میڈیا انڈسٹری میں خواتین کو چھٹی نہ ملنا ذہنی تشدد کے برابر

طبعیت نہیں ٹھیک۔۔۔کیا ہوا؟
بخار ہے۔۔۔
آفس سے چھٹی لے لو؟
چھٹی مل ہی نہ جائے۔۔
ایسی باتیں ہر روز ہزاروں دوست ایک دوسرے سے کرتے ہوں گے۔نوکری کرنے والوں کے لئے اس معاملے میں ایک دوسرے کو چپ کروانے کے لئے ایک ہی فقرہ کافی ہوتا ہے کہ” نوکر کئی تے نخرا کئی” اور شاید اذیت دینے والا یہ فقرہ اب اتنا متواتر بول جاتا ہے کہ اس کے پیچھے چھپی تذلیل محسوس نہیں ہوتی۔

ایک طرف جہاں میڈیا انڈسٹری میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں انکی مشکلات میں بھی روزبروز بڑھ رہی ہیں ۔ سوشل میڈیا اور میڈیا ویب سائٹ پرخواتین کے بارے میں سب سے زیادہ تحریر کی جانی والی رپورٹس میں زیاہ تر صنفی امتیاز اور ہراسمنٹ جیسے موضوعات پر بات کی جاتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنسی ہراسمنٹ تلخ حقیقت ہے مگر خواتین کو کام کرنے والی جگہوں پر اور بھی مسائل ہیں جن میں بیماری کی حالت میں ہیڈ سے چھٹی نہ ملنا جبکہ خواتین قانونی طور پر چھٹیاں کرنے کی حقدار ہوتی ہیں۔میڈیا انڈسٹری میں طبعیت نا ساز ہونے کی وجہ سے چھٹی نہ ملنے والے نجی معاملے میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

عائشہ(فرضی نام) آج کل ایک مین سٹریم ٹی وی چینل کے پرائیم ٹائم پر ٹاک شو میں بطور ریسرچر اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ تعلیم کے اختتام کے بعد ڈگری جب ہاتھ میں آتی ہے تو سب سے پہلے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے نوکری کی تلاش سر فہرست ہوتی ہے۔

عائشہ کو بھی ٹی وی چینلز پر انٹرن شپ کرنے بعد بالا آخر ایک بڑے میڈیا چینل میں نوکری مل گئی۔عائشہ نے مزید بتایا کہ نوکری سے پہلے انٹرویو بھی ایک بڑا امتخان ہوتا ہے ۔ عائشہ سے جب پوچھا کہ وہ کیسے؟ انٹرویو میں ایسا کیا تھا؟ اس سوال کے بعد عائشہ نے کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا کہ انٹرویو تو "ریسرچر کا تھا مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے ٹیکنکل سوالات پوچھنے شروع کر دئیے جیسے کہ کیا آپ کوپروڈکشن ورک آتا ہے ؟جس میں نیوز پیکیج،نیوز رپورٹ بھی شامل ہوتی ہے اس کے علاوہ کیا آپ کوپروگرام کی ونڈوز ،ٹیگ لائن،ہیڈر اور فوٹزر بنانے آتے ہیں؟ ۔ایک لمحے کے لئے تو مجھے لگا کہ شاید کہ پروگرام کی اینکر،پروڈوسر اور ریسرچر بھی میں ہی ہوں۔میں نے انکے سوالات کے جوابات تو دے دئیے کیونکہ انٹرن شپ کےدوران بہت سے ٹیکنکل پروگرامز میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔اس سے پہلے کےوہ کچھ اور کہتے فوراً جی میں جواب دیا اور ذہن میں جو بھی ٹیکنکل باتیں تھی سب ایک ہی سانس میں بتا دی۔

آخر میں ہمت کر کے ایک بات پوچھی کہ کیا میرا انٹرویو ایک ریسرچر کے لئے ہی تھا؟ تو اینکر نے جواب دیا جی جی آپ کو پروگرام کی ریسرچ کے لئے ہی انٹرویو کال کی گئی تھی۔آپ سے ٹیکنیکل باتیں تو اس لئے پوچھی ہیں کہ ٹیم میں سے اگر اسسٹنٹ پرڈوسر یا سوشل میڈیا ٹیم میں سے کوئی چھٹی پر ہو تو اپ میں اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ انکے کاموں کو کسی حد تک کر پائیں تاکہ پروگرام آن ائیر جا سکے”۔اگر یہی سوالات پوری ٹیم سے دوران انٹر ویو کئے گئے ہیں تو طبعیت خراب ہونے پر چھٹی بنا کسی رکاوٹ کے مل جانی چاہیے کیونکہ اگر ٹیم میں سب ایک دوسرے کی ذمہ داریاں نبھانے کی اہلیت رکھتے ہیں تو بیماری کی حالت میں چھٹی کا ملنا اخلاقی اور قانونی طور پر جرم کے مترادف ہے۔المیہ تو یہی ہے کہ لیبر قانون سفید کاغذوں پر کالے رنگ کےحروف تک ہی محدود ہوگئے ہیں ۔سینئر صحافی نادیہ ملک کے مطابق وہ گزشتہ 20سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں انکے مطابق "آپ کو اپنی ٹیم کے ساتھ کام کرتے کرتے اتنا تجربہ ضرور ہو جاتا ہے کہ کون سا ٹیم ممبر اپنے کام کو سنجیدگی سے کر رہا ہے۔دوسرا اہم نقطہ انہوں نے اٹھایا کہ اگر آپ کو اپنی ٹیم کی قابلیت پر یقین ہی نہیں تو کیوں وہ آپ کی ٹیم کاحصہ ہے۔یہاں بات اعتماد اورذمہ داری کی بھی ہے۔پرائیویٹ لیبر کے طور پر کام کرنے والے عملے کو قانونی طور پر چھٹی کا حق ہے آپ کسی کاحق مار کر اس کے ساتھ نا انصافی نہیں کر سکتے جبکہ اعتماد ٹیم کے کام کرنےکی صلاحیتیں ہیں جو کہ اینکر کو و ٹی وی سکرین پر لانے کے لئے 40 منٹ تک کیمرے کے پیچھے کھڑے رہتے ہیں۔

ماہرین نفسیات ڈاکٹر غزالہ ممتاز کا کہنا کہ بیماری کی حالت میں چھٹی نہ ملنا صرف خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی نفسیات پر بھی گہرے اثرات چھوڑتےہیں ۔ منفی اثرات کی وجہ سے دفاتر میں کام کے دوران انکی کارکردگی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔مثال کے طورپر ہماری سوسائٹی میں آدھے سر کا درد ایک وقتی تکلیف ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کچھ عرصے کے لئے انسان کی دماغی شیریانوں میں شدید تناؤ آ جاتا ہے۔

دفتری یا کاروباری معاملات سے انسانی دماغ تھکنے اور میگرین کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ اس وقتی بیماری سے بچنے کے لئے وقت نکال کر آپ فیملی یادوستوں کے ہمراہ وقت گزارنا ضروری ہوتا ہے۔میرا تو یہی کہنا کہ آپ جس بھی ادارے میں کام کرتے ہیں وہاں آپ کے ہیڈز کے درمیان اعتماد اور یقین کا تعلق بھی بہت اہمیت رکھتا ہے ۔مثال کے طور پر اگر آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں تو دفاتر سے چھٹی نہ ملنے کی اضافی پریشانی سے آپ کی کارکردگی متاثر نہیں ہو گئی اور اگلی صبح آپ اپنی بساط سے زیادہ دفاتر کے کاموں کو سنجیدگی سر انجام دیں گے۔

چھٹی قانونی حق پھر بھی نہیں ملتی قانون کےمطابق پرائیویٹ لیبر ایک سال میں 14چھٹیاں تنخواہ کے ساتھ حاصل کرنے کا حقدارہے اگر وہ ایک سال میں چھٹیاں نہیں لیتاتو اسکی چھٹیاں اگلے سال اسکے اکاؤنٹ میں جمع ہوجائیں گی۔

10اتفاقیہ چھٹیاں سالانہ ،تاہم یہ چھٹیاں اگر ملازم نہیں لیتا ،تو اسکو پھر اگلے سال نہیں ملیں گی۔8چھٹیاں سالانہ میڈیکل ،تہواروں پر ملنے والی چھٹیاں کم سے کم 10طے ہیں۔اگر تین دن سے زیادہ میڈیکل چھٹی ہے تو یہاں پر کمپنی یا ادارے کو میڈیکل سرٹیفیکٹ جمع کروانا پڑتا ہے۔اس طرح ایک سال میں ملازم کم سے کم 44چھٹیاں لے سکتا ہے ۔

دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بعد پاکستان کی آب وہوا بھی یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔اب تو حال کچھ یو ں ہے کہ کسی کو کھانسی ،زکام یا ہلکا سا بخار ہونا معمول کی بات ہے۔ موسمی تبدیلی کی وجہ سے انسان مخصوص قسم کی بیماری میں مبتلا نہ بھی ہو تو طبعیت نا ساز ہو جاتی ہے۔ اس تحریر میں ایک سو سے زائد نشاندیا ں بھی کر دی جائیں تو بھی میڈیا انڈسٹری کے مالکان ایک بھی نقطہ سے متفق نہیں ہوں گے ہاں مگر انسانی ہمدردی کا عنصر رکھنے والے انسان کو کسی بھی دلیل کی ضرور ت نہیں ہوتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے