سانحہ آرمی اسکول کے طلبہ پر برے اثرات

سولہ دسمبرکےدن معلوم ہوا کہ دہشتگرد آج تک کی اپنی تمام بھیانک کارروائیوں سے زیادہ بڑی، بھیانک اور پرتشدد کارروائی بھی کر سکتے ہیں، اور یہ کہ ہمارے بچوں کو بھی ایسی بربریت کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے

سولہ دسمبرکےدن معلوم ہوا کہ دہشتگرد آج تک کی اپنی تمام بھیانک کارروائیوں سے زیادہ بڑی، بھیانک اور پرتشدد کارروائی بھی کر سکتے ہیں، اور یہ کہ ہمارے بچوں کو بھی ایسی بربریت کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے کہ جس کو بیان کرنے کے لیے دنیا کی کسی زبان میں الفاظ موجود نہیں۔ جس دن سات عسکریت پسندوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے 144 معصوموں — 122 طلبا اور 22 اساتذہ و اسٹاف کو ایک ایسے دہشتگرد حملے میں ہلاک کر دیا گیا جس نے نہ صرف ملک کو سوگوار کیا، بلکہ پوری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا۔ایک بڑی عسکریت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جس کے خلاف سکیورٹی فورسز کارروائی کر رہی ہیں،نے اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔یہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی جنگ میں ایک فیصلہ کن گھڑی تھی۔ اس عظیم سانحے نے ہماری بے بسی کو بھی عیاں کیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہمیں تبدیل بھی کیا، بھلے ہی اس طرح نہیں کہ جس سے ہم ایک پائیدار امن کی جانب جائیں۔اس بدترین حملے پر ہمارا ردِعمل ہوشمندی کے بجائے جذبہء انتقام پر مبنی تھا۔ فوراً بعد حکومت نے سزائے موت پر عائد غیر اعلانیہ پابندی اٹھا لی اور عزم ظاہر کیا کہ صرف دہشتگردی کے مجرمان کو پھانسی دی جائے گی۔بلاشبہ کچھ ایسے اقدامات ضرور اٹھائے گئے جن کی اشد ضرورت تھی۔ حکومت نے ایک جامع قومی ایکشن پلان کا اعلان کیا تاکہ معاشرے سے مذہبی انتہاپسندی کا خاتمہ کیا جا سکے۔نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا گیا ہے۔ کئی مشتبہ مدارس بند کیے گئے ہیں، جبکہ فرقہ وارانہ تنظیموں کی قیادت کو بھی زک پہنچائی گئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے سکول میں ہونے والی خون ریزی ،جس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا،کے ان بچوں پر، جنہوں نے یہ سانحہ اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھا اور ان خاندانوں پر، جنہوں نے اپنے بچے کھوئے، دور رَس نفسیاتی اثرات مرتب کئے ہیں۔طالب علم اور والدین حادثہ کے بعد کے دباؤ، ذہنی تناؤ اور تشویش کااب تک شکار ہیں۔جس کی مثال ان چند نوجوانوں سے ہی مل جاتی ہے جن کے حالات و واقعات منظر عام پر آئیں ہیں جن میں جماعت ششم کا ایک طالب علم نعمان خان ذہنی طور پر اس حادثے سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ سانحہ کے دو دن بعدتک بول نہیں سکا۔ نعمان کے والد ہارون خان نے کہنا ہے وہ ہنوز بہت زیادہ خوف زدہ تھا اور اب تک اس کے اثرات سے باہر نہیں آسکا۔
جب عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تو ہارون خان کے دو بیٹے اس وقت اسکول میں موجود تھے کیا۔ ان کے اہلخانہ کہتے ہیں کہ وہ دونوں ہنوز اس صدمے سے متاثر اور اس کے زیرِ اثر ہیں۔ماہرِ نفسیات ڈاکٹر میاں افتحار حسین کا کہنا ہےکہ بچے صدمے کے زیرِ اثر ہیں لیکن ان کے والدین بھی یکساں طور پرلیکن خاموشی سے ایسی ہی کیفیات سے دوچار ہیں۔مثال کے طور پر ہارون کو رات کے وقت سونے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کی بھوک ختم ہوچکی ہے‘ ڈاکٹر افتخارکے مطابق یہ علامتیں جذباتی ہیجان اور ذہنی تناؤ کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

بہت سے والدین صدمہ کے باعث دباؤ کا شکار ہیں جیسا کہ ہارون کے ذہن میں اس دن کی یادداشتیں واضح ہیں اور یہ تاحال ان کے ذہن پر سوار ہیں۔ہارون کہتے ہیں کہ میں دہشت گردی کے سانحہ کے فوراً بعد سکول پہنچ گیا تھا۔ میں نے گولیوں اور بم دھماکوں کی آواز سنی لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ میں اس بے بسی، عدم تحفظ اور افسردگی کو فراموش نہیں کر پاؤں گا جو میں نے ان گھنٹوں کے دوران محسوس کی جب میں سکول کے باہرکھڑا بچوں کے باہر آنے کا انتظار کر رہا تھا، میں اپنے بچوں کے حوالے سے پرامید اور دعا گو تھا۔

ڈاکٹر افتخار کے مطابق والدین میں ناامیدی، بے بسی، دکھ اورکمزور ہونے کا احساس بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائی حوصلہ شکن اور غیرمعمولی تھی ‘ اور اس کے بچوں، والدین، ان کے دوستوں اورا ہل خانہ کے ارکان پر نفسیاتی اثرات مرتب کئے ہیں جو عرصے تک اثر پذیر رہیں گے۔

پشاور سانحے نے ناصرف آرمی پبلک سکول کے بچوں کو براہِ راست متاثر کیا ہے بلکہ میڈیا میں دکھائی جانے والی تصاویر اور نشر کی جانے والی ویڈیوز نے مُلک کے باقی حصوں کے بچوں پر بھی نفسیاتی اثرات پیدا کیے ہیں۔ حکومت جہاں آرمی اسکول کے بچوں کیلئے نفسیاتی صحت کی بحالی کےلئے سرگرمیوں کا انتظام کر رہی ہے وہیں اُسے ملک کے باقی بچوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چایئے۔ایسی صورتحال میں نفسیاتی معاونت کی فوری فراہمی حادثے کے بعد کے دباؤاور دیگر نفسیاتی عارضوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں کے بچوں کو بھی نفسیاتی معاونت فراہم کی جانی چاہیے جو اگرچہ جغرافیائی اعتبار سے دور ہیں لیکن اس خون ریز سانحہ کے باعث تاحال مشکلات کا شکارہیں۔اس وقت ضرورت اس اِمر کی ہے کہ بچوں میں دم توڑتی غیر نصابی سرگرمیوں میں اُن کی دلچسپی اور شرکت کو لازمی بنانے کی ضرورت ہے۔ جسمانی مقابلوں اور کھیل کود کو فروغ دے کر ہم اپنی آنے والی نسل کو جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط کرسکتے ہیں۔ نیم فوجی تربیت سے ہم اُنہیں کسی بھی انہونی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرسکتے ہیں اور وہ بچے جو دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں ’نارمل زندگی میں اُن کی بحالی‘ پر فلم اور کہانیوں کی مدد سے ہم اس عفریت کے خوف سے چھٹکارہ پاسکتے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ اپنے تمام تر وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے فوری طور پر بچوں اور ان کے خاندانوں کے نفسیاتی علاج کے لیے اقدامات کرے۔ کیونکہ اگر ہم بچوں کے شعور کی سلامتی چاہتے ہیں تو ریاست کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی زندگی کا احترام کرنا سکھائے، وہ لوگوں کو ایک محفوظ زندگی کا وعدہ دے سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے