یا اللّٰہ خیر!

گزشتہ دو تین روز سے مجھے مسلسل سیاسی حیرانیوں سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس ایک بم شیل تھی وہ شدید ذہنی بحران کا شکار نظر آ رہے تھے ،میں نے آج تک کسی شخص کو اپنے دوست کے قتل پر اس حد تک جاتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگراس پریس کانفرنس کے بعد کسی نے انہیں قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اس نوع کے سب مشکوک لوگوں کے نام انہوں نے لکھ کر کسی کو دے دیئے ہیں اگر انہیں قتل کیا گیا تو 24گھنٹوں کے اندر انہیں بھی موت کی نیند سلا دیا جائے گا ،ان کی گفتگو کے بہت سے اشارے خود تحریک انصاف کے بڑوں کی طرف جا رہے تھے اور ان اشاروں کی تصدیق بھی اسی وقت ہو گئی جب پی ٹی آئی کی طرف سے ان کی پارٹی کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کی خبر سامنے آئی ۔

دوسری طرف آج صبح ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید انجم کی پریس کانفرنس سے معاملہ مزید الجھا ہوا نظر آتا ہے ۔معاملے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید انجم پہلی دفعہ پریس سے بات کرتے نظر آئے شاید اس وجہ سے وہ کچھ ان ایزی محسوس کر رہے تھے، اس پریس کانفرنس کی سب سے اہم بات میرے نزدیک یہ کہنا تھا کہ رات کو ملاقات میں کچھ کہتے ہیں اور دن میں سرکار بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن گفتگو کے پس منظر میں وہ نام بہت نمایاں نظر آتا تھا۔ لانگ مارچ کے حوالے سے کہا گیا کہ اگر حکومت نے امن وامان کے قیام کےلئے فوج سے مدد مانگی تو یہ مدد فراہم کی جائے گی ۔دوسری طرف باخبر حلقے اور سیاسی تجزیہ نگار اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ لانگ مارچ ایک خونی لانگ مارچ ہوگا۔ فیصل واوڈا نے تو اس حوالے سے بہت خوفناک تصویر کشی کی انہوں نے تو اس قسم کی بات کی تھی کہ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں گی اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن جب کسی ٹریجڈی کے اسباب مہیا کر دیئے جائیں تو پھر ہونی ہو کر رہتی ہے ۔تجزیہ نگارمبشر زیدی نے بھی، جو ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں، خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ لانگ مارچ خونی لانگ مارچ ہو گا۔ انہوں نے آج فیس بک پر ماضی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لکھا ہے مگر ان کی بات سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ نہ کرے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں ماضی کے دو المناک واقعات کا اضافہ ہو ۔انہوں نے ان المناک حادثات سے بات شروع کی کہ بے نظیر جانتی تھیں کہ وہ پاکستان جائیں گی تو انہیں قتل کر دیا جائے گا غیر ملکی دوستوں نے بھی خبردار کر دیا تھا اسٹیبلشمنٹ سے بھی اچھے سگنل نہیں ملے لیکن وہ گئیں انہیں جانا پڑا موت کو دیکھ کر بھی قبول کرنا پڑا ،سیاست یہ سب کرواتی ہے سیاست نہیں کیونکہ حقیقی معنوں میں جو سیاست ہے، وہ عظیم کام ہے یہ سیاسی انا ہوتی ہے جو آگے دھکیلتی ہے ۔بھٹو صاحب کی مثال ہزار بار دی جا چکی ہےمبشرزیدی کے مطابق انہوں نے ان سے بات اس لئے شروع نہیں کی کہ ان کی موت واضح طور پر سامنے تھی وہ جانتے بوجھتے پھانسی چڑھ گئے شاید ایک لمحے کو بھی انہوں نے پیچھے ہٹنے کا نہیں سوچا ہوگا،بھٹو صاحب ذہین آدمی تھے بے نظیر دانشورتھیں ایسے سمجھ دار رہنما تک حالات سے مجبور ہو گئے،سیاسی انا کے لئے موت قبول کرلی۔مبشر کے مطابق یوتھیوں کے مہاتما کے پاس عقل نام کی چیز کبھی تھی ہی نہیں وہ تو مجسم انا ہے، اس کی انا سیاسی نہیں ذاتی ہے وہ طاقت کے مرکز کی کٹھ پتلی بنا رہا اور اب خود کو ان کا باپ سمجھ رہا ہے۔ ڈکٹیٹ کرنے والوں کو ذلیل بھی کر رہا ہے اور ڈکٹیٹ بھی کروانا چا رہا ہے، کوئی سمجھ دار آدمی ہوتا تو عدم اعتماد پر باز آ جاتا ، آڈیو لیکس پر سنبھل جاتا نہیں تو شہباز گل کو جوتے پڑنے پر مستقبل میں جھانکتا نہیں تو اپنے ہمنوا صحافیوں کو چپ کرائے جانے پر ہوش کے ناخن لیتا لیکن نہیں مبشر زیدی نے لکھا کہ یہ وہ بلیک ہول ہے جو عقل کی کہکشاں سےساٹھ کھرب نوری سال دور ہے مجھے خدشہ ہے کہ ایک بڑا قتل ہونے والا ہے ہو سکتا ہے کہ مہاتما کی زندگی باقی رہے کسی اور کی قربانی ہو جائے لیکن اس قصے کا انجام اچھا نہیں لگ رہا کہانی کلائمکس پر پہنچ گئی ہے ۔

آخر میں اقتدار جاوید کی ایک غزل

کسی تہہ سے ابھرتا جا رہا ہوں

کنوئیں پانی سے بھرتا جا رہا ہوں

چمک اٹھے گی تھوڑی دیر میں صبح

فضا تصویر کرتا جا رہا ہوں

یہاں پانی تڑپ اٹھے گا شاید

کوئی دہشت ہے ڈرتا جا رہا ہوں

مری نیلاہٹیں بھی ہیں ابدزا

فلک اوپر بکھرتا جا رہا ہوں

یہ کن ہاتھوں میں میں آیا ہوا ہوں

یہ کن لوگوں میں برتا جا رہا ہوں

کسی کے آسماں کا چاند ہوں میں

منڈیروں پر اترتا جا رہا ہوں

ہوا ہوں اور نظر آتا نہیں ہوں

علاقوں سے گزرتا جا رہا ہوں

کسی کا حسن دل افروز ہوں میں

سو آئے دن نکھرتا جا رہا ہوں

کوئی کھلنے کی بار آور گھڑی ہے

قباؤں کو کترتا جا رہا ہوں

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے