’’وہ‘‘ اور میں!

وہ جب بھی مجھے ملنے آتا، ہر بار کوئی وکھری ٹائپ کی بات کرتا ۔ایک روز آیا تو بولا یار مجھے کل رات خواب آیا کہ مجھے بادشاہ نے اپنے ہاں بلایا ،میں نے اسے ٹوکا اور پوچھا کون سے بادشاہ نے ؟’’ بولا وہی جسے تم اکثر کہتے ہو تم تو بادشاہ آدمی ہو‘‘ مجھے سمجھ آگئی چنانچہ میں نے اسے اپنی بات جاری رکھنے کو کہا،کہنے لگا اس کے گھر میں کوئی تقریب تھی اس کے بہت سے رشتے دار جمع تھے عورتیں بھی تھیں مرد بھی تھے، میں نے محسوس کیا کہ وہ سب میری طرف کنکھیوں سےدیکھ رہے ہیں میں نروس ہو گیا یہ تو مجھے علم ہے کہ اللہ نے مجھے بے پناہ حسن عطاکیا ہے اور میں نے کبھی اس پر غرور نہیں کیا مگر یار کل تو حد ہی ہو گئی ،بالآخر میں نے بادشاہ سے پوچھا کہ ان لوگوں نے کبھی کوئی خوبصورت شخص نہیں دیکھا ؟

اس نے ایک نظرمیری پتلون کی ژپ پر ڈالی اور بولا یقیناً دیکھا ہوگا مگر تم ایسا ’’چول‘‘ شاید ہی دیکھا ہو! یار یہ بادشاہ کس قدر حاسد شخص ہے کسی کو لوگوں کی توجہ کا مرکز دیکھ ہی نہیں سکتا ،میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ سامنے واش روم ہے وہاں ایک قدآدم آئینہ ہے ذرا ایک چکراس کا لگا آئو واش روم سے واپس آیا تو پہلے سے زیادہ حیران تھا بولا میں نے آئینے میں اپنا پورا سراپا دیکھا اللہ اللہ میں کس کس چیز پر اللہ کا شکر ادا کروں ایک سے بڑھ کر ایک۔ اس پر میری ہنسی نکل گئی جس پر وہ ناراض ہو کر باہر نکل گیا؟

اس طرح ایک روز وہ میرے پاس آیا تو بہت اداس تھا، میں نے وجہ دریافت کی تو بولا میں نے کل ’موت کا منظر ،مرنے کے بعد کیا ہو گا‘نام کی ایک کتاب پڑھی ہے اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں کیا میرے جیسے نابغہ روزگار لوگ بھی مر جائیں گے ؟میں نے کہا تم قیامت تک نہیں مرو گے تم خودکشی کرو گے کیونکہ جب ساری دنیا مر جائے گی تو تم اکیلے رہ جائو گے، دیواروں کے ساتھ ٹکریں مارو گے، تمہارے حسن ،تمہارے علم وفضل کی تعریف کرنے والا کوئی نہیں ہو گا گھر بار بھی نہیں ہو گا ،سب ریستوران بھی بند ہوں گے، کھانے پینے کو بھی کچھ نہیں ملے گا چنانچہ تمہیں مجبوراً خودکشی کرنا پڑیگی ،اس پر وہ پھر ناراض ہو گیا اور کہا تم بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہو مجھے ساری دنیا سے کیا غرض میں توصرف اپنے مرنے کی بات کر رہا تھا ،مجھے قبر کی تاریکی سے بہت ڈر لگتا ہے فرشتے آکر میرا انٹرویو کریں گے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی میری معلومات پر شک کرے اور ان پر سوال اٹھائے اور یہ بھی کہ میری بات کا اعتبار کرنے کی بجائے میرے دائیں اور بائیں کاندھوں کے فرشتوں کی انویسٹی گیشن کو زیادہ معتبر سمجھا جائے اس پر میں نے کہا اس قسم کی بات غالب نے بھی اپنے ایک شعر میں کہی ہے ۔

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا

اس پر وہ بہت خوش ہوا اور کہا دیکھ لو سب بڑے لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں مگر اس کے بعد وہ ایک دفعہ پھر اداس سا ہو گیا ،پوچھنے لگا تم میرے جنازے میں آئو گے؟میں نے جواب دیا کیوں نہیں ضرور آئوں گا ،بالا یہ تو مجھے پتہ ہے مگر ذرا جلدی آنا کیونکہ وہاں پورا شہر موجود ہو گا ایسا نہ ہو کہ لیٹ آئو اور تمہیں آخری صف میں جگہ ملے میری خواہش ہے کہ تم نماز جنازہ کے دوران پہلی صف میں ہو۔ میں نے جواب میں ان شااللہ کہا اور پھر اسے ایک رسم سے آگاہ کیا کہ تدفین سے پہلے یا بعد مرحوم کا بھائی یا کوئی اور قریبی رشتے دار کھڑا ہو کر بآواز بلند اعلان کرتا ہے کہ اگر مرحوم نے کسی سے قرض لیا ہو تو وہ ہاتھ کھڑا کرے اسکی ادائیگی میں کرونگا ۔

یہ سن کر وہ حیران ہوا مگر میں نے اسے نصیحت کی کہ وفات سے قبل اپنے عزیزوں سے کہہ دینا کہ وہ اس موقع پر اس طرح کا توہین آمیز اعلان نہ کریں جس پر وہ بہت خوش ہوا تاہم میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ایک تو یہ اعلان ایسے موقع پر بہت عجیب لگتا ہے اور دوسرے اگر یہ اعلان ہوا تو کم از کم سو ڈیڑھ سو لوگ اپنے ہاتھ کھڑے کر دیں گے کہ شہر کا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جس سے تم نے قرض نہ لیا ہو یا وہ لوگ جنہوں نے تمہیں قرض دینے سے انکار کر دیا ہو۔ یہ سن کر وہ آگ بگولا ہو گیا اور پیر پٹختا ہوا کمرے سے باہرنکل گیا!

گزشتہ جمعہ کو وہ میرے پاس آیا شیروانی پہنی ہوئی کلف لگی شلوار ،پائوں میں چپل ،وہ اس گیٹ اپ میںبہت جچ رہا تھا غصے میں بیٹھتےہی کہنے لگا یار ایک بات بتائو کیا میں وزیر اعظم بن سکتا ہوں؟ میں نے کہا یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اس وقت تو وزیر اعظم ہی لگ رہے ہو، میری بات سن کر بہت خوش ہوا اور بولا بہت شکریہ مگر مجھے کوئی طریقہ بتائو، میں نے عرض کی کوئی سیاسی جماعت جوائن کرو اس میں اپنی کارکردگی شو کرو ممکن ہے ایک دن وزیر اعظم بن جائو، وہ میری بات سن کر ہنسا اور کہنے لگا میں نے تم سے پراسیس نہیں پوچھا شارٹ کٹ بتائو ،میں نے اسے بتایا کہ امریکہ کی شہریت حاصل کرو پھر ایک دن معین قریشی کی طرح پہلی فلائٹ سے واپس پاکستان آئو تمہیں ایئر پورٹ پر ہی پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ فراہم کر دیا جائے گا اور بطور وزیر اعظم، پرائم منسٹر ہائوس پہنچا دیا جائے گا ۔

وہ بہت حیران ہوا اور بولا کیا مجھے بھی اس طرح پاکستان کی خدمت کا موقع مل سکے گا ،میں نے کہا کیوں نہیں، اسٹیبلشمنٹ تک تمہاری کوئی اپروچ ہے کہنے لگا کیوں نہیں میرا ایک کلاس فیلو میجر ہے اس سے بات کرتا ہوں ،میں نے عرض کی ویری گڈ،میں بھی اس سلسلے میں تمہاری مدد کروں گا ایک ریٹائرڈ حوالدار میرا واقف ہے جس بینک میں میرا اکائونٹ ہے وہ وہاں بطور گارڈ ملازمت کرتا ہے تم حاضر سروس میجر سے بات کرو میں ریٹائرڈ حوالدار کو راضی کرلوں گا ،وہ ان شااللہ تمہیں بھرپور سپورٹ کرے گا!

یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے مجھے گلے سے لگا کر بھرپور جپھی ڈالی اور بار بار شکریہ ادا کرتے ہوئے مجھ سے رخصت ہوا۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے