چائے کی پیالی اور کھڑکی کے باہر کا نظارہ

سورج طلوع ہونے کا منظر دیکھنا مجھے بہت کم نصیب ہوتا ہے، اس لیے نہیں کہ میں صبح دیر سے جاگتا ہوں بلکہ اس لئے میں کمرے سے باہر نکلنا نہیں چاہتا۔ آج بھی حسب معمول مہروان کی ماں چائے کی پیالی کھڑکی پر رکھ اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہوگئیں۔ جس پلنگ نما چارپائی پر میں اپنا وقت گزارتا ہوں اس کو مہروان کی ماں نے کب سے کھڑکی کے قریب سے ہٹایا ہے ،اورپھر بھی کسی نہ کسی بہانے سے میں صبح اٹھ کر کھڑکی سے باہر کا نظارہ دیکھتا ہوں۔

پتہ نہیں کیوں باہر کے مناظر میرے لیے ہر وقت ایک جیسا ہوتا ہے، میری نظریں ہر وقت ایک بھوت نما بنگلے پر اٹک جاتی ہیں۔ کبھی کبھار دل کو بہلانے کے لئے چہل قدمی کرتے ہوئے اس بھوت نما بنگلے کے قریب جا کر بھی اندر جانے سے پہلے واپس اپنے جھونپڑی کی طرف آتا ہوں، کہ اس بھوت نما بنگلے کو باریک بینی سے دیکھنے سے بہتر ہے کہ جو وقت رہ گیا اپنے بچوں کے ساتھ گزارو ،پتہ نہیں زندگی کے کتنے ایام رہ گئیں ہیں۔

[pullquote]تصویر کا دوسرا رخ[/pullquote]

وقت بدلتا رہتا ہے اور مجھ جیسے نکمے کا زیادہ تر وقت ایک بند کمرے میں گزرتا ہے کیونکہ باہر کی رش کش سے الگ ہوکر اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے ذہنی سکون محسوس ہوتا ہے۔

کبھی کبھار نہ چاہتے ہوئے دوستوں کے ساتھ نکلنا پڑتا ہے، یہ معلوم نہیں کہ دوستوں کا منزل مقصود کہاں اور کیوں مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہتے ہیں۔

ویسے کچھ عرصے سے دوستی اور یاری کرتے ہوئے احتیاط برت رہا ہوں، کیونکہ جتنے زخم ملے انہیں دوستوں نے دئیے تھے ابھی تک ان پر مرہم رکھ رہا ہوں۔

میرے ایک دوست کو اپنے ایک آفیشل کام کے سلسلے میں بھوت نما بنگلہ جانا تھا، وہ مجھے ساتھ لے کر چلا گیا۔

راستے میں ہم موسم کو انجوائے کرتے کرتے مین گیٹ تک پہنچ گئے جب میں نے پہلا قدم اندر رکھا تو مجھے کچھ تبدیلی نظر آئی۔بار بار نظر کی عینک کو صاف کرتا رہا کہ کہیں میں کسی غلط جگہ تو نہیں آیا پھر اندر جاکر یقین ہوگیا ۔

نہیں یہ تو وہی بھوت نما بنگلہ ہے جسے میں روز کھڑکی کے قریب بیٹھ کر دیکھتا ہوں۔ کل اس بنگلے پر جو بڑی دراڑیں پڑی تھیں اب اسکی مرمت اور تزئیں و آرائش کا کام جاری تھا۔

میرا دوست اپنا کام نمٹاتا رہا اور میں اس حقیقی تبدیلی کو قریب سے غور سے دیکھتا رہا اور جو سنتا رہا وہ میرے ذہن میں نقش ہوتے رہے۔ پانی کے دو گھونٹ پینے کے بعد گہری سانس لی اور ایک صوفے پر بیٹھ کر ہر چیز کو باریک بینی سے مشاہدہ کرتا رہا۔

وہی بھوت نما بنگلہ اب ایک عالیشان عمارت بننے جارہا تھا،اندر کا ماحول بھی اطمینان بخش تھا اور سینکڑوں لوگ اس ماحول سے مستقبل کی ہزاروں خواہشات کی تکمیل میں مصروف تھے۔ ایک حقیقی تبدیلی میرے نظروں کے سامنے عیاں تھیں۔

ماضی کے اوراق کو ٹٹولتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ تبدیلی خود نہیں بلکہ اسے وژنری لوگ لاتے ہیں اور کچھ لوگ خود نہیں بلکہ انکے کام خود بولتے ہیں۔ آج کا منظر میرے لئے ایک زبردست منظر تھا، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں کئی ادھورے خوابوں کی تکمیل بہت جلد شرمَنْدہ تعبیر ہونا والا ہے۔

پھر خیال آیا کہ اگر ہم سب کو تعلیم کی فکر ہوتی اور ہمارا سْیاست سے بالاتر ہوکر ایک ہی ایجنڈا اور مشن ہوتا تو آج آکسفورڈ نہ سہی گوادر یونیورسٹی کا ایک کمپس یہاں کب سے قائم ہوتا۔

[pullquote]تصویر کا تیسرا رخ[/pullquote]

سروج غروب ہوتے ہی نہ چاہتےہوئے شہر کےکسی نہ کسی وٹس ایپ گروپ میں جانا پڑتا ہے جہاں رات کے تاریکی میں مجھ سمیت ہر بندہ خود ساختہ دانشور اور فلاسفر بن جاتا ہے۔ ویسے میرے شہر میں اگر کسی کے پاس اسمارٹ فون ہے تو وہ رات کو اپنی دانشورنہ خیالات سب لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

کبھی کبھار میں نہ چاہتے ہوئے تعلیمی مسائل پر بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ یہ جانتے ہوئے کہ تعلیم اس شہر کے سْیاسی و سماجی دانشوروں کے ڈکشنری میں ایک ممنوعہ لفظ ہے اور اس پر بحث و مباحثہ شاید انکی نظر میں فضول ہے۔ اگر فضول نہ ہوتا تو اس شہر میں کسی یونیورسٹی کا ایک سب کیمس ہوتا، کیونکہ اس شہر کے پانچ سو سے زائد بچے اور بچیاں انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے