گوادر بدل رہا ہے مگر قدیم شاہی بازار مہندم ہورہا ہے

گْوادر شاہی بازار میں داخل ہوتے ہی مجھے ایسا لگا کہ ماضی کا یہ قدیم بازار اب چند سالوں کا مہمان ہے۔ گوادر شاہی بازار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قدیم طرز کے یہ شاہکار طرز تعمیرات قیام پاکستان سے پہلے کی ہیں، اور اس کا الحاق قیام پاکستان سے پہلے ہوچکا ہے۔ ویسے بھی پاکستان بننے کے بعد گْوادر سلطنت آف عمان کا حصہ تھا، اور1958 میں پاکستانی حکومت نے گوادر کو عمان حکومت سے خریدا تھا۔

گْوادرشاہی بازار میں داخل ہوتے ہی دونوں اطراف پرانے دکانوں کے ملبے نظر آتے ہیں، اور شاہی بازار کے تنگ و تاریک گلیوں میں گھومتے ہوئے اکثر ماضی کی قدیم طرز کی بنائی گی عمارت نظر آتی ہیں جو گیلی اینٹ اور لکڑی کے تختوں سے بنائی گی ہیں اور زیادہ تر دکانیں اور عمارت منہدم ہوچکی ہیں،جبکہ کچھ کے آثار صرف باقی رہ گئے ہیں جبکہ اب بھی بعض عمارت اور دکانیں اصلی شکل میں ملیں گے۔

یہاں کاروباری سرگرمیاں تو مانند ہیں مگر کریموک ہوٹل پر مقامی لوگ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ملیں گے اور دور دراز کے لوگ بھی گْوادر آتے ہی اس ہوٹل کی طرف رخ کریں گے، جبکہ گوادر کے مشہور حلوائی خدابخش حلوائی کی دکان پر رونق دیکھائی دیتا ہے، اور جہاں آج بھی لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اور انہیں کی وجہ سے اس قدیم کھنڈرات نما بازار کی رونقیں شام تک لوگوں کو اپنی طرف کھینچ کر لیتے ہیں۔

گْوادر سے تعلق رکھنے والا مقامی لکھاری جاوید بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ” گْوادر شاہی بازار کی یہ تنگ گلی آج سے سینکڑوں سال پہلے ایک پر رونق بازار تھا، جہاں نہ صرف کاروباری مراکز موجود تھے بلکہ سْیاسی اور ادبی بیٹھکیں یہاں کی رونق کو دوبالا کرتے تھے۔

گْوادر پریس کلب کے صدر اور مقامی صحافی سلیمان ہاشم لکھتے ہیں کہ پرتگیزیوں نے حمل جئیند کی گرفتاری کے بعد اس بازار کو آگ لگائی تھی جیسے اٹھارویں صدی میں سلطنت آف عمان کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔

حمل جئیند کے حوالے سے یہ ذکر موجود ہے کہ سہولیں صدی میں وہ کَلمَت کے علاقے میں پرتگیزیوں کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے تھے اور اس حوالے سے متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔

گْوادر کی قدیم تاریخ پرگہری نظر رکھنے والا ناصر رحیم سہرابی کہتے ہیں کہ گْوادر شاہی بازار ایک قدیم بازار ہے اور یہاں موجود دکانیں قدیم طرز تعمیرات کی شاہکار ہیں اور یہ گزرے دور کی طرز زندگی کا ایک بہتر نمونہ پیش کرتی ہیں۔

گْوادر شاہی بازار میں عمانی دور میں بنایا گیا ایک قلعہ بھی موجود ہے۔ناصر رحیم کے مطابق پرانے زمانے میں اس قلعے کے اندر بنے ہوئے کنوؤں میں خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔

عمانی دور میں بنایا گیا اسماعیلہ فرقے کے قدیم جماعت خانہ بھی اسی بازار کے وسط میں موجود ہے جیسے 1905 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ بعد میں اس عمارت کی مرمت اور تزئین و کی وجہ سے اس عمارت کی حالت شاہی بازار میں موجود دیگر دکانوں سے کافی بہتر ہے اور یہ قدیم جماعت خانہ اب بھی زیر استعمال ہے۔

جب ہم گْوادر شاہی بازار کے قدیم مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس بازار سے نکل رہے تھے تو میرے ساتھ نیچرل فوٹو گرافر سراج حکیم یہاں کئی مناظر اپنے کیمرے کے آنکھ سے قید کرچکے تھے اور یہاں سے نکلتے وقت صرف ایک منظر ہمارے آنکھوں کے سامنے عیاں تھا کہ زندہ قومیں اپنی تاریخی ورثہ کو محفوظ کرتے ہیں اور ہمارے سامنے سے گْوادر کے قدیم ورثے مہندم ہورہے ہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قوم کی قدیم ثقافت، تہذیب اور تمدن،انکے رہن سہن کے انداز انکے طرز تعمیرات میں پوشیدہ ہے اور گْوادر کے قدیم طرز تعمیرات آخری سانسیں لے رہے ہیں،کسی کو کچھ پرواہ نہیں کہ بہت جلد گْوادر کے قدیم ورثے آثار قدیمہ کی زینت بنتے بنتے رہ جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے