عید قربان پر اعتراضات کی جگالی اور سستا ٹائم پاس

عید پر پیسوں کے ضیاع والا اعتراض ایویں ٹائم پاس جگالی ہی ہے۔ لوگوں کا تہوار ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ تہوار میں قربانی لازم ہے۔ لوگوں کا پیسہ، لوگ جانیں۔

بہار کے موسم میں یا مقامی کلینڈر کے حساب سے نئے سال کے آغاز پر وسطی ایشیا میں جانور ذبح کرنے کی روایت موجود رہی ہے۔ افغانستان اور یونان میں بھی تھی۔ ہمارے گلگت بلتستان کارگل اور لداخ میں ابھی بھی ہے۔ اپنے والے کشمیر کا نہیں پتہ، جموں میں تو ہے۔ یہ لوگ اس کو ‘نسالو’ کہتے ہیں۔ اس قربانی میں شیعہ سنی، ملحد، لبرل، سیکولر سبھی حصہ لیتے ہیں۔ ایک ہی جھٹکے میں پچاس سے ستر ہزار جانور ذبح ہوجاتے ہیں۔

بلاشبہ اس روایت کے پیچھے موسمی وجوہات کار فرما تھیں، مگر روایتیں ایسے ہی کسی بات پر جنم لیتی ہیں اور پھر ہستی کا سامان وغیرہ ہوجاتی ہیں۔

ویگنز اس پر اعتراض کرنا چاہیں تو بنتا ہے، مگر وہ بھی بس اعتراض ہی کر سکتے ہیں۔ ہاتھ نہیں روک سکتے۔ کیونکہ جانور کو اپنے مفاد کے لیے کاٹ پیٹ دینے پر انسانوں کا شعور بلاتفریق رنگ و نسل اور بلا امتیاز مذہب و مسلک متفق ہے۔ اس کے لیے survival of the fittest جیسی سیکسی سی اصطلاح بھی موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حسب ضرورت ہی جانور کٹتا ہو۔ ہم دکھی ہوں، جانور کٹتا ہے۔ ہم خوش ہوں، جانور ہی کٹتا ہے۔

یہ والی بات ایک سو ایک آنہ جینون ہے کہ قربانی ایک سٹیٹس سمبل بن چکا ہے، قربانی حاجیوں کا مسئلہ تھا، مگر ہوتے ہواتے یہ نمازیوں کا معاملہ بھی بن گیا۔ ان کا بھی درد سر بن گیا جن کی جیب میں کوڑی نہیں ہے۔ اب تو اس پر کلام بھی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایک بڑی معاشی سرگرمی بن چکی ہے۔

ایک جینون اعتراض بدمزگی اور گندگی کا ہے۔ چھوٹے بچوں کے سامنے چھریاں لہرانا، سڑک کے بیچوں بیچ خون بہانا، آلائشیں پھینکنا، بیس پچیس دن کے لیے فضاؤں میں بدبو گھولنا بہت اذیت ناک معاملہ ہے۔ لوگوں نے اس چیز کو نارمل لے لیا ہے۔ لوگوں کے شعور اور خاص طور سے لاشعور پر اس نے برے اثرات چھوڑے ہیں، مگر ہم غور نہیں کرتے۔ لمبی بحث ہے۔

قربانی کی مکمل سرگرمی کو ضلعی انتظامیہ کے تحت کسی متعین احاطے میں مینیج کیا جانا چاہیے۔ کمیونٹی کو بھی اس معاملے میں آگے آنا چاہیے۔ یہ اہتمام پورے پاکستان میں شاید صرف ہنزہ میں ہوتا ہے۔ وہاں جانور کمیونٹی گراونڈ میں رکھے جاتے ہیں وہیں ذبح ہوجاتے ہیں۔ شام سے پہلے ایک ایک گھر میں گوشت پہنچ جاتا ہے اور ایک قطرہ خون کہیں نظر نہیں آتا۔

کراچی میں الخدمت والے اجتماعی قربانی کے لیے سلاٹر ہاؤس بُک کرواتے ہیں۔ چار دیواری میں تیز رفتار ذبیحہ ہوتا ہے، صاف ستھری پیکنگ ہوتی ہے، وقت پر گوشت گھروں پر پہنچ جاتا ہے۔

(کوئی اور کمیونٹی بھی ایسا کرتی ہوگی مگر میرے علم میں نہیں ہے)

سلاٹر ہاوس بڑھنے چاہئیں اور عوام کے حصے کا خرچہ ایک حد تک حکومت کو برداشت کرنا چاہیے۔ جب تک ایسا ممکن نہ ہو، تب تک دستیاب وسائل اور کمیونٹی املاک کو کام میں لانا چاہیے۔

جیسے مئیر کراچی نے اعلان کیا ہے کہ اس بار قربانی سڑک پر نہیں ہوگی۔ میدانوں میں کی جائے یا پھر مسجدوں میں۔ مناسب فیصلہ ہے۔ عملدرامد مشکل ہوگا، مگر کہیں سے بات شروع ہوگی تو ہی کہیں پہنچے گی۔

ویسے بھی جانور سامنے ذبح ہو تو اس کا گوشت حلق سے نیچے اتارنا کوئی آسان کام تو نہیں ہوتا۔ مگر خیر!

اس ملک میں ہندو شہری موجود ہیں۔ رواداری کا بھی تقاضا ہے کہ گائے کو بیچ سڑک پہ تماشا بنا کر ذبح نہ کیا جائے۔ مسلمانوں پر تب یہ احترام زیادہ لازم ہوجاتا ہے جب وہ بات بات پہ دل آزاری کا نعرہ لگا کر توہین رسالت اور گستاخیِ مذہب کا لال جھنڈا اٹھا لیتے ہیں۔

باقی کولر اور اے سی کسی نے کیا لگانا۔ گرمی کا موسم ہے۔ کوئی چھت پہ پرندوں کے لیے پانی کی کٹوری بھی رکھ دے تو بیڑے پار ہیں۔

ویسے یہ فرض کر لینا بھی عجیب ہی ہے کہ جو لوگ قربانی کرتے ہیں وہ انسانی ہمدردی کا کوئی اور کام نہیں کرتے۔

یہی لوگ ہوتے ہیں جو گلی محلوں میں ٹھنڈے پانی کا کولر لگاتے ہیں، بچیوں کی شادیاں کرواتے ہیں، تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں، بیماروں کا علاج کرواتے ہیں، آفتوں اور وباوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔

ایک سلسلہ ہے۔ چل رہا ہے۔ چِل کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے