب ہم واپس اپنی کار کے پاس پہنچے تو گرین لینڈ ہوٹل والا محنتی کارندہ وہاں نظر آیا اور اس نے مجھے دیکھ کرآنکھ ماری اور پھر شرارت آمیز انداز میں با آوازِ بلند کہا ’’سر گرین لینڈ ہوٹل بند ہو گیا ‘‘اور اس کے ساتھ ہی جناتی قسم کے قہقہے لگانے لگا۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے