گرینڈ ڈا ئیلاگ کی اشد ضرورت ہے

چھوڑ دو تم سے نہیں بغاوت ہونے والی
ہم سے اُلفت میں نہیں کفایت ہونے والی

میں نے پچھلے پچپن سالوں میں پاکستان کے بیشتر دانشوروں کو پڑ ھا ہے، وارث میر، منو بھائی، عبداللہ ملک، مجید نظامی، مجیب الر حمان شامی، نذیر ناجی، ارشاد حقانی، ظفر علی خان، علی عباس جلالپوری، سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی، مشاہد حسین، شمس الحسن اور عصر حاضر کے نجم سیٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب حضرات نے اپنے تہیں پاکستان میں جمہوریت کے تصور کو پیش کیا اور اس تصور کے ساتھ موجودہ حالات کی مماثلت کا تجزیہ بھی کر تے رہے۔ ہم نے پاکستان کے پرنٹ میڈیا میں اسلامی سوشل ازم، کمیونزم اور ترقی پذیر خیالات کا تذکرہ بھی خوب سُنا۔ وہ زمانہ خوب تھا ، ادبی تحریکیں اور سیاسی نظریات کو ایک ساتھ رکھ کر بیان اور سوچا جا تا تھا۔ اور مزے کی بات یہ تھی یہ سب لوگ پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں حقیقی جمہوریت کا نکتہ نظر پیش کر تے ہو ئے ، حکومتی نظام اور قیام میں اسٹیبلشمنٹ کا ذکر ضرور کرتے۔ اس تمام مبا حثہ میں لکھاری دو واضح نظریات ، حقیقی جمہوریت اور کنٹرول جمہوریت میں تقسیم تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں کنٹرول جمہوریت اور حقیقی جمہوریت کا تصور دل و دماغ کو نہیں بھا تا تھا۔ بس ایک ہی بات ، حقیقی جمہوریت، عوامی حکومت، لوگوں کی لوگوں پر حکومت سمجھ میں آتی تھی۔

آج پاکستانی عوام ایک محدود سیاسی شعور کی حامل ضرور ہے۔ لیکن یہ شعور علمی درجہ تو رکھتا ہے لیکن عملی سیاست کا حصہ بننا درکار ہے۔ سب سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح نے فوجی حکمران کا مقابلہ کرتے ہوئے حقیقی جمیوریت کا علم بلند کیا اور شکست فاش سے دوچار ہو ئیں۔ لیکن عوام میں اس بحث کا آغاز ہو چکا تھا کہ کون ہے جس کے ہاتھ میں تمام حکومتی ادارے اور نظام بند ہے۔ اس دور میں بھی کچھ دانشور اور صحا فی حضرات دو واضح نظریات میں تقسیم تھے، یعنی پرو اسٹیبلشمنٹ اور پرو جمہوریت۔ ذالفقار علی بھٹو نے فوجی حکومت کی گود میں بیٹھ کر کنٹرول جمہوریت کی تربیت حا صل کر نے کے بعد حقیقی جمہوریت اور طاقت کا سر چشمہ عوام کا جھنڈا اُٹھا کرمیدان سیاست میں کود پڑے اورعوامی سیاسی شعور کو بام عروج تک پہنچا یا اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراتے ہوئے عالمی سازش کا شکار بنتے ہو ئے تختہ دار پر چڑھ گئے۔ اسکے بعد ضیا ءالحق کے طویل مارشل لاءکے با غیچے سےدو پرندے، جونیجو اور نواز شریف پھڑ پھڑائے ۔

جو نیجو نے غیر جماعتی اسمبلی کی بانج کو کھ سے جمہوریت کا پودا نکالنے کی لا شعوری کوشش کی، جسے اسٹیبلشمنٹ کے شہزادے نواز شریف کو اپنی ذاتی کوششوں اور پنجاب میں زمینداروں اور صنعت کاروں کی مدد سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تین دہا ئیوں تک پاکستان کی سیاست میں اسطرح فعال رکھا کہ وہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو ئے لیکن وہ اس عبرت ناک انجام سے دوچار ہو ئے جو اس سے پہلے کو ئی سیاست دان نہیں ہوا اور ایک جمہوری اور آئینی حکومت کے داعی بن گئے اور ہمیں آس لگی کہ بینظیر بھٹواورنواز شریف کے مابین میثا ق جمہوریت پر دستخط ہو ئے جس کا مقصد ہر صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے چنگل میں نہیں آناتھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی تجربہ سے تیس سالہ سیاسی تجربہ کو تحلیل کر دیا گیا اور اس طرح نواز شریف ا ور زرداری دونوں اس میدان کے کھلا ڑی سامنے آگئے۔ میثا ق جمہوریت کے باوجود اقتدار کی لالچ میں دونوں کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے جال میں جا پھنسے۔ اسی اثنا میں اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کے اس سفر کو اپنی مرضی سے رواں رکھنے اور پُرانے چہروں سے جان چھڑا نے کے لئے محترم عمران خان کا انتخا ب کیا ۔

آج پوری قوم اس منظر کو دیکھ رہی ہے کہ حقیقی جمہوریت کی جد وجہد کیسے دلفریب نعرے ، حقیقی آزادی میں بدلتی نظر آرہی ہے۔ عصر حا ضر کے لکھا ری /صحا فی/ وی لاگرز، سوشل میڈیا مکمل طور پر یہ سوچ رہا ہے کہ ہماری منزل کیا ہے۔ وہ دانشور جو کئی دہا ئیوں سے اسٹیبلشمنٹ کے جبرو استبداد کے قصے سناتے تھے، اب وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ عمران خان کی چلا ئی ہو ئی مہم کا ساتھ دیں یا اسٹیبلشمنٹ کا۔ کیوں کہ عوامی سطح پر اسٹیبلشمنٹ سے متعلق رائے عامہ اور شعور کی ایک تصویر بنتی نظر آرہی ہے۔ لیکن کنفیوثرن بڑھ رہی ہے۔

عمرا ن خان پاکستان کی سیاست میں وہ مقام حاصل کر چکے ہیں جو کو ئی سیاسی لیڈر حا صل نہیں کر سکا۔ میرے خیال میں وہ پاکستان کی سیاست میں اس من گھڑت آزادی کے ساتھ حقیقی جمہوریت کو عملی طور پر نا فذ کر سکتے ہیں۔ لیکن ماہرین سیاسیات (تبصرہ نگار) نہ اسے حقیقی آزادی مانتے ہیں اور ناہی حقیقی جمہوریت مانتے ہیں۔ وہ عمران خان کی اس مومنٹ کومطلق العنانی طاقت (Absolute Power) کا حصول سمجھتے ہیں۔ اسکی دو وجو ہات بیان کی جاتی ہیں۔ عمران خان پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا نے کے خواں ہیں، جو شخص انکی رائے سے اختلاف کر تا ہے وہ غدار ہے، عمران خان راسخ العقیدہ، سچا اور نہایت مخلص شخص ہے جسے ہر کو ئی لازمی تسلیم کر ے۔ پاکستان کی عوام اور سوشل میڈیا کے مہم کارعمران خان کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں اور راستے کی ہر رکاوٹ کو دلیل اور ڈائیلاگ کے بغیر عبور کر نےکی انتھک کو شش کر رہے ہیں۔ عمران خان ایک ایسی سیاسی طاقت ہیں جنہیں سیا ست دانوں کی کو ئی پروا نہیں اور نہ ہی انکے علاوہ کو ئی اہل ہے۔ انکے بقول زرداری اور نواز شریف کئی سالوں سے اقتدار پر قابض ہیں۔ انکے قبضے کی اصل وجہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔

عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم، حقیقی آزادی اصل میں غلطی سے امریکی سازش سے شروع ہو کر آرمی چیف کی تعیناتی تک ختم ہو تی نظر آتی ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ ہے جو اُنہیں اقتدار کے ایوانوں میں لا سکتی ہے اور عوامی حمایت ایک الٹی میٹ پریشر ہے۔یہ وہ نقطہ ہے جو حقیقی جمہوریت اور آزاردی کو کنفیوز کر تا ہے۔ ایک سیاسی جماعت نظام کی تبدیلی، بہتر ملکی معیشت اور ہیو من ڈویلپمنٹ کے لئے سب کچھ کر تی ہے۔ حتیٰ کہ مقتدر حلقے خود سو چنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں جنوبی افریکہ کی سیاہ فارم تحریک ایک ایسی سیاسی جد وجہد ہے جس نے عوام کو تفریق اور نسلی امتیاز کی دلدل سے نکالا۔ لیکن کیسے؟ نیلسن مینڈیلا نے اپنی ذات کی نفی، ملکی معیشیت اور اداروں کی صدی پرا نی بنت کو تسلیم کر تے ہوئے ، تشدد پسند معاشرے کو بدلنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں اپنی جوانی کے 25سال قربان کئے ۔

اب موجودہ صورت حال دو واضح متوازی خطوط کی طرح نظر آرہی ہے۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مہم، سیکو رٹی اداروں کو ہدف بنانا اور اپنے سامنے کھڑی سیاسی جما عتوں کو نشانا بنانا اورعوام کو نفرت کی بنیاد پرتقسیم ہونا، دکھا ئی دیتا ہے اور دوسرا رخ ڈیڈ لاک، غیر لچکداررویہ،عالمی سطح پر ملکی امیج کی بربادی، نیشنل سیکو رٹی دا ؤ پرلگی، ملکی معیشت کی کشتی ڈا واں ڈول، خط غربت پررہنے والے لوگوں کی تعداد میں بھاری اضافہ اور ملک میں سیاسی انتشار یا بدامنی نظر آرہا ہے۔ ایسی صورت میں دو آپشن ہیں۔

کیا پاکستان میں سیاسی بساط لپیٹ دی جا ئے؟ حکومت فوری طور پر الیکشن کا اعلان کر ے؟ اور چیف آف آرمی کی تقرری کو الیکشن تک موخر کیا جا ئے ؟ امریکہ سے تعلقات کی بحالی کو عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے مشروط کیا جا ئے؟ یہ بنیادی سوالات یا ایکشن ہیں جن کا رسپانس ضروری ہے۔

پاکستان میں مارشل لاء کا آپشن ممکن ہے ۔ یا فوج محدود مدت کے لئے اقتدار سنھبالے اور تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کروائے ۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کی حکومت اپنی کمزوری کے با عث کو ئی ٹھوس قدم اُٹھا نے سے قاصر ہے۔ ان حالات میں گرینڈ ڈا ئیلاگ کی اشد ضرورت ہے۔ گرینڈ ڈا ئیلاگ سے مراد یہ ہے کہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی سٹیک ہولڈرز مل کرچاراہم نکات پر اتفاق کرلیں۔

1۔ فوج کے سیاسی کردار کو ختم کیا جا ئے اور آئین میں اس کا واضح تعین کیا جا ئے۔

2۔ پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی سیاسی حکومت خود طے کرے گی۔

3۔ چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری بلا رکاوٹ سنیارٹی کی بنیاد پر کی جائے اور وزیر اعظم فقط اسکی تو ثیق کرے۔

4۔ پاکستان کی تمام تر پالیسایاں سیکورٹی سنٹرک ہو نے کی بجائے conomy-Centric Eہوں۔

گرینڈ ڈائیلاگ میں بظاہراس سیاسی جماعت کو خاص کر کوئی فا ئدہ نہیں ہوگا جو اقتدار کی دوڑ میں پیچھے ہے یا پھر وہ اقتدار کے بالکل قریب ہے۔ اور یہی ڈا ئیلاگ پاکستان کی سیاسی تدبر کا مظہر ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے