بھلا! سیاست دان ایسے ہوتے ہیں جواپنی جماعت میں چالیس برس سے زائد عمر گزاردیں لیکن اس جماعت کے پلیٹ فارم سے ایک پیسہ کا مفاد حاصل نہ کریں، اس جماعت کو اپنی ذاتی جاگیر بنانے کے لئے لمحہ بھر نہ سوچیں، بلکہ اپنا سب کچھ اسی جماعت کے لئے وقف کردیں ، اس کے پلیٹ فارم سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے رکن بنیں تو ساری تنخواہ اپنی پارٹی کے بیت المال میں جمع کرادیں کیونکہ ان کا خیال ہوتاہے کہ یہ تنخواہ قاضی حسین احمد کو نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر کو ملتی ہے…
ان کی پوری زندگی چھان ماری جائے لیکن ساری کی ساری سفید کپڑے جیسی اجلی نکلے، کہیں کرپشن، مراعات جیسی گندگیوں کا شائبہ تک نہ ہو!!!! بھلا ! سیاسی لیڈر ایسے ہوتے ہیں کہ امیرکبیر خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے کارکنان کے ساتھ ہی اینٹ کو تکیہ بناکر آرام سے سوجائیں، کارکنان اصرار کرتے رہیں لیکن وہ ان کی ایک نہ مانیں!!!!
انسان پارٹی کا سربراہ بن جائے اور پھر اپنے پارٹی دستور کو اپنے اشارہ ابرو پر تبدیل نہ کرتا رہے ، بھلا یہ کہیں ممکن ہے لیکن قاضی حسین احمد نے امیرجماعت کی حیثیت سے بھی جماعت اسلامی کے دستور کی اسی طرح مکمل پابندی کی، جس طرح جماعت کا ایک عام کارکن کرتاہے۔
قاضی صاحب محض ایک سیاست دان ہی نہیں بلکہ سیاست دانوں کے لئے روشن چراغ تھے۔
قاضی صاحب کاخاندان مالی اعتبار سے خاصا خوشحال تھا۔ قالینوں کا کاروبار تھا۔ قاضی صاحب بھی عملی زندگی میں آنے کے بعد اپنے اسی خاندانی کاروبار کو ترقی دینے میں مصروف ہوگئے۔ صوبہ خیبرپختونخوا( اس وقت صوبہ سرحد) کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر بھی رہے تاہم جماعت اسلامی کو ان کی کل وقتی خدمات کی ضرورت پڑی تو چپکے سے سارا کاروبار بھائیوں کے حوالے کرتے ہوئے اپنے آپ کو جماعت کے لئے وقف کردیا۔
ان سے پہلے خاندان میں کو ئی بھی جماعت اسلامی سے منسلک نہیں تھا، والد قاضی عبدالرب بنیادی طورپر جمعیت علمائے اسلام سے وابستہ تھے، باقی بیٹے بھی اسی جماعت سے منسلک ہوئے۔ تاہم قاضی حسین احمد زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے اور جمعیت کے رفیق بنے۔اگر وہ جمعیت میں مزیدوقت گزارتے تو یقیناً وہ طلبہ کے اس گروہ کی قیادت کرتے ۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جب قاضی حسین احمد جمعیت میں رفیق تھے،اس وقت سیدمنورحسن اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ (مرکزی صدر)تھے۔ جب قاضی صاحب 1970ء میں جماعت میں شامل ہوئے اور مختلف تربیتی اور تنظیمی مراحل طے کرنے کے بعد مرکزی امیر منتخب ہوئے تو سید منورحسن جماعت اسلامی کراچی کے امیر تھے۔ جماعت اسلامی کے جو کارکنان اپنا سارا وقت جماعت کو دیتے ہیں، انھیں جماعت کی طرف سے ضروریات پوری کرنے کے لئے کچھ ماہانہ مشاہرہ دیاجاتاہے۔ تاہم قاضی صاحب نے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ بلکہ اپنا سب کچھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے قربان کیا۔
اگرچہ قاضی صاحب امیرکبیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن ساری زندگی غیرمعمولی سادگی کے ساتھ گزاری۔ امیرجماعت منتخب ہوئے توجماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں سکونت اختیار کی۔ ان کے ایک بیٹے آصف لقمان قاضی آئی ٹی کے ماہر ہیں اور اسی شعبہ میں کاروبار کرتے ہیں، دوسرے بیٹے انس قاضی ڈاکٹر ہیں، بیٹی سمیحہ راحیل قاضی کی شادی بھی ایک ڈاکٹر سے ہوئی۔ ساری اولاد اپنے خوبصورت گھروں میں مقیم ہے۔ سب نے لاکھ کوشش کی کہ والد صاحب ان کے ساتھ ہی مقیم ہوجائیں لیکن قاضی صاحب نے بحیثیت امیر جماعت آخری دن بھی منصورہ کے اسی فلیٹ میں گزارا۔ جس دن سیدمنورحسن امیرجماعت منتخب ہوئے، اس فلیٹ کو خیرباد کہا اور پشاور میں گھرلے لیا۔
قاضی صاحب نے اپنے دورامارت میں جماعت اسلامی کی اس انفرادیت کو برقراررکھا کہ یہ شخصی یا خاندانی جماعت نہیں ہے۔ پاکستان کی شاید ہی کوئی دوسری جماعت ایسی مثال پیش کرسکے۔ یہاں بہت سی جماعتیں جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتیں لیکن ان پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے، ماں یا باپ کے بعد اولاد ہی کو پارٹی قیادت تفویض کی جاتی ہے جبکہ پارٹی انتخابات کے نام پر ڈھونگ رچایاجاتاہے۔ قاضی صاحب کے دور امارت میں ان کی اولاد بھی جماعت کے بنیادی کارکنوں کی طرح ہرقسم کی سردی گرمی برداشت کرتے ہوئے کام کرتی رہی، باپ نے اولاد کی ایسی تربیت کی کہ کسی بیٹی یا بیٹے میں جماعتی منصب حاصل کرنے کی خواہش ہی پیدا نہیں ہونے دی۔ [pullquote]بائیس سالہ دور امارت میں جماعت کے پلیٹ فارم سے خود کوئی سیاسی یا مالی فائدہ حاصل کیا نہ ہی اولاد کو اس کی اجازت دی۔
[/pullquote]
بھٹو حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی سویت یونین کے افغانستان میں فوج کشی کے خطرات واضح ہونے لگے تھے۔ ان کو مدنظررکھتے ہوئے ایک افغان وفد پاکستان آیا۔ اس میں برہان الدین ربانی بھی تھے جو بعدازاں افغانستان کے صدر بھی بنے، اس وفد کے اولین میزبان قاضی حسین احمد ہی تھے۔ انھوں نے ہی وفد کی حکومتی ذمہ داران سے ملاقاتوں کا اہتمام کرایا۔ آنے والے دنوں میں جب سویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اوران کے خلاف مزاحمتی تحریک برپا ہوئی تو قاضی حسین احمد اس تحریک کے بانیوں میں شامل تھے۔ انھوں نے ذاتی حیثیت سے بھی اس جہاد میں شرکت کی۔ ان کے اسی کردار کو پیش نظررکھتے ہوئے جماعت اسلامی نے انھیں ا فغان امورکا شعبہ سونپ دیا۔ اس امر سے اختلاف ممکن نہیں کہ قاضی حسین احمد ہی کی حکمت عملی اور سرگرمی نے پوری پاکستانی قوم کو افغان جہاد کا پشتی بان بنادیا۔ ان کا یہ کردار پاکستان کی سلامتی کے باب میں کبھی بھلایانہیں جائے گا۔ اس خطرہ کو کون رد کرسکتاہے کہ اگر پاکستانی قوم پشتی بان نہ بنتی ، افغان جہاد کامیاب نہ ہوتا تو سویت یونین گرم پانیوں تک قابض ہوجاتا۔