‏عمران خان کی سائفر پر سازش کا بیانیہ اور انٹرسپٹ کی سٹوری

 

‏The Intercept کی سٹوری بالکل کوئی نئی چیز نہیں ہے؛ یہی بات کسی نہ کسی شکل میں گزشتہ سال ڈیڑھ سال سے کی جا رہی ہے؛ نیشنل سیکورٹی کمیٹی نےبھی سائفر کو مداخلت قرار دیا اور اس پر demarche جاری کیا گیا؛ سائفر امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا مظہر تھا؛ ان تمام حقائق کے ساتھ اھم ہے کہ اس سوال کا جواب سب سے پہلے تلاش کیا جائے کہ اسے لیک کس نے کیا۔۔!؟ سائفر کی صرف ایک کاپی ہے جولیک شدہ ہے اور جس کا کوئی اتہ پتہ نہیں اور یہ وہ کاپی ہے جو PTI چئیرمین سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس تھی۔ عمران خان پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں کہ سائفر کی کاپی ان سے گُم ہو گئی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر اور قابلِ غور ہے کہ مرتضی حسین نامی شخص PTI کا کٹر اور نابینا دانش سے عاری cult سپورٹر ہے اور یہ بات انتہائی اھم ہے کہ لیک کے لیے اُسے منتخب کیا گیا۔۔۔

‏یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سنگین اور جان بوجھ کر خلاف ورزی ہے؛ اس بابت فوری انکوائری ہونی چاہئیے اور ریاست مخالف فعل میں ملوث ہونے پر عمران خان (اور تمام لیک میں ملوث ہونے والوں) کیخلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئیے!

 

‏عمران خان کی سائفر پر سازش کا بیانیہ
Intercept کی سٹوری نے بے نقاب کر دیا۔۔۔!!!

‏Intercept نے سب سے پہلے
‏یہ دعویٰ کیا ہے کے اُنکے پاس سائفر کی کاپی نہیں ہے اور کسی سورس نے بھی اِس کو کنفرم نہیں کیا – یہ بات یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ ایک مکمل طور پر جھوٹی اور من گھڑت سٹوری ہے

‏دوسری بات یہ ہے کہ اگر فرض کریں اسے مان بھی لیا جائے کہ یہ عمران خان کے گمُشدہ سائفر کی کاپی ہے جو americans کو بیوقوفی سے عارضی فائدہ حاصل کرنے کے لئے دے دی گئی ہے تو یہ تحریک انصاف اور عمران خان کی سب سے بڑی بے وقوفی ہے کیونکہ کہ اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ یہ کوئی امریکی سازش نہیں تھی بلکہ سخت سفارتی زبان کا استعمال تھا جو بار ہا دفعہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے –

‏اِس پوری سٹوری میں ایک بھی بات نئی نہیں ہے وہی عمران خان کا گھِسا پِٹا بیانہ ہے جو وہ پچھلے ایک سال سے پیٹ رہے ہیں۔

‏اخبار کا اپنا دعویٰ ہے کہ جو دستاویز ان کے ہاتھ لگا ہے اس کی تصدیق کرنے کے لیے انہوں نے کوششیں کی ہیں مگر وہ اس مراسلے کی تصدیق نہیں کر سکے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ اخبار کو خود بھی اس مراسلے کی تصدیق کا علم ہی نہیں ہے۔ یعنی یہ مراسلہ جو اخبار دعوی کر رہا ہے وہ ایک جعلی مراسلہ ہے۔

‏مراسلے کی تصدیق کے لیے اخبار؛ پاکستان سے تعلق رکھنے والی اخبار ڈان کا سہارا لے رہا ہے کہ ہمارے پاس جو مراسلہ ہے وہ ڈان کی رپورٹنگ سے میل جول رکھتا ہے۔ تو پھر تو شاید یہ مراسلہ ہی ڈان کی کسی رپورٹ کو دیکھ کر ہی بنایا گیا ہے

‏اخبار کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس مراسلے میں لکھا ہے کہ مراسلے میں ڈانلڈ لو سے منسوب ریمارکس میں لکھا ہے “اگر عمران خان کے خلاف نو کانفیڈنس کامیاب ہو گئی تو۔۔۔ میرا یہ خیال ہے” یعنی اخبار خود یہ دعوی کررہا ہے کہ یہ ڈانلڈ لو کا خیال تھا نہ کہ امریکی دھمکی۔ یہی تو نیشنل سیکیورٹی کے اعلامیے اور پریس کانفرینسوں میں بھی کہا گیا کہ کوئی دھمکی نہیں ملی اور نہ کوئی سازش ہوئی۔

‏اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر اِس کو سائفر یا سائفر کی معلومات مانا جائے تو عمران خان بار بار مان چکے ہیں کہ سائفر کی کاپی جو اُن کے پاس تھی یا اُن کی معلومات کا اسکو کو کچھ پتہ نہیں۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ سائفر کی کاپی یا اُسکی معلومات کہاں پر ہیں-

‏اِس پر حکومت کی طرف سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے مطابق سخت سے سخت قانونی کاروائی ہونی چاہئے اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے کیونکہ پاکستان کے وقار اور قومی ساکھ کو اِس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔!!!

‏اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے سفارتی تعلقات سے جڑی ہوئی معلومات کو افشاں کرنا ملکی قانون کی سخت ترین خلاف ورزی ہے اور پاکستان کی ساکھ اور سفارتی اعتماد کا قتل ہے۔۔!

‏افواج اور پاکستان مخالف عمران خان کے جانے پہچانے حمایتی سے اس آرٹیکل کو لکھوانا بھی نت نئے سوال کو جنم دیتا ہے۔۔!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے