پا کستان زندہ باد ​

آج کل ، پاکستان میں ایسی سیاست نظر آرہی ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی، کیا ہم اپنی اصلی منزل کی طرف گامزن ہیں یا ایسا فاشسٹ نظام حکومت معرض وجود میں آنے والا ہے جو ہمیں کئی مسائل سے نکال با ہر کرےگا۔مثلا کرپشن کا خا تمہ، بہترین انتظام حکومت، آزاد خارجہ پالیسی، امریکی تسلط سے آزادی شامل ہونگے اور پاکستان جلد ہی دنیا میں معاشی ترقی کے اہداف کو حاصل کر نے کے قابل ہوجا ئے گا۔ سچی، ایماندار اور محنتی قیادت نصیب ہوگی۔

مغربی ممالک کو ترقی کا ماڈل سمجھا جا تا ہے اور انکی سماجی اور معاشی ترقی نے غریب ممالک کو واضح بتا یا کہ ترقی کیا ہوتی اور اس ترقی میں انصاف، عدل، قانون کی بالا دستی اور حکمرانی کے اُصول کیا ہو تے ہیں۔ اب تو ہماری مسلسل ناکامیوں کے نتیجہ میں مغربی خیالات ، نظریات اور نظام ہائے زندگی کے تمام تر نمونے وہیں سے ملتے ہیں۔ پاکستان میں ریاست مدینہ کے تصور کے ساتھ مغرب میں ترقی کے راز بھی جلسوں میں سنا ئے جا تے ہیں۔ تاریخ کے طلبہ غور کریں کہ مغرب اس مقام پر کس طرح اور کن ارتقائی مراحل کو طے کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔ ہمارے محبوب قائد ہمیں متحرک کر نے اور اپنی شخصیت کو اُبھارنے کے لئے اور قوم کو ایک دم اُوپر اُٹھانے کا فلسفہ منٹوں میں پیش کر دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ مغرب نے یہ مقام، پاپائیت، جا گیردارانہ نظام اور علا قائی جنگوں، با دشاہوں اور جنگجو گروہوں سے تین صدیوں سے نبرد آزما ہو کر حا صل کیا اور ہمارے قائد ہمیں بغیر محنت، بغیر ذہن سازی اور وسائل کے صحیح استعمال کے طریقے بتا ئے بغیر ہی کھلی آنکھوں سے خواب دکھا رہے ہیں۔

پا کستا نی سیاست ، اسکے قیام سے قبل اور بعد میں بھی کسی واضح سمت کی طرف رواں نظر نہیں آتی۔ جس ملک میں سیاست کا تمام تر محور ریاستی ا سٹیبلشمنٹ ہے وہاں سیاسی تنقید منا فقانہ اور سیاسی لیڈر کسی کےمر ہون منت ہو تے ہیں۔ پاکستان میں شاہد ، صرف ایک دہائی تک سیاست کسی نظریہ کے گرد گھو می ہے۔ یعنی جا گرداری نظام اور سر مایہ دارانہ نظام زیر بحث آئے۔ اسکے بعدسیاست، اسلام ، جاگیرداری اور سرما یہ داری ایک پٹا ری میں بند ہو گئے اور نظریہ ضرورت کے مطابق انکا استعمال کیا گیا اور سب سے حاوی عنصر سیاست میں مذہب کو فوکس کر نا نظر آتا ہے۔

موجودہ صورت حال دیکھنے میں بہت خطرناک اور گمبھیر نظر آتی ہے ۔لیکن معلوم نہیں کہ مقتدر حلقے کس بات کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاک فوج، بیو روکریسی، عدلیہ اوردیگر ریاستی اداروں کو بلا واسطہ نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ ہر شخص زبان گو ہے اور انگشت بدندان ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔

عمران خان پاکستان کی سیاست میں سیاسی تھیوریز تیار کر نے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جس طرح انہوں نے رجیم چینج کا بیانیہ تیار کیا اسکی ٹا ئمنگ اور اظہار دونوں نے عوام کے ذہنوں کومتاثر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی میں تمام سیاست دانوں نے اپنے ذاتی امیج کو آفاقی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی طرف متوجہ کر نے کے لیئے با لخصوص امریکہ کے سابق سینیٹرز یا محکمہ جات کےریٹا ئرڈ اعلیٰ افسران کی اُجرتی خدمات حاصل کی ہیں۔ اسی طرح عمران خان نے اپنی لابنگ کے لئے اس طرح کی خدمات لے رکھی ہیں۔ اچھبے کی بات ہے ، مشیر بھی امریکی ہے اور رجیم چینج کا الزام بھی امریکی انتظامیہ پر لگا یا گیا اور عوام کی ہمدردیوں کو بھر پور انداز سے حا صل کیا گیا۔ یہ ہمدردیاں ایک بیانیہ کے بعد دوسرے بیانیہ کی طرف فوری منتقل ہوجا تی ہیں اور اس طرح پاکستانی سیاست میں ایک عوامی طاقت کا رجحان اُبھر کر سامنے آرہا ہے۔ جس ملک میں عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح (Actual) 20 سے 30 فیصد ہو وہاں عوامی مقبولیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔

دنیا نے سوشل میڈیا کیمپین کا رخ اور مزاج ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت شعبدہ بازی، چھوٹے چھوٹے من گھڑت بیانات، جملوں اور بے معنی معلومات کو پھیلانے کی طرف کردیا ہے۔ اس کا فائدہ اُٹھا یا جا رہا ہے۔ بغیر سیاق و سباق ، ادھورے جملوں کے ذریعے جذبات کو اُبھارا جا رہا ہے۔ لازمی نہیں یہ سب کچھ صرف پاکستان میں ہو رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ وبا پھیلتی جا رہی ہے۔ ایک یہ کام میڈیا کر رہا ہے اور دوسری طرف کچھ صاحب ذوق علمی ، شعوری اور تاریخی مواد بھی آہستہ آہستہ اس میڈ یا ٹول کے ذریعے لوگوں کے لئے پیش کر رہے ہیں۔

رجیم چینج کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ایسا وقت آیا کہ جاپان نے ایک سال میں 4 وزیر اعظم بدلے۔ کہا جا تا ہے کہ اس وقت عالمی منڈیوں پر جاپان چھا یا ہوا تھا اور امریکہ اور مغربی منڈیوں کو سخت مقابلے کا سا منا تھا۔ ہند وستان میں رجیم چینج کا فلسفہ کبھی اس طرح سامنے نہیں آیا۔ اسکی کیا وجہ ہے۔ حا لانکہ ہندوستان میں سیاست بہت مشکل ہے ، کئی ریاستیں ہیں، کئی کلچر اور کئی زبانیں بولی جا تی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی حکومتیں بین الاقوامی پریشر کو برداشت کرنے کی مکمل صلا حیت رکھتی ہیں اور پھر اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے اداروں سے ہم آہنگ کر نے کا عمل باہم جاری رکھتے ہیں۔ اسکے بر عکس پاکستان خارجی طور پر اپنی پہنچان مستحکم حکومتوں کی بجائے ایک مظبوط بیوروکریسی جسکو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے، بین الاقوامی سطح پر ایک حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں اس بات کا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے سیاست دانوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنی ذاتی خوہشات، اقتدار میں رہنے کے لئے کچھ طاقت ور ملکوں کے ساتھ اپنی نوعیت کی کمنٹ منٹ کیں جس کی کو ئی گارنٹی نہ ہونے کی وجہ سے بے اثر رہیں۔

آئشہ جلال اپنی کتاب The Struggle for Pakistan میں لکھتی ہیں کہ پاکستان میں رجیم چینج کبھی بھی انکے داخلی حالات کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ یعنی اس میں کئی خارجی عوامل کار فرما رہے۔ جسکی وجہ سے عمران کے مشیر نے بہت ہی خوبصورت اور پاکستانی عوام کے امریکہ مخالف جذبات کواُبھارنے والا بیانیہ تیار کیا۔ جو صرف ایک سفارت کار کی رائے پر مبنی تھا۔ میری دانست میں ایران عراق جنگ میں پاکستان کی افواج کے کرادر کے حوالے سے سابق صدر پاکستان محمد اسحاق خان نے محترمہ بینظیر کی حکومت کو ختم کیا تھا۔ بعدمیں یہ فیصلہ عبوری حکومت سے کراوایا گیا۔ اسی طرح نواز حکومت کا خاتمہ سی پیک کی وجہ سے بہتر ہوتی ہوئی معشیت کے بیش نظر ہوا۔ اب عمران خان کی حکومت کے دوران تینوں ممالک چین، امریکہ اور سعودی عرب سے کشیدہ تعلقات نے خارجی طور پر رجیم چینج ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے اور داخلی طور سیاسی عدم استحکام نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ اس صورت حال میں یہ بیانیہ کہ عمران خان کی حکومت کو اسٹییلشمنٹ نے چلتا کیوں کیا۔ اس میں بتائی گئی معلومات کے علاوہ اور بہت سے عوامل شامل ہونگے۔ اب عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر دباو ڈال رہے ہیں تاکہ انکے حق میں فیصلہ ہوسکے۔ سیاسی تھیورسٹ کے مطابق اس قسم کے دباو سے مسئلہ حل نہیں ہوگا جب تک تمام سیاسی قوتیں ایک پلیٹ فارم پر نہیں آتین۔ لیکن عمران خان اس وقت ملک کی تمام سیاسی قوتوں سے پنجہ آزمائی کر ہے ہیں۔

ایک فیلڈ کھلاڑی ہونے کے ناطے یہ بات سیکھی ہے کہ کل بائیس لوگ میدان میں ہوتے ہیں اور انکے درمیان ُرول کو نافذ کر نے والا امپا ئر ہو تا ہے۔ دونوں ٹیموں میں سب سےکمزور کھلاڑی جسکو سب نظر انداز کر تے ہیں ، کسی غلطی کی بنا پر تمام اختیارات امپائر کو سونپ دیتا ہے اور پھر میدان میں مقابلہ کر نے کے لئے امپائر کو ٹارگٹ کر تا ہے تو کیا وہ جیت پائے گا۔ اس لئے سیاسی میدان میں سب کھلاڑی بہت اہمیت کے حامل ہیں انکے بغیر آپ گیم نہیں کھیل سکتے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں عوام کی کیا حیثیت ہے۔ جس ملک میں سیاست جا گیر داری کی کھوکھ سے جنم لے اور اسکی پرورش سرمایہ دار کی گود میں ہو وہ عوام کو کیا جانے۔ البتہ یہ سیاسی پا رٹیاں الیٹ کلب کا درجہ اختیار کر تے ہوئے اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کو شامل کر نے کی کوشش کر تے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اس سارے کھیل میں انکی کمزوریوں کا جائزہ لے کر فیصلہ سازی کا کام اپنے ہاتھ میں رکھ کر اقتدار کا کشکول انکے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ عوام کی سیاسی تربیت کبھی نہیں ہوئی اور نا ہی ہوگی۔ عوام میں سیاسی شعور اپنی برادری اور مفادات تک محدود ہے۔ اور انکے سیاسی رہنما ان سے یہ ہی توقع رکھتے ہیں۔

اب بھی انتخابات کے دوران ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک لانے کے لئے لاکھوں روپے خرچ ہو تے ہیں۔ لوگوں کو ایک جگہ جمع کر نے کے لئے سیاست دان اپنا وقت اور مالی وسائل استعمال کر تے ہیں۔ تو ماس موبیلائزنیشن کا کام لوگ پیسے لگا کر تے ہیں اور فتح یاب ہونے کی صورت میں انکی جا ہ و جلال ایک عوامی رہنما کی بجائے خاص، مقدم اور اعلیٰ و افضل انسان کے طور ہو تا ہے۔ پاکستان میں ماس موبیلائزیشن کا عمل مذہب کے نام پر ہو سکتا ہے اپنے حقوق کے نام پر نہیں۔ راقم ازخود سوشل موبیلائزیشن کے حوالے سے تین دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔ اسی لئے ماو زے تُنگ ے نے ماس موبیلائزیشن کے لئے اپنی پارٹی میں ، تربیت کا ایک ایسا ونگ قائم کیا جس نے لوگوں کو انکی قبائلی سوچ کو ریاستی سوچ میں بدلا۔ جس سے چین کی سیاسی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ملک ترقی کی عروج پر پہنچا۔ کیا یہ کام عوام کی مو بیلائزیشن کے لئےکیا جا رہا ہے یا پھر صرف جلسوں میں سروں کو گنا جا تا ہے ۔ عمران خان عوام کو متحرک کر نے کے جو عوامل ۔

سوشل میڈیا ، ترو تازہ بیانیہ ، سیاسی قا ئدین پر الزام تراشی کر کے، اداروں کو بدنام اور غرور و تکبر میں نہایت غیر مناسب زبان استعمال کر نا شامل ہیں۔ سیاسی مفکرین کا خیال ہے کہ اس قسم کی کوششوں سے اقتدار تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن عوام میں دوامی شہرت نہیں حا صل کی جا سکتی۔ بے نظیر بھٹو نے اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر خطاب کر تے ہو ئے کہا تھا کہ ”Action is louder than Voice” یہ ایک ویثرنری سوچ تھی جو آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے ہمارے سیاست دان پاور پالیٹکس کی طرف کیوں جا تے ہیں ۔ پہلی وجہ انکو عوام پر نہ کوئی بھروسہ اور نہ ہی یقین ہے ۔ کہ یہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے ، عوام کے مسائل کا حل صرف حکومتوں کے پاس ہے۔ اور عوام میں از خود کو ئی صلا حیت نہیں اور نہ ایسے ادارے موجود ہیں جو وہ خود چلا رہے ہیں ان کے مسائل حل کر پائیں گے۔ اور تیسری اہم بات ، معاشرے کو آئین و قانون کا پابند بنانا۔ تاکہ تمام ادارے کسی قانون اور ضبط میں رہ کرعوام کی خدمت کریں ۔

پاور پالیٹکس پوری دنیا میں موجود ہے اور اس میں دنیا کے بہت سے سیاسی رہنما شامل ہیں۔ لیکن انکی پاور پا لیٹکس کسی آئین اور قانون کے مکمل تابع نظر آتی ہے اور چناو کے تمام طریقے ایک ضبط کے مطابق ہیں ۔ پاکستان میں ایک بچہ کو بھی معلوم ہے کہ لیڈر کون بناتا ہے، سیاسی پارٹی کس طرح معرض وجود میں آتی ہے اور پھر پیسہ کہاں سے آتا ہے۔ پھر اسکی مہم کون چلاتا ہے اور اسکی لابنگ کہاں اور کس ملک میں ہوتی ہے اور کون سے لوگ مو ئثر ثابت ہونگے اور کہاں فیصلہ ہو گا کہ اب اقتدار کس کو ملنا چا ئیے۔ وہاں صرف پاور ہا وئسز کی طرف دیکھا جا تا ہے اور عوامی تحرک (Mobilization) کو تیسرے اور چھوتھے درجے پر رکھا جاتا ہے۔ عمران خان کو یہ ہی غصہ ہے کہ پاور ہاوئسز میرے ساتھ بد عہدی کر رہے ہیں۔ اب انہوں نے عوام میں مقبولیت کا اعزاز بھی حا صل کر لیا ہے دیکھتے ہیں کو ن روکتا ہے۔ کیا یہ عوامی طاقت ہوگی؟

(راقم سماجی کار کن ہے جو عرصہ 30 سال سے سماجی خدمات اور انسانی حقوق کی پیروی کے لئے منظم سماجی تحرک(Social Mobilization) کا کام کر رہا ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے