کسی نے سوچا تھا کہ تحریک انصاف خشک پتوں کی طرح یوں بکھر جائے گی ؟

کسی نے سوچا تھا کہ تحریک انصاف خشک پتوں کی طرح یوں بکھر جائے گی ؟کیا کسی نے یہ بھی سوچا تھا کہ ان کی زبانیں خاموش ہو جائیں گی ؟ کسی کی آہ ، کسی کا صبر ، کسی کی ریاضت ، کسی کی بے بسی انہیں لے ڈوبی ہے ۔

انہوں نے لوگوں کو بہت تکلیف پہنچائی ہے ، انہوں نے ہر حد کراس کی ہے ، یہ ہر ایک سے الجھے ہیں ، انہوں نے دستاروں سے کھیلنے کو شوق بنا لیا تھا ، انہوں نے چھوٹے لوگوں کو اٹھایا اور بڑا بنا کر مشہور کیا ۔

تحریک انصاف کے دور میں نہ کسی کا گھر سلامت رہا نہ کسی کی عزت اور نہ ہی دستار ، عمران خان نے جو کہہ دیا وہی حرف آخر ، عمران خان کی قربت پانے کے لیے ایک ہی شرط تھی کہ کون کتنی لمبی زبان کیساتھ بات کر سکتا ہے ؟

عمران خان اور اسکے ورکرز نے معاشرتی اقدار تباہ کی ہیں ، زرداری صاحب نے ایک جملہ کہا کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے سوسائٹی نے اس پر گرفت کی اور آج تک اس جملے کا طعنہ ملتا رہا ، عمران خان نے کہا لیڈر وہ ہوتا ہے جو یوٹرن لیتا ہے ، عمران نے کہا ورکرز ایمان لے آئے ، جو شخص بے اصولی کو لیڈری سے جوڑ دے اسکے ورکرز اسکی مان لیں ان سے کیا توقع کی جائے ؟

عمران خان کے چاہنے والے کلثوم نواز کے اسپتال چلے گئےیہ دیکھنے کے لیے کہ وہ بیمار ہے یا نہیں ؟ جب اسکی لاش آئی تو لاش پارسل کے جملے کسے گئے ، عمران خان کے دور سے پہلے ایسا ممکن تھا کیا ؟ ہر گز نہیں

خان صاحب کے چاہنے والوں نے فیملیز کیساتھ کھانا کھانے والے ہمارے نمائندوں کیساتھ بدتمیزی کی ، لوگ ہوٹلز میں جا کر کھانا نہیں کھا سکتے تھے ۔

خان صاحب کو چھوڑ کر جانے والے لوگوں کے بچوں کو ہراساں کیا گیا، یہ کہا گیا کہ ان کیساتھ کوئی شادی نہیں کرے گا ۔

خان صاحب کے چاہنے والوں نے مسجد نبوی کی حرمت کا خیال بھی نہیں کیا ، جہاں اونچی آواز سے بات کرنا بے ادبی ہے وہاں اس قوم نے چور چور کے نعرے لگائے اور مسجد نبوی کا تقدس پامال کیا ۔

خان صاحب کے چاہنے والوں نے شہید سرفراز پر بھی حملے کیے اور ان کی شہادت کا مذاق اڑایا ۔

خان صاحب کے دور میں ابصار عالم اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دنیا کو دکھا رہا تھا کہ یہ دیکھو میرے پیٹ میں گولی لگی ہے کہ یہ ہنس کر کہہ رہے تھے گولی لگی ہے تو بچ کیسے گئے ؟

اسد طور اپنی زخمی باہوں سے پٹیاں ہٹا کر دنیا کو زخم دکھا رہا تھا یہ دیکھو مجھے مار پڑی ہے اور یہ طنز کر کے کہتے تھے لڑکی کے بھائیوں نے مارا ہے ۔

معاشرے کے ضمیر مطیع اللہ جان کی کیسی کردار کشی کی گئی ، سلیم صافی ، حامد میر عاصمہ شیرازی رؤوف کلاسرا اور میڈیا کے دیگر اکابرین کیساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا ؟

گرفتاریاں تو چھوڑیں یہ سیاسی لوگ دیتے آئے ہیں انہوں نے ہر روایت ہر قدر کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا ہے ، انہوں نے سیاسی جماعتوں کی ملکی سلامتی کی پیشکشوں کا مذاق اڑایا ہے ، ان کی رعونت ان کے جملے ان کے ٹرینڈز نے وہ کچھ دکھایا جو دیکھنے کے قابل نہ تھا ۔

عمران خان نے اپنے ایم پی اے ایم این ایز سے گھر کی چوکیداری کروائی ، ہمارے قد آوار لوگوں نے ڈنڈے اٹھا کر عمران خان کے گھر کے باہر چوکیداری کی ، ٹکٹ کا معیار خان نے اپنی چوکیداری رکھا۔ قانون بنانے والوں کو کہا لائن میں لگ کر ٹکٹ لو ، کیسی تذلیل تھی یہ ؟

احمد فراز کے بیٹے علامہ اقبال کے پوتے کو جب بدتہذیبی کرتے دیکھتا تھا تو دل دکھ جاتا تھا ، اردو زبان اسکی تہذیب شعراء کی محافل سب بیکار گئیں ، عمران نے ان لوگوں سے بھی سلیقے کا کام نہیں لیا ،

ہر وقت ، ہر جگہ ، ہر ایک سے پنگا ، ہر ایک کی تذلیل ،

یہ بگڑے ہوئے بھول گئے کہ ہر جگہ انگلی نہیں کرنی چاہیے ، انہوں نے اس بار ایم ایم عالم پر ہاتھ ڈالا ، کرنل شیر خان پر وار کیا ، ان علامات پر کاری ضرب لگائی جہاں دشمن بھی نہ سوچے ، ہمارے گزرے لوگ تو بے قصور تھے ، انہوں نے وطن کے لیے جان دی تھی لیکن ان کا ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچا ،

کلثوم نواز کے وارث چپ ہو گئے ، لاپتہ افراد کے ورثا خاموش ہو گئے ، میڈیا اکابرین سہہ گئے لیکن شہداء کے وارث جاگے اور ایسے جاگے کہ اب سمجھ نہیں آ رہی کرنا کیا ہے ؟

عمران خان اور اس کے چاہنے والوں کے پاس اب سوچنے کے لیے کافی وقت ہے سوچیں اور بتائیں غلطیاں کہاں ہوئی ہیں ؟اج آپ کے ساتھ کیوں کوئی نہیں کھڑا ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے