امریکہ یکطرفہ پابندیوں کے غلط رجحان سے دنیا کے مشترکہ مفادات کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے

امریکی میڈیا ہاؤسز کی جانب سے امریکہ کو "پابندیوں کی سپر پاور” سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔- حالیہ کچھ عرصے میں، متعدد بہانوں کی آڑ میں، امریکہ نے حال ہی میں متعلقہ چینی کاروباری اداروں اور افراد کے خلاف یکطرفہ انداز میں پابندیاں عائد کی ہیں۔ امریکی انتظامیہ جس طرح سے خود ساختہ فیصلوں سے اور اپنے دائرہ اختیار سے دوسرے ممالک میں دھونس، جبر اور دھمکیاں دکھاتا ہے، وہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کو کنٹرول کرنے والے بنیادی اصولوں کی سنگین اور صریحاً خلاف ورزی ہے۔ امریکی انتظامیہ ایک طرف بین الاقوامی تجارت کے قواعد و ضوابط کو سبوتاژ کرتا ہے، اور عالمی صنعتی اور سپلائی نیٹ ورک کے استحکام کو خطرات سے دوچار کرتا ہے، وہیں امریکہ، یکطرفہ پابندیوں کی لاٹھی لہراتے ہوئے، دنیا کے مشترکہ مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے ، بالخصوص ایک ایسے وقت جب عالمی اقتصادی بحالی سست روی کا شکار ہے اور عالمی ترقی کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس تمام تر چیلنجنگ صورتحال میں چین امن کی آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یہ بین الاقوامی سلگتے مسائل اور ایشوز پر ہمیشہ ایک مثبت اور تعمیری رائے رکھتا ہے، اور تاریخی تناظر اور مسائل کی خوبیوں کی بنیاد پر آزادانہ طور پر حالات کا جائزہ لیتا ہے۔ چین اور دنیا کے دیگر متعلقہ ممالک کی طرف سے باہمی احترام، مساوات اور باہمی فوائد کی بنیاد پر اور بین الاقوامی قانون کے فریم ورک کے تحت کیے جانے والے معمول کے اقتصادی اور تجارتی تعاون کا احترام اور تحفظ کیا جانا چاہیے اور کسی تیسرے فریق کی مداخلت اور پابندی سے پاک ہونا چاہیے۔درحقیقت امریکہ کی طرف سے لگائی گئی.

من مانی اور یکطرفہ پابندیوں کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ یکطرفہ پابندیاں، جو مخصوص ممالک اور ان کے شہریوں کے لیے وضع کی گئی ہیں، واضح طور پر امتیازی سلوک پر مبنی ہیں۔ ایک طویل عرصے سے، امریکہ نے اپنے ملکی قوانین کو بین الاقوامی قانون سے بالاتر رکھا ہے اور قومی سلامتی کے تصور اور ریاستی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے نظریے کی بنیاد پر معاشی اور تجارتی مسائل کو ہتھیار بنانے اور سیاست کرنے کے لیے، من مانی طور پر مارکیٹ کے قوانین اور بین الاقوامی تجارتی قواعد و ضوابط کے خلاف عوامل پر عمل پیرا ہے۔ یہ عالمی امن اور استحکام کو بگاڑنے والا اور عالمی ترقی اور خوشحالی کے سفر کو سبوتاژ کرنے کی مترادف ہے۔ دی نیشنل انٹرسٹ نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ وسیع اقتصادی اور ثقافتی پابندیوں کا نفاذ 1970 کی دہائی میں امریکہ کے وسیع پالیسی ٹول باکس میں ایک معمولی تیر کے طور پر ابھر کر آج امریکہ کی خارجہ پالیسی کا انتخابی ہتھیار بن چکا ہے۔ امریکہ کے لیے اپنے ملکی قوانین کو دوسرے ممالک پر مسلط کرنا مکمل طور پر غیر معقول اور غیر قانونی ہے۔ امریکہ ہمیشہ دوسرے ممالک کو دھمکیاں دیتا ہے اور یکطرفہ پابندیوں اور "اپنے من مانے فیصلوں، دھونس دھمکیوں” کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کے گھریلو معاملات میں مداخلت کرتا ہے، انہیں بین الاقوامی ہاٹ اسپاٹ ایشوز پر فریق بننے پر مجبور کرتا ہے اور کاروباری مقابلوں میں ان کے اداروں کا استعصال و ظلم کرتا ہے۔ امریکہ دوسرے ممالک کو ان کے جائز ترقیاتی مفادات سے دبانے اور ان وسائل سے اپنے مفادات کے تحت محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے یکطرفہ پابندیوں کا غلط استعمال عالمی سطح پر عوامی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

امریکہ نے گزشتہ صدارتی دور میں دنیا بھر میں حکومتوں، افراد، تنظیموں اور مارکیٹ کے اداروں پر 3,800 پابندیاں عائد کی تھیں۔ یہ اوسطاً ایک دن میں تین نئی پابندیاں ہیں۔ کوئی تعجب نہیں کہ ایک امریکی میڈیا آؤٹ لیٹ نے امریکہ کو "پابندیوں کی سپر پاور” سے تعبیر کیا ہے۔ سست اقتصادی عالمی بحالی سے نمٹنے کے لیے دنیا کو یکجہتی اور تعاون کی فوری ضرورت ہے۔ یکطرفہ پابندیوں کا امریکی غلط استعمال متعلقہ فریقین کے جائز مفادات کو نقصان پہنچانے کے مترداف ہے، اور ان عوامل سے امریکہ بین الاقوامی تبادلوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، اور میکرو اکنامک پالیسیز پر بین الاقوامی رابطے میں رکاوٹ کا باعث بھی بنا ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ یکطرفہ اقدامات اور پابندیاں عالمی توانائی، خوراک اور مالیاتی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی معاشرے کی صلاحیت کو بھی کمزور کرتا ہے، دنیا کو بڑی مشکلات میں گھسیٹتا ہے اور خود امریکہ کے لیے ناگزیر نتائج لاتا ہے۔ اس کے علاوہ، یکطرفہ پابندیاں امریکہ میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، جس سے امریکی شہریوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے یوریشیا سینٹر کے سینئر فیلو ایڈورڈ فش مین نے نوٹ کیا کہ اس بات کے بہت کم شواہد موجود ہیں کہ امریکی پالیسی سازوں کے پابندیوں کے لیے بڑھتے ہوئے عزائم امریکی پالیسیز کے نتائج کو حاصل کرنے کی صلاحیت میں کسی بھی اضافے سے مماثل ہیں جو وہ چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس، تقریباً کسی بھی اقدام سے، امریکی پابندیوں کی پالیسی ناکام ہو رہی ہے۔ آج کی دنیا میں، کوئی بھی ملک اکیلے چیلنجوں سے نمٹنے یا خود ہی سب کچھ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ یکطرفہ پابندیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے اور دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے سے، امریکہ صرف اپنی "قیادت” کو مزید کمزور ہوتا دیکھے گا۔ اس پیرائے میں ملک کو اپنی غلطیوں کو درست کرنا چاہیے، چینی اداروں اور افراد پر اپنا بے بنیاد ظلم بند کرنا چاہیے، اور عالمی صنعتی اور سپلائی نیٹ ورک کے استحکام کو برقرار رکھنے اور عالمی اقتصادی بحالی کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے