اسلامی معاشی نظام کے ماہرین کہاں ہیں؟

میرے ایک عزیز دوست نے مشورہ دیا ہے کہ میں ملکی مسائل کے بارے میں غور کرنا اور اُن پر کُڑھنا چھوڑ دوں،میرے دوست کی یہ بات اِس لحاظ سے درست ہے کہ ہمارے ملک کو جس قسم کے مسائل کا سامنا ہے انہیں حل کرنا کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں ،شاید اسی لیے ہم نے اپنی اپنی پسند کےلیڈرکو دیوتا کا درجہ دے رکھا ہے ۔ لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ نہ تو میں کسی دیوتا کا پجاری ہوں اور نہ ہی ملکی مسائل سے بے نیاز رہنے کی عیاشی کا متحمل ہوسکتا ہوں۔سو،اپنے دوست کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے آج پھر ملکی مسائل پر غور کیا (کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میری فکرمندی سے ہی یہ مسائل حل ہوں گے ) اور اِس نتیجے پر پہنچا کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس اِن مسائل کا حل ہونہ ہو،اُن لوگوں کے پاس یقینا ً ہوگا جو کئی دہائیوں سے یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ اسلامی معاشی نظام ہی ہر مسئلے کا حل ہے ۔کیا یہ بات درست ہے؟

مولانامودودی کی مشہور زمانہ کتاب ’سود‘ کا ایک حصہ اسلام اور جدید معاشی نظریات پر مشتمل ہے ، بعد میں یہ حصہ علیحدہ کتابی شکل میں بھی شائع کیا گیا تھا ۔اِس کتاب میں مولانا نے مختلف معاشی نظاموں کا جائزہ لیاہے ، اُن کی خامیوں اور نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور پھر بتایا ہے کہ اسلامی معاشرے میں کس قسم کامعاشی نظام نافذ ہونا چاہیے۔اِس کا سب سے دلچسپ اور اہم باب وہ ہے جس کا عنوان ’جدید معاشی پیچیدگیوں کا اسلامی حل ‘ ہے ، اِس باب میں مولانا نے بتایا ہے کہ اسلام انفرادی ملکیت کا حق تسلیم کرتا ہے اور یوں کمیونزم اور سوشلزم وغیرہ اسلام کی روح کے خلاف ہیں،سرمایہ دارانہ نظام میں بھی بے شمار خرابیاں پائی جاتی ہیں لہٰذا اِن تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ ’بے قید‘ معیشت کو ’آزاد معیشت‘ میں تبدیل کرکے چند حدود و قیود کا پابند بنادیا جائےبالکل اسی طرح جیسے ’تمدن و معاشرت کے تمام دوسرے شعبوں میں انسانی آزادی کو محدود کیا گیا ہے۔‘آگے چل کر مولانا فرد کو زمین کی ملکیت کا حق دیتے ہیں ، آزادانہ تجارت کی حمایت کرتے ہیں اور ذرائع پیداوار پر کسی گروہ یا فرد ِواحد کی اجارہ داری ختم کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ مولانا نے یہ بھی لکھا ہے کہ مزدور کی کم سے کم اُجرت طے کی جائے ، اُس کے کام کرنے کے اوقات کار ، بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی سہولت اور پنشن کے معاملات بھی عدل و احسان کے اصولوں کے تحت نافذ کیے جائیں ۔مودودی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ کسی ایسی فنی ایجاد کوجو انسانی طاقت کی جگہ مشینی طاقت سے کام لیتی ہو،اُس وقت تک کاروبار میں بروئے کار لانے کی اجازت نہ دی جائے جب تک اِس امر کا تعین نہ ہوجائے کہ وہ کتنے انسانوں کی روزی پر اثر ڈالے گی۔آگے چل کر مولانا نے مالیات کے کچھ اصول لکھے ہیں اور بتایا ہے کہ اِن معاشی معاملات میں حکومت کی محدودمداخلت کہاں تک مناسب ہے۔

معاشیات کا کوئی بھی طالب علم یہ کتاب پڑھ کر بتا سکتا ہے کہ اِس میں بالکل بنیادی نوعیت کی باتیں بتائی گئی ہیں اور وہ بھی کوئی نئی ، اچھوتی یا آؤٹ آف باکس نہیں ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام نے جس طرح مزدور کا استحصال کیا وہ ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے ، اسی کے نتیجے میں کارل مارکس نے ’داس کپیٹل ‘ لکھی ،یہ مارکس کا ہی احسان ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کسی حد تک درستی ہوئی اور مزدوروں کے حالات بہتر ہوئے (گو اب بھی دنیا بھر کے مزدور ،ماسوائے فلاحی ریاستوں کے،استحصال کا ہی شکار ہیں )۔قطع نظر اِن باتوں سے، مودودی صاحب ہوں یا کوئی بھی عالم دین ، وہ بنیادی نوعیت کی اخلاقی باتیں بتا کر سمجھتے ہیں کہ اپنا فرض ادا کردیا مگر یہ نہیں بتاتے کہ اِن باتوں پر عمل کیسے ہوگا۔معاشی نظام ہو، سماجی یا سیاسی نظام ، انسان کسی بھی قانون پر محض اِس لیے عمل نہیں کرتا کہ اُس کے باطن سے قانون پر عمل کرنے کی آواز آتی ہے بلکہ وہ اپنے مفاد کے پیش نظر اُس پر عمل کرتا ہے ۔جمہوریت کی مثال لے لیں ، اسے بہترین نظام اسی لیے کہاجاتاہے کہ یہ فرد کے مفادات کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیاگیاہے، سیاست دان اِس لیے فلاحی کام کرنے پر مجبور نہیں ہوتا کہ وہ ایک اچھا انسان ہے بلکہ وہ اِس لیے اپنے حلقے کے لیے کام کرتا ہے کیونکہ اسے وہاں سے ووٹ چاہئیں اور اُس کے ووٹر بھی اسی صورت میں اسے منتخب کرتے ہیں اگر وہ اُن کے مفادات کا تحفظ کرے ۔لہٰذا محض خوش کُن باتیں کرکے یہ فرض کرلینا کہ ہم نے کسی نظام کا خاکہ پیش کردیا ہے ، دانشمندانہ بات نہیں ہے ۔یہاں ایک اور بات بھی اہم ہے کہ اسلامی معاشی نظام کے ماہرین یہ خوش کُن باتیں تو کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ ملک کی مالیاتی پالیسی کیا ہوگی ، ایکسچینج ریٹ کا تعین کیسے کیاجائے گا، سٹیٹ بینک کیسے کام کرے گا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کیسے بڑھائی جائے گی،بیرونی سرمایہ کاری کو کیسے راغب کیا جائے گا؟ سٹیٹ بینک کو بیت المال کہنے اور ٹیکس کو زکوٰة کہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔

تو کیا پھریہ سمجھا جائے کہ اسلام کا کوئی معاشی نظام نہیں ہے؟ اِس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک اور سوال کرتے ہیں ۔آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ علمائے کرام سے مختلف نوعیت کے دینی سوالات کرتے ہیں جو شادی ،طلاق، پردہ، سود، نماز ، روزہ، حج ، زکوٰة سے متعلق ہوتے ہیں اور علمائے کرام قران و حدیث کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی بھی فرماتے ہیں ۔ لیکن میں نے آج تک کٹر سے کٹر مذہبی شخص کو کسی عالم دین سے یہ سوال کرتے نہیں دیکھا کہ میں نے کراچی کی طارق روڈ یا راولپنڈی کے راجہ بازار میں صندوق بیچنے کی دکان کھولی ہے، کیا یہ دکان چلے گی؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ تاجر جانتا ہے کہ اِس سوال کا جواب عالم دین کے پاس نہیں ، اِس کے لیے اسے مارکیٹ کا سروے کروانا پڑے گا، اپنے مال کی کھپت کا اندازہ لگوانا پڑے گااور دکان پر بیٹھ کر محنت کرنا پڑے گی۔یہی اسلامی معاشی نظام والے سوال کا جواب ہے ، اسلام ہمیں زندگی گزارنے کے کچھ رہنما اصول بتاتا ہے اور ہمیں آخرت میں سرخرو ہونے کی ترغیب دیتا ہے ۔ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کیا ہوگی، یہ اسلام کا نہیں معیشت کا سوال ہے ، اِس کا جواب مولانا مودودی نے نہیں جان مینارڈ کینزنے دینا ہے !
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے