سلطنت روما کے عروج و زوال کی داستان پڑھتا ہوں تو لرز جاتا ہوں اور گاہے یہ خیال آتا ہے کیا ہم اسی راستے پر تو نہیں چل پڑے جہاں تہذیب و ثقافت کے پجاریوں کی قبریں جا بجا پھیلی نظر آتی ہیں ۔ روم کے بے تاج بادشاہوں کو جشن طرب برپا کرنے کے سب طریقے فرسودہ محسوس ہونے لگے اور اکتاہٹ ہونے لگی تو یکسانیت دور کرنے کے لئے ایک نئی طرح کا کلچر فروغ دینے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ مورخین یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ منفرد نوعیت کے اس اسپورٹس فیسٹیول کا نادر تخیل کس درباری نے پیش کیا تاہم جولیو کلیڈین خاندان جس نے روم پر کئی سو سال بادشاہت کی ، اس کے دور حکمرانی میں گلیڈیٹر کے نام سے ایک وحشیانہ کھیل شروع کیا گیا جس کا مقصد رومی تہذیب و ثقافت کا تحفظ تھا ۔
گلیڈیٹرز وہ قیدی اور غلام ہوا کرتے تھے جنہیں پالتو کتوں کی طرح پالا پوسا جاتا ، کھلایا پلایا جاتا اور سالانہ فیسٹیول کے لئے تیار کیا جاتا ۔ کئی ماہ پہلے اس منفرد شو کی ٹکٹیں فروخت ہوتیں اور مقررہ دن ایک بڑے میدان میں تماش بینوں کا انبوہ جمع ہو جاتا ۔ بادشاہ کے درباری ، امراء ، رئوسا اور دیگر اشراف کے لئے اسٹیج سجایا جاتا ، بادشاہ سلامت تھرکتے اجسام اور موسیقی کی دلنواز دھنوں سے نغمہ بار فضا میں تشریف لاتے اور یوں اس کھیل کو شروع کرنے کا حکم دیا جاتا ۔ گلیڈیٹر جنہیں عرصہ دراز سے سدھایا گیا ہوتا ، انہیں ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آنے کا حکم ملتا ۔ وہ نہایت سلیقے اور قرینے کے ساتھ منظم انداز میں بادشاہ سلامت کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے اور سلامی پیش کرتے ۔ اس کے بعد میدان کے ایک حصے میں موجود ان کچھاروں کے جنگلے کھول دیئے جاتے جن میں وحشی درندوں کو کئی دن سے بھوکا رکھا گیا ہوتا ۔
شیر ، چیتے ، ریچھ ان سے نکلتے ہی گلیڈیٹروں پر ٹوٹ پڑتے ۔ گلیڈیٹرز اپنے ہتھیاروں کے ساتھ بھوکے درندوں کا مقابلہ کرتے ۔ میدان انسانوں اور حیوانوں کے خون سے بھر جاتا ۔ لڑائی تب ختم ہوتی جب ان درندوں یا انہیں کی طرح سدھائے گئے انسانوں میں سے کوئی ایک گروہ غالب آ جاتا ۔ مورخین کا محتاط اندازہ یہ ہے کہ اس کھیل میں ہر سال کم از کم 8000 گلیڈیٹر مارے جاتے ۔ جو بچ جاتے ، انہیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا مگر اس کھیل سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا اور وہ اگلے سال اسی میلے میں پھر کام آ جاتے ۔ جب یہ وحشی جانور گلیڈیٹروں کی تکا بوٹی کر رہے ہوتے تو تماشایئوں کی ہذیانی چیخیں اور موسیقی کا شور مل کر سماں باندھ دیتا اور بادشاہ سلامت ان مناظر سے بیحد لطف اندوز ہوتے ۔
روم میں گلیڈیٹروں کا یہ کھیل کئی سو سال تک جاری رہا اور اسے روم کی ثقافت کی حیثیت حاصل ہو گئی ۔ یہاں تک کہ کلیڈین سلسلہ کے آخری چشم و چراغ نیرو نے اقتدار سنبھال لیا ۔ نیرو کا برسراقتدار آنا بھی اقتدار کی رسہ کشی کے خود غرضانہ کھیل کا ایک عجیب موڑ تھا ۔ نیرو موسیقی کا رسیا تھا ، اسے کسی ناچنے والے گھر میں جنم لینا تھا مگر شاہی خاندان میں پیدا ہو گیا ۔ اس لئے وہ تخت نشین ہونے کے بعد بھی باقاعدہ ناچتا گاتا اور اپنے درباریوں سے داد وصول کرتا ۔ اس کی ماں ایپرپینا نے اپنے شوہر کو زہر دے دیا تاکہ نیرو بادشاہت کا حقدار بن سکے ۔ اس کے چچا کلاڈیئس نے اپنے بھتیجے نیرو کو تخت و تاج کا وارث نامزد کر دیا لیکن یہ شخص ایسا احسان فراموش اور مطلبی نکلا کہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے انہیں ٹھکانے لگایا جن کی وجہ سے اسے اقتدار نصیب ہوا ۔
پہلے اس نے اپنے محسن چچا کے بیٹے کو مروایا اور پھر ماں کو قتل کر دیا ۔ اپنی ایک بیوی کو اس نے تب لات مار کر ہلاک کر دیا جب وہ حاملہ تھی ۔ اسے جب جو لڑکی پسند آتی ، اس کے شوہر کو قید میں ڈال کر اپنے پاس رکھ لیتا ۔ ناول نگار Gaius Suetonius کو رومی تاریخ کا سب سے معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے ۔ وہ اپنے ناول The twelve ceasre میں نیرو کی خباثت بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب نیرو کا دل شادیوں سے بھر گیا تو اس نے جی بہلانے کے لئے ایک نئی ترکیب سوچی ، وہ اپنے سپاہیوں کے ذریعے انتہائی پاکباز و پاکدامن کنواری لڑکیوں کی کھوج لگواتا ، انہیں اپنے کارندے بھیج کر زبردستی اٹھواتا اور اپنے جنسی درندوں کے حوالے کر دیتا تاکہ وہ اجتماعی آبروریزی کا شوق پورا کر سکیں ۔ جب درندگی کا یہ کھیل شروع ہوتا اور مظلوم لڑکیوں کی دلدوز چیخوں سے زمین ہل رہی ہوتی تو یہ نفسیاتی مریض حظ اُٹھاتا اور اپنے جذبات کی تسکین کرتا ۔
اقتدار کے آخری ایام میں اس نے ایک اور خباثت یہ کی کہ ایک انتہائی حسین و جمیل لڑکے کو عمل اخصاء کے ذریعے نا مرد کیا اور دلہن بنانے کے بعد زندگی بھر اپنے پاس رکھا ۔ ایک مرتبہ جب نیرو کے دوست اور آرمینیا کے شہنشاہ ٹریدیٹس نے روم کی سیر کو آنا تھا تو نیرو نے گلیڈیٹرز کے کھیل میں جدت پیدا کرنے کے لئے اس میں گلیڈیٹر عورتوں کا اضافہ کر دیا اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی وحشی درندوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا ۔
ایک جملہ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا ۔ 64 قبل مسیح روم میں شدید آگ لگی جس میں دارالسلطنت کے دوتہائی علاقے جل کر راکھ ہو گئے اور ہزاروں انسان زندہ جل گئے ۔ جب روم جل رہا تھا تو نیرو 53 میل دور واقع اپنے محل کی ایک پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا ۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ چونکہ نیرو عیاش اور اذیت پسند تھا لہٰذا یہ آگ اس نے خود لگوائی تاکہ جلتے مرتے لوگوں کی دلدوز چیخوں سے محظوظ ہو سکے ۔ کسی شاعر نے ایسے حکمرانوں کی کیا خوب عکاسی کی ہے :
لگا کر آگ شہر کو بادشاہ نے کہا
اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کر سر سبھی شاہ پرست بولے حضور!
شوق سلامت رہے شہر اور بہت
نیرو یا روم کا آگے چل کر کیا ہوا ، خدا جانے کیونکہ مقصد نیرو یا روم نہیں اور نہ ہی روم کی تہذیب و ثقافت ۔
مقصد موجودہ حالات میں شام کے سسکتے ، بلکتے ، روتے ، دھوتے ، بھوک سے شدید نڈھال ہو کر بے بسی کی تصویر بنے وہ بچے ہیں جو بالآخر موت کی آغوش میں سکون پاجاتے ہیں ۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ کہ ہم سب آئندہ کے لئے تاریخ ہونے والے قصے میں نیرو کا کردار بننے کی کوشش میں ہیں ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم شام کے مظلوم بچوں ، بوڑھوں ، جوانوں اور عورتوں کو گلیڈیٹر بنانے کے در پر ہیں ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کھیل تو وہی دیکھنا چاہتے ہیں جس کا انداز روم کے بادشاہوں نے کیا لیکن انداز بدل کر ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی خوں خرابے اور موت کے اس حد تک دلدادہ ہو چکے ہیں کہ کسی کے جینے یا مرنے سے ہمیں فرق نہیں پڑتا ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں بس اپنی آنکھوں کے لئے صرف تماشے کی تلاش رہتی ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں اپنے پڑھنے کے لئے اس موضوع پر کالم یا خبر کا انتظار رہتا ہے ، کہیں ایسا تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اگر ایسا ہے تو آنے آئندہ تاریخ ہمیں یقینا نیرو لکھے گی ، اگر ایسا نہیں اور آپ کی رگوں میں خوں باقی ہے اور اس لہو کا رنگ اب تک لال بھی ہے تو آواز اٹھائیے ان تمام مظلوموں کے لئے جو آپ کے منتظر ہیں ، بالافرق رنگ و بو ، بالافرق نسل و مذہب ، بس اتنا یاد رہے کہ آخرکار ہم سب انسان ہیں اور تمام مذاہب عالم مشترکہ طور انسانیت کا درس ہی دیتے ہیں اور آپ سے انسانیت ہی کو بچانے کا مطالبہ ہے ۔