ایک بستی کے دو شہری!

میں اور میرا ساتھی شہر کی ایک ماڈرن بستی میں چہل قدمی کرتے ہوئے دور نکل گئے یہ امیر ترین لوگوں کی بستی تھی اور یہاں رہنے والے تمام آسائشوں سے بہرہ ور تھے، ہمارے قریب سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی چمکیلی کار گزر جاتی جس میں خوشنما چہرے خوشنما لبادوں میں ملبوس بیٹھے نظر آتے،سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کے بنگلے ایستادہ تھے جن کے وسیع وعریض لان میں اودے اودے، نیلے نیلے اور پیلےپیلے پیراہنوںوالے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے یہ باہر کے خیرہ کن مناظر تھے جنہیں ہماری آنکھیں دیکھ سکتی تھیں ان بنگلوں کے اندر کی دنیا ہم سے اوجھل تھی ۔

چلتے چلتے غیر ارادی طور پر میں اور میرا ساتھی سڑک کے دائیں ہاتھ ایک ڈھلوان میں اتر گئے اور ہمیں یوں لگا جیسے الف لیلیٰ کے ابو الحسن کو عالیشان محل اور حسین کنیزوں کے جھرمٹ سے اٹھا کر واپس اس ماحول میں بھیج دیا گیا ہے جہاں سے اسے لایا گیا تھا، ہمارے سامنے ایک کچی سی گلی تھی جس کے نکڑ پرچائے کی دکان تھی جسے پردیسی ہوٹل کا نام دیا گیا تھا، بائیں جانب ایک ٹیلے پر کسی بزرگ کا مزار تھا اور یہاں سبز علم لہرا رہے تھے دائیں جانب ایک چھوٹی سی مسجد تھی اور یہاں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بچے مولوی صاحب سے قرآن مجید پڑھ رہےتھے، یہ گلی ذرا آگے چل کر چوڑی ہو گئی تھی اور اس کے درمیان میں کنواں تھا ایک عورت کنویں میں سے بوکے کے ذریعے پانی نکال رہی تھی اور دوسری عورت اپنی باری کے انتظار میں بالٹی پائوں میں رکھے منڈیر پر بیٹھی تھی سامنے والے مزار کے صحن میں ایک سفید ریش بزرگ کبوتروں کو دانہ ڈال رہے تھے اور سینکڑوں کبوتر ان کے گرد جمع تھے۔

مزار سے ذرا ادھر برگد کا ایک پرانا درخت اپنی جڑیں زمین کے اندر اور باہر پھیلائے کھڑا تھا میں اور میرا ساتھی چلتے چلتے تھک گئے تھے ہم نے برگد کے نیچے رومال بچھایا اور سستانے کےلئے بیٹھ گئے۔

’’تم چائے پیئو گے‘‘ میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا جس کے چہرے پر تھکن کے آثار کچھ زیادہ نمایاں تھے وہ میرے لئے ان راستوں پر چل نکلا تھا ورنہ وہ ایسی مسافتوں کا عادی نہ تھا ۔

’’ہاں‘‘ اس نے سرکی ہلکی سی جنبش سے جواب دیا۔میں اٹھ کر پردیسی ہوٹل کی طرف گیا اور چائے کے دو کپ بنوا کے لے آیا دکان کے مالک نے اپنے دوسرے گاہکوں کے برعکس ہمارے صاف ستھرے کپڑے دیکھ کر نہ صرف یہ کہ الماری سے دو ایسے کپ نکلوائے تھے جن کے کنارے ٹوٹے ہوئے نہیں تھے بلکہ انہیں دھویا بھی بڑے اہتمام سے تھا میں نے برگد کے نیچے پہنچ کر پلیٹ میں گری ہوئی چائے زمین پر انڈیلی اور پھر ایک کپ اپنے ساتھی کو تھما دیا ۔

یہاں کتنا سکون ہے میرے ساتھی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا ’’تم دیکھ رہے ہو کہ پاس سے گزرنے والے لوگوں کی نظروں میں کتنی پاکیزگی ہے اور وہ اس طرح سلام کرکے گزر رہے ہیں جیسے برسوں سے ہمارے آشنا ہوں‘‘

’’ہاں میں دیکھ رہا ہوں لیکن اپنے بائیں جانب اس بوڑھی عورت کو دیکھو۔‘‘ میں نے اس طرف اشارہ کیا جہاں ایک ضعیف عورت پائوں کے بل بیٹھی پانی ایسے شوربے میں روٹی بھگو بھگو کر کھا رہی تھی، اس کے کپڑے تار تار تھے ۔

’’چچ چچ چچ‘‘میرے ساتھی نے اپنے دکھ کا اظہار کیا،میری جیب میں اس وقت پیسے نہیں ہیں تم فی الحال پانچ سو روپے اسے دے دو ۔میں نے آگے بڑھ کر بوڑھی عورت کو پانچ سو کا نوٹ دیا اس نے خوشی سے کاپنتے ہاتھوں کے ساتھ یہ نوٹ ہاتھوں میں لے لیا اور پھر غور سے اسے دیکھنے لگی اس کے بعد اس کے دو منٹ دعائوں میں صرف ہو گئے اور پھر اس نے یہ نوٹ قمیض کے دامن میں باندھتے ہوئے پوچھا ’’بیٹے یہ کتنے کا نوٹ ہے‘‘ مجھے یوں لگا کہ جیسے کسی نے میرا کلیجہ مسل دیا ہو اور میں اس کی بات کا جواب دیئے بغیر واپس برگد کی چھائوں میں آکر بیٹھ گیا ۔

تھوڑی دیر بعد ہم دوبارہ چند گز دور واقع جدید طرز کی بستی میں ہوں گے جہاں سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کے بنگلے ایستادہ تھے جن کے وسیع وعریض لان میں رنگ برنگ پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے ۔دائیں جانب واقع ایک اسنیک بار کے باہر نئے ماڈل کی کاریں کھڑی تھیں جن میں بیٹھے ہوئے خوش لباس اور خوشنما چہرے آئس کریم کھا رہےتھے ۔وہ بستی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی جہاں ایک مسجد میں بچے لہک لہک کر قرآن مجید پڑھ رہےتھے جہاں مزار پر سبز علم لہرا رہےتھے اور جس کے صحن میں ایک بزرگ کبوتروں کو دانہ ڈال رہےتھے جہاں کنویں میں سے عورتیں پانی نکال رہی تھیںجہاں پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک ضعیف عورت پانی ایسے شوربے میں باسی روٹی کے لقمے بھگو کر کھا رہی تھی اور جہاں برگد کا ایک درخت تھا جس کے سائے تلے ’’عجوبہ‘‘ بستیاں دیکھنے کے لئے آنے والے ہم جیسے لوگ بیٹھتے ہیں اور کچھ دیر سستانے کے بعد واپس اپنی روشن بستیوں کو لوٹ جاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے