ملنگ کی موت

علی بلال المعروف ظلِ شاہ کی درد ناک موت سے مجھے سائیں ہرا یاد آگیا۔ سائیں ہرا پیپلز پارٹی کا ملنگ کارکن تھا جسے میں نے جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں لاہور کی سڑکوں پر پولیس سے ڈنڈے کھاتے دیکھا۔ 2017 میں سائیں ہرا کا انتقال ہوا تو میں نے روزنامہ جنگ میں ’’سائیں ہرا کا خواب‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں عرض کیا تھا کہ سائیں ہرا جیسے غریب سیاسی کارکن تو اپنی وفاداری تبدیل نہیں کرتے لیکن پنجاب کے بہت سے امیر سیاستدان پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ ان امیر لوگوں کا نظریہ صرف اقتدار ہے۔ 2018ء میں تحریک انصاف کو اقتدار میں لایا گیا اور 2022ء میں یہ جماعت اقتدار سے نکال دی گئی۔ اقتدار سے نکلتے ہی وہ لوگ بھی تحریک انصاف سے بھاگنے لگے جنہوں نے ہوا کا رخ دیکھ کر اس جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن ظلِ شاہ جیسے غریب سیاسی کارکن عمران خان کے لئے لڑنے مرنے پر تیار ہو گئے۔

عمران خان کو دو طرح کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ ایک تو وہ ہیں جو فرسٹریشن کا شکار ہیں اور سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کرتے ہیں۔ ان کی گالی گلوچ نے عمران خان کو دشمنوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ دوسری طرح کے لوگ ظلِ شاہ جیسے بے لوث جانثار ہیں۔ ظلِ شاہ ایک ملنگ تھا جو عمران خان کے نام پر ناچتا گاتا تھا اور ’’پولیس کے ڈنڈے ‘‘ کھاتا تھا۔ مئی 2022ء میں بھی پولیس کے ڈنڈوں سے اس کا بازو ٹوٹ گیا اور چند دن پہلے بھی زمان پارک لاہور میں پولیس نے اسے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ ظلِ شاہ میڈیا کے کیمروں کے سامنے گرفتار ہوا اور چند گھنٹوں کے بعد اس کی لاش لاہور کے ایک اسپتال میں پہنچی۔ تحریک انصاف نے ظلِ شاہ کی موت کا ذمہ دار پنجاب حکومت کو قرار دیا اور پنجاب حکومت نے کسی تفتیش کے بغیر ظلِ شاہ کے قتل کا مقدمہ عمران خان پر درج کرادیا۔ ایک ملنگ کی موت پر جھوٹ کا بازار گرم کردیا گیا۔

گیارہ مارچ کو پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی اور ظلِ شاہ کی موت کی وجہ ایک ٹریفک حادثہ کو قرار دے دیا۔ اس نئی کہانی کے مطابق ظلِ شاہ کو پولیس نے زمان پارک سے گرفتار کیا اور فورٹریس سٹیڈیم کے قریب چھوڑ دیا لیکن وہ ایک ٹریفک حادثے میں مارا گیا۔ جس گاڑی نے ظلِ شاہ کو ٹکر ماری اس میں تحریک انصاف کے لوگ سوار تھے۔ وہ ظلِ شاہ کو سروسز اسپتال میں چھوڑ آئے اور پارٹی لیڈر ڈاکٹر یاسمین راشد کو اطلاع دے دی۔ پولیس کے بقول ڈاکٹر صاحبہ ظلِ شاہ کی موت کی وجہ سے آگاہ تھیں لیکن اگلے دن انہوں نے ظلِ شاہ کے قتل کا الزام پنجاب حکومت پر لگا دیا۔ ڈاکٹر صاحبہ اس دعوے سے انکاری ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں صرف یہ بتایا گیا کہ سڑک کے کنارے ایک لاش پڑی تھی جسے اسپتال پہنچا دیا گیا۔

نگران وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب نے یہ تو بتا دیا کہ ظل شاہ کی موت ٹریفک حادثے میں ہوئی لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس بے ضرر ملنگ کے قتل کا عمران خان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے الزام میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں؟یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ظلِ شاہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کے جسم کے نازک حصوں پر تشد دکے نشانات کیسے آگئے؟ مان لیا کہ عمران خان نے نگران وزیر اعلیٰ پر ظل ِشاہ کی موت کا جھوٹا الزام لگایا لیکن نگران صوبائی حکومت نے ظل ِشاہ کے قتل کا جھوٹا مقدمہ کیوں درج کیا؟نگران حکومت صوبے میں الیکشن کرانے آئی ہے یا عمران خان کا مقابلہ کرنے آئی ہے؟ نگران حکومت کے لب و لہجے میں مریم نواز کی للکار اور نفرت کی پھنکار بڑھتی جا رہی ہے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹی وی چینل کو تین مرتبہ بند کرایا گیا اور اسی تناظر میں عمران خان نے محسن نقوی کی بطور نگران وزیر اعلیٰ تقرری کی مخالفت کی تھی۔ اس مخالفت کے باوجود الیکشن کمیشن نے محسن نقوی کے حق میں فیصلہ دیا کیونکہ الیکشن کمیشن کے لئے باقی دو نام تکنیکی وجوہات پر قابل قبول نہ تھے۔

خان صاحب کے خیال میں محسن نقوی دراصل پنجاب میں آصف علی زر داری کے نمائندے ہیں لیکن اندر کی خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کے بہت سے رہنما محسن نقوی سے قطعاً خوش نہیں ،ان کے خیال میں محسن نقوی مسلم لیگ (ن) کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ محسن نقوی کو یہ تاثر دور کرنا ہوگا کہ وہ پنجاب میں تین مہینے کے لئے نہیں بلکہ ایک لمبے عرصے کے لئے لائے گئے ہیں اور اب الیکشن اس وقت ہوں گے جب عمران خان نااہل ہو جائیں گے۔ آئین اور اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ تین ماہ پورے ہونے پر محسن نقوی اپنی کابینہ سمیت مستعفی ہو جائیں اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ہم ان سے صرف عمران خان کے انجام سے سبق سیکھنے کی گزارش ہی کرسکتے ہیں۔ عمران خان غیر سیاسی سہاروں کی مدد سے اقتدار میں آئے۔ یہ سہارے نہ رہے تو تمام تر مقبولیت کے باوجود عمران خان گرما گرم تقریروں کے سوا کچھ نہیں کرپا رہے۔ ان سہاروں کی طاقت پر پھنکارنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نوے دن کے اندر انتخابات کا حکم دے چکی ہے۔ آپ کچھ ججوں کے کنڈکٹ پر سوالات ضرور اٹھائیں لیکن آئین کے تقاضوں کو نظر انداز کرنا جمہوری اداروں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

آئین کی خلاف ورزی پر ہم نے عمران خان کی حکومت پر تنقید کی اور نو ماہ کی طویل غیر آئینی پابندی کا شکار رہے۔ اگر عمران خان کے دور میں ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم عمران خان کی نفرت میں آئین کی خلاف ورزی پر تالیاں بجائیں۔ ظلِ شاہ جیسے ایک ملنگ کی موت نے بہت سے نقاب اتار دیئے ہیں اور ہمیں نظر یہ آ رہا ہے کہ پاکستان کو ایک پولیس اسٹیٹ بنا دیاگیا ہے۔ لاہور سے لے کر اسلام آباد تک پولیس سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کر رہی ہے اور حکمران طبقہ پولیس کی سرپرستی کر رہا ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے مجھے کہا کہ آج کل ہمیں پولیس افسران کے نخرے اٹھانے پڑتے ہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں عمران خان کا مقابلہ ہم نے اس پولیس کے ذریعہ کرنا ہے لہٰذا وزیر داخلہ سے نگران وزیر اعلیٰ تک سب کے سب اہل اقتدار پولیس کے ظلم پر پردے ڈال رہے ہیں۔ عمران خان کا مقابلہ ضرور کریں لیکن سیاسی میدان میں کریں۔ اگر ظلِ شاہ کی موت واقعی ٹریفک حادثے میں ہوئی ہے تو پھر دیر کس بات کی۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ پولیس کب تک آپ کا سہارا بنے گی؟ ڈریں اس وقت سے جب یہ سہارے ختم ہو جائیں گے اور کوئی پولیس افسر آپ سے ہاتھ ملانے کا روادار نہ ہوگا۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے