16 اگست 2023 صبح 5 بجے نا معلوم افراد مبینہ منصوبہ کے تحت نعوذ باللہ قرآن پاک کے توہین کے مرتکب ہوتے ہیں اور مبینہ طور پر اس عمل میں راجہ عمیر اور اس کے والد کی تصویر جائے وقوعہ سے ایک چارٹ پیپر پر چسپاں بمعہ اعترافی بیان، شناختی کارڈ نمبر، فون نمبراور گھر کے پتہ کیساتھ مقامی محلہ داروں کو برآمد ہوتی ہے۔
06:45پر سٹی تھانہ جڑانوالہ کی پولیس سینما بستی جڑانوالہ میں راجہ عمیر سلیم اور عمر سلیم کے گھر آتی ہے۔ اس دوران مقامی لوگ (دوخواتین اور عمر نامی لڑکا) سلیم مسیح کے گھر پہنچ جاتے ہیں، جن سے خبر ملنے کے بعد سلیم مسیح کا خاندان اپنے گھر سے فرار ہو جاتے ہیں۔ پولیس کو 07:00بجے پولیس ایف آر نمبر1258راجہ عامر اور راکی مسیح کے خلاف درج کرتی ہے۔
ایف آئی آر 1259کے مطابق یٰسین ولد شفیع نامی بندے نے 09:20مہتاب مسجد کے لاوڈ سپیکر سے اعلان کیا اور لوگوں مذکورہ واقعہ کا حوالہ دیکر اشتعال دلایا، جس کے بعد مہتاب مسجد کے باہر مفتی محمد یونس رضوی امیر جماعت اہلسنت، آصف اللہ شاہ بخار ولد کفایت اللہ شاہ رہنما تحریک لبیک پاکستان، رائے ناصر ولد وریام ، عبد القیوم اعوان، قاری سہیل ولد بشیر، عبد الرحمان عرف مانا ڈون کیمی، زاہد حسین ولد محمد حسین اور 500-600نا معلوم اشخاص مسلح ڈنڈے سوٹے، پٹرول بوتل، روڑوں وغیرہ کے تھیلے لیکر جمع ہو گئے اور کرسچن کالونی (سینما بستی)میں واقع چرچ اورمسیحیوں کے گھروں پر حملہ آور ہو گئے۔
آخری حملہ پولیس کے مطابق درج ایف آئی آر 467 کے مطابق رات8:20 چکو موڑ پر چرچ کو آگ لگائی گئی، حالانکہ رات 8 بجے رینجرز فورسز بھی جڑانوالہ میں آ چکی تھیں۔
اس دوران مسیحیوں کے22چرچز85گھر ایک قبرستان، دو پاسٹر ہاوسز اور ایک سکول نذر آتش ہو چکے تھے اور جان بچانے کی غرض سے مسیحی لوگ اپنے گھروں سے محفوظ پناہ گاہوں
کی طرف ہجرت کر گئے، کچھ دوسرے شہروں میں چلے گئے کچھ،کچھ مقامی لوگوں کے گھر چلے گئے اور کچھ کھلے میدانوں، کھیتوں سے ظلم و جبر، بے بسی، شر انگیزی اور قیامت خیزی کا تجربہ کرتے ہیں ۔
مقامی پولیس جو کہ 6:30 سے اس وقوعہ کا باقاعدہ حصہ بن چکی تھی، کے تحصیل سربراہ ایس پی بلال سلہری 8 بجے اپنے سینئر افسر جو کہ فیصل آباد میں موجود تھے کو سب کچھ کنٹرول میں ہے کی خبر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد 09:30بجے ایس ایس پی آپریشن دوبارہ کنٹرول کی کال موصول ہونے کے بعد ایس پی بلال سلہری کی یقین دہانی کے باوجود جڑانولہ پہنچ جاتے ہیں۔ ایس ایس پی کے مطابق تحصیل جڑانوالہ میں 500پولیس مین کی نفری تھی اور مزید درخواست کرنے پر 500پولیس مین تقریباً 2:30بجے جڑانوالہ پہنچے اس دوران رینجرز کی درخواست کر دی گئی تھی مگر سسٹم کے طریقہ کار کو پورا کرتے کرتےرینجرز قریباً 8 بجے جڑانوالہ پہنچے۔ اس دوران ڈی سی فیصل آباد عنان قمر، سی پی او فیصل آباد بھی 2:30بجے ویڈیو کے ذریعے سامنے آئے جو کہ جڑانوالہ میں سب کنٹرول کی خبر دے رہے تھے۔
لالہ روبن ڈیئنیل نے بتایا 8 بجے مجھے جڑانوالہ سے مذکورہ واقعہ کی کال آئی اور میں تصدیق کرنے کے بعد لوگوں کی جان کی حفاظت کے لئے 9 بجے آئی بی اور سی پی او کے نمائندوں سے درخواست کر دی تھی۔قریباً 10بجے تک یہ خبر چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب، آئی بی اور آئی ایس آئی تک پہنچ چکی تھی اور شاید میڈیا تک بھی۔ مگر سب کی پر اسرار خاموشی اور صبح 5 سے رات 9 تک مظاہرین کو کھلی چھوٹ دینا ، مقامی پولیس سمیت انتظامیہ کے کردار پر بہت سارے سوالوں کو جنم دیتا ہے ۔ایک سوال کا اظہار تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا اور سی پی او فیصل آباد کو ایس ایچ اور ایس پی کو شامل تفتیش کرنے کے بارے میں پوچھا۔
اس کے بعد واقعہ کے تیسرے دن میڈیا کے ذریعے،حکومتی شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس واقعہ میں بین الاقوامی کردار شامل ہیں اور انڈیا کی ایجنسی "را” کی شمولیت کی ثبوت ملے ہیں ۔ کچھ دن بعد آئی جی نے دعویٰ کیا کہ تمام مرکزی ملزمان کو پکڑ لیا گیا ہے، اور ایک اخبار کے ذریعے خبر فیڈ کروائی کی گئی کہ رابرٹ چارلس نامی بندہ جس کے فرانس کی این جی او کے ساتھ رابطہ ہے وہ اس واقعہ کا مرکزی ملزم ہے۔ جس کی بنیاد ایک سی سی ٹی وی فوٹیج ہے۔ مقامی پولیس نے رابرٹ چارلس کے علاوہ 6 اور مقامی مسیحیوں کو بھی حراست میں لے لیا۔ رابرٹ چارلس سمیت تمام ملزمان کے غیر قانونی حراست کے خلاف لاہو ہائی کورٹ میں رٹ سامنے آنے کے بعد پولیس ایک قدم پیچھے ہٹتی ہے اور تمام زیر حراست لوگو ں کو چھوڑ دیتی ہے۔
آئی جی پنجاب جنا ب ڈاکٹر عثمان انور پریس کانفرنس کے ذریعے نمودار ہوتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کو پولیس کو ثبوت مل گئے ہیں اور، جس کے بعد محترم آئی جی صاحب پردہ سکرین پر یو رپی یونین کا لوگو لہراتے ہیں اور واقعہ کو بھارت میں جاری منی پور فسادات سے توجہ ہٹانے کا مدعا بنا کر پیش کر کے انٹرنیشنل سازش کا دعویٰ سامنے لے آتے ہیں۔
3ستمبر کو فیصل آباد کی مقامی پولیس اپنے پیج پر پرویز عرف کوڈو کو سارے واقعہ کا مرکزی ملزم بنا کر پیش کر دیتی ہے اور واقعہ کی بنیاد پرویز کوڈو کی راجہ عمیر سے ذاتی رنجش( پرویز کوڈو کی بیوی کے راجہ عامر سے تعلقات) کو قرار دیتی ہے۔
اس دوران وزیر اعلیٰ بھی یک نکاتی ایجنڈے پر مبنی صوبائی کابینہ کا اجلاس چرچ میں کرتے ہیں اور متاثرین کو 20 لاکھ کی امدادی رقم اور چرچز کی تعمیر کا اعلان کرتے ہیں ۔ دو دن بعد وزیر اعظم صاحب تشریف لاتے ہیں اور چیک متاثرین میں تقسیم کر کے تین دن میں فنڈز منتقل ہونے سے لیکر کافی سارے وعدے وعید کرتے ہیں ۔ صرف ایک 48 گھنٹے والے وعدے کا ذکر کروں تو مقامی لوگوں کے مطابق تا حال لوگوں میں فنڈز ٹرانسفر نہ ہوئے ہیں۔
اس دوران مسیحی کمیونٹی کی جانب سے غم و غصے کا اظہار سامنے آیا کسی نے علیحدے صوبے ، کسی نے اندرونی ہجرت، کسی نے ٹی ایل پی سے حکومتی معاہدہ کی منسوخی اور حسب روایت کاروائی کی بجائے گوجرہ انکوائری کی روشنی میں ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کی اپیل کی۔ متاثرین کا استحقاق ہے کہ اپنے اوپر گزری قیامت بارے سوالات اٹھائیں جن کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ اگر یہ آئی جی پنجاب کے مطابق سازش ہے تو ،ہمیں بتایا جائے کہ جڑانوالہ ،کرسچن کالونی اور راجہ عامر کے خاندان کا انتخاب ہی کیو ں کیا گیا؟اگر یہ رد عمل تھا تو 191 کیسز رجسٹر ہیں پاکستان اور صرف 9 مسیحیوں کے خلاف مگر بستیاں صرف مسیحیوں کی کیوں جلتی ہیں؟
2۔ مبینہ طور پر ملزمان تو راجہ عامر اور انکا خاندان تھا مگر 300 خاندانوں، چرچجڑانوالہ واقعہ :پنجاب پولیس کے بدلتے موقف 16 اگست 2023 صبح 5 بجے نا معلوم افراد مبینہ منصوبہ کے تحت نعوذ باللہ قرآن پاک کے توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور مبینہ طور پر اس عمل میں راجہ عمیر اور اس کے والد کی تصویر جائے وقوعہ سے ایک چارٹ پیپر پر چسپاں بمعہ اعترافی بیان، شناختی کارڈ نمبر، فون نمبراور گھر کے پتہ کیساتھ مقامی محلہ داروں کو برآمد ہوتی ہے۔
06:45پر سٹی تھانہ جڑانوالہ کی پولیس سینما بستی جڑانوالہ میں راجہ عمیر سلیم اور عمر سلیم کے گھر آتی ہے۔ اس دوران مقامی لوگ (دوخواتین اور عمر نامی لڑکا) سلیم مسیح کے گھر پہنچ جاتے ہیں جن سے خبر ملنے کے بعد سلیم مسیح کا خاندان اپنے گھر سے فرار ہو جاتے ہیں۔ پولیس کو 07:00بجے پولیس ایف آر نمبر1258راجہ عامر اور راکی مسیح کے خلاف درج کرتی ہے۔
ایف آئی آر 1259کے مطابق یٰسین ولد شفیع نامی بندے نے 09:20مہتاب مسجد کے لاوڈ سپیکر سے اعلان کیا اور لوگوں مذکورہ واقعہ کا حوالہ دیکر اشتعال دلایا، جس کے بعد مہتاب مسجد کے باہر مفتی محمد یونس رضوی امیر جماعت اہلسنت، آصف اللہ شاہ بخار ولد کفایت اللہ شاہ رہنما تحریک لبیک پاکستان، رائے ناصر ولد وریام ، عبد القیوم اعوان، قاری سہیل ولد بشیر، عبد الرحمان عرف مانا ڈون کیمی، زاہد حسین ولد محمد حسین اور 500-600نا معلوم اشخاص مسلح ڈنڈے سوٹے، پٹرول بوتل، روڑوں وغیرہ کے تھیلے لیکر جمع ہو گئے ۔ اور کرسچن کالونی (سینما بستی)میں واقع چرچ اورمسیحیوں کے گھروں پر حملہ آور ہو گئے۔
آخری حملہ پولیس کے مطابق درج ایف آئی آر 467 کے مطابق رات8:20 چکو موڑ پر چرچ کو آگ لگائی گئی، حالانکہ رات 8 بجے رینجرز فورسز بھی جڑانوالہ میں آ چکی تھیں۔
اس دوران مسیحیوں کے22چرچز85گھر ایک قبرستان، دو پاسٹر ہاوسز اور ایک سکول نذر آتش ہو چکے تھے اور جان بچانے کی غرض سے مسیحی لوگ اپنے گھروں سے محفوظ پناہ گاہوں کی طرف ہجرت کر گئے، کچھ دوسرے شہروں میں چلے گئے کچھ،کچھ مقامی لوگوں کے گھر چلے گئے اور کچھ کھلے میدانوں، کھیتوں سے ظلم و جبر، بے بسی، شر انگیزی اور قیامت خیزی کا تجربہ کرتے ہیں ۔
مقامی پولیس جو کہ 6:30 سے اس وقوعہ کا باقاعدہ حصہ بن چکی تھی، کے تحصیل سربراہ ایس پی بلال سلہری 8 بجے اپنے سینئر افسر جو کہ فیصل آباد میں موجود تھے کو سب کچھ کنٹرول میں ہے کی خبر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد 09:30بجے ایس ایس پی آپریشن دوبارہ کنٹرول کی کال موصول ہونے کے بعد ایس پی بلال سلہری کی یقین دہانی کے باوجود جڑانولہ پہنچ جاتے ہیں۔ ایس ایس پی کے مطابق تحصیل جڑانوالہ میں 500پولیس مین کی نفری تھی اور مزید درخواست کرنے پر 500پولیس مین تقریباً 2:30بجے جڑانوالہ پہنچے اس دوران رینجرز کی درخواست کر دی گئی تھی مگر سسٹم کے طریقہ کار کو پورا کرتے کرتےرینجرز قریباً 8 بجے جڑانوالہ پہنچے۔ اس دوران ڈی سی فیصل آباد عنان قمر، سی پی او فیصل آباد بھی 2:30بجے ویڈیو کے ذریعے سامنے آئے جو کہ جڑانوالہ میں سب کنٹرول کی خبر دے رہے تھے۔
لالہ روبن ڈیئنیل نے بتایا 8 بجے مجھے جڑانوالہ سے مذکورہ واقعہ کی کال آئی اور میں تصدیق کرنے کے بعد لوگوں کی جان کی حفاظت کے لئے 9 بجے آئی بی اور سی پی او کے نمائندوں سے درخواست کر دی تھی۔قریباً 10بجے تک یہ خبر چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب، آئی بی اور آئی ایس آئی تک پہنچ چکی تھی اور شاید میڈیا تک بھی۔ مگر سب کی پر اسرار خاموشی اور صبح 5 سے رات 9 تک مظاہرین کو کھلی چھوٹ دینا ، مقامی پولیس سمیت انتظامیہ کے کردار پر بہت سارے سوالوں کو جنم دیتا ہے ۔ایک سوال کا اظہار تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا اور سی پی او فیصل آباد کو ایس ایچ اور ایس پی کو شامل تفتیش کرنے کے بارے میں پوچھا۔
اس کے بعد واقعہ کے تیسرے دن میڈیا کے ذریعے،حکومتی شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس واقعہ میں بین الاقوامی کردار شامل ہیں اور انڈیا کی ایجنسی "را” کی شمولیت کی ثبوت ملے ہیں ۔ کچھ دن بعد آئی جی نے دعویٰ کیا کہ تمام مرکزی ملزمان کو پکڑ لیا گیا ہے، اور ایک اخبار کے ذریعے خبر فیڈ کروائی کی گئی کہ رابرٹ چارلس نامی بندہ جس کے فرانس کی این جی او کے ساتھ رابطہ ہے وہ اس واقعہ کا مرکزی ملزم ہے۔ جس کی بنیاد ایک سی سی ٹی وی فوٹیج ہے۔ مقامی پولیس نے رابرٹ چارلس کے علاوہ 6 اور مقامی مسیحیوں کو بھی حراست میں لے لیا۔ رابرٹ چارلس سمیت تمام ملزمان کے غیر قانونی حراست کے خلاف لاہو ہائی کورٹ میں رٹ سامنے آنے کے بعد پولیس ایک قدم پیچھے ہٹتی ہے اور تمام زیر حراست لوگو ں کو چھوڑ دیتی ہے۔
آئی جی پنجاب جنا ب ڈاکٹر عثمان انور پریس کانفرنس کے ذریعے نمودار ہوتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کو پولیس کو ثبوت مل گئے ہیں اور، جس کے بعد محترم آئی جی صاحب پردہ سکرین پر یو رپی یونین کا لوگو لہراتے ہیں اور واقعہ کو بھارت میں جاری منی پور فسادات سے توجہ ہٹانے کا مدعا بنا کر پیش کر کے انٹرنیشنل سازش کا دعویٰ سامنے لے آتے ہیں۔
3ستمبر کو فیصل آباد کی مقامی پولیس اپنے پیج پر پرویز عرف کوڈو کو سارے واقعہ کا مرکزی ملزم بنا کر پیش کر دیتی ہے اور واقعہ کی بنیاد پرویز کوڈو کی راجہ عمیر سے ذاتی رنجش( پرویز کوڈو کی بیوی کے راجہ عامر سے تعلقات) کو قرار دیتی ہے۔
اس دوران وزیر اعلیٰ بھی یک نکاتی ایجنڈے پر مبنی صوبائی کابینہ کا اجلاس چرچ میں کرتے ہیں اور متاثرین کو 20 لاکھ کی امدادی رقم اور چرچز کی تعمیر کا اعلان کرتے ہیں ۔ دو دن بعد وزیر اعظم صاحب تشریف لاتے ہیں اور چیک متاثرین میں تقسیم کر کے تین دن میں فنڈز منتقل ہونے سے لیکر کافی سارے وعدے وعید کرتے ہیں ۔ صرف ایک 48 گھنٹے والے وعدے کا ذکر کروں تو مقامی لوگوں کے مطابق تا حال لوگوں میں فنڈز ٹرانسفر نہ ہوئے ہیں۔
اس دوران مسیحی کمیونٹی کی جانب سے غم و غصے کا اظہار سامنے آیا کسی نے علیحدے صوبے ، کسی نے اندرونی ہجرت، کسی نے ٹی ایل پی سے حکومتی معاہدہ کی منسوخی اور حسب روایت کاروائی کی بجائے گوجرہ انکوائری کی روشنی میں ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کی اپیل کی۔ متاثرین کا استحقاق ہے کہ اپنے اوپر گزری قیامت بارے سوالات اٹھائیں جن کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ
1۔ اگر یہ آئی جی پنجاب کے مطابق سازش ہے تو ،ہمیں بتایا جائے کہ جڑانوالہ ،کرسچن کالونی اور راجہ عامر کے خاندان کا انتخاب ہی کیو ں کیا گیا؟اگر یہ رد عمل تھا تو 191 کیسز رجسٹرڈہیں پاکستان اور صرف 9 مسیحیوں کے خلاف مگر بستیاں صرف مسیحیوں کی کیوں جلتی ہیں؟
2۔ مبینہ طور پر ملزمان تو راجہ عامر اور انکا خاندان تھا مگر 300 خاندانوں، چرچز، سکولوں ، پیرش ہاوسزاور قبرستان اس قدر کو نقصان کیوں پہنچایا گیا؟
3۔ سازش تھی تو سازش پر عمل درآمد کرنے والے عناصر کے خلاف غدارملک کی دفعات کو مقدمات میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟
4۔ پی ڈی ایم کا سیاسی جماعت کے معاہدے ، عالمی سازش پر عمل درآمد کرنے اور ملک کے اندرزیادہ تر تکفیر مذہب کے مقدموں میں مدعی مقدمہ یا تخریب کاری کے ذریعے شامل سیاسی جماعت کے کتنے لوگوں کوفورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا؟
5۔ دہشت گردی اور دشمن ملک کی ساز ش میں شامل ہونے کے باوجود ایک سیاسی جماعت کو کالعدم کرنے کی سفارش کرنے کی بجائے ان کو لیڈران کو آئی جی پنجاب پروٹوکول میں ساتھ لے کے کیوں گھوم رہے تھے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات بطور مسیحی کمیونٹی ہمارا استحقاق ہے اور ان سوالات کو تفتیش کا حصہ بناکر ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوانا آئی جی صاحب آپکا اولین کام ہے ۔ جڑانوالہ واقعہ :پنجاب پولیس کے بدلتے موقف
16 اگست 2023 صبح 5 بجے نا معلوم افراد مبینہ منصوبہ کے تحت نعوذ باللہ قرآن پاک کے توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور مبینہ طور پر اس عمل میں راجہ عمیر اور اس کے والد کی تصویر جائے وقوعہ سے ایک چارٹ پیپر پر چسپاں بمعہ اعترافی بیان، شناختی کارڈ نمبر، فون نمبراور گھر کے پتہ کیساتھ مقامی محلہ داروں کو برآمد ہوتی ہے۔
06:45پر سٹی تھانہ جڑانوالہ کی پولیس سینما بستی جڑانوالہ میں راجہ عمیر سلیم اور عمر سلیم کے گھر آتی ہے۔ اس دوران مقامی لوگ (دوخواتین اور عمر نامی لڑکا) سلیم مسیح کے گھر پہنچ جاتے ہیں جن سے خبر ملنے کے بعد سلیم مسیح کا خاندان اپنے گھر سے فرار ہو جاتے ہیں۔ پولیس کو 07:00بجے پولیس ایف آر نمبر1258راجہ عامر اور راکی مسیح کے خلاف درج کرتی ہے۔
ایف آئی آر 1259کے مطابق یٰسین ولد شفیع نامی بندے نے 09:20مہتاب مسجد کے لاوڈ سپیکر سے اعلان کیا اور لوگوں مذکورہ واقعہ کا حوالہ دیکر اشتعال دلایا، جس کے بعد مہتاب مسجد کے باہر مفتی محمد یونس رضوی امیر جماعت اہلسنت، آصف اللہ شاہ بخار ولد کفایت اللہ شاہ رہنما تحریک لبیک پاکستان، رائے ناصر ولد وریام ، عبد القیوم اعوان، قاری سہیل ولد بشیر، عبد الرحمان عرف مانا ڈون کیمی، زاہد حسین ولد محمد حسین اور 500-600نا معلوم اشخاص مسلح ڈنڈے سوٹے، پٹرول بوتل، روڑوں وغیرہ کے تھیلے لیکر جمع ہو گئے ۔ اور کرسچن کالونی (سینما بستی)میں واقع چرچ اورمسیحیوں کے گھروں پر حملہ آور ہو گئے۔
آخری حملہ پولیس کے مطابق درج ایف آئی آر 467 کے مطابق رات8:20 چکو موڑ پر چرچ کو آگ لگائی گئی، حالانکہ رات 8 بجے رینجرز فورسز بھی جڑانوالہ میں آ چکی تھیں۔
اس دوران مسیحیوں کے22چرچز85گھر ایک قبرستان، دو پاسٹر ہاوسز اور ایک سکول نذر آتش ہو چکے تھے اور جان بچانے کی غرض سے مسیحی لوگ اپنے گھروں سے محفوظ پناہ گاہوں کی طرف ہجرت کر گئے، کچھ دوسرے شہروں میں چلے گئے کچھ،کچھ مقامی لوگوں کے گھر چلے گئے اور کچھ کھلے میدانوں، کھیتوں سے ظلم و جبر، بے بسی، شر انگیزی اور قیامت خیزی کا تجربہ کرتے ہیں ۔
مقامی پولیس جو کہ 6:30 سے اس وقوعہ کا باقاعدہ حصہ بن چکی تھی، کے تحصیل سربراہ ایس پی بلال سلہری 8 بجے اپنے سینئر افسر جو کہ فیصل آباد میں موجود تھے کو سب کچھ کنٹرول میں ہے کی خبر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد 09:30بجے ایس ایس پی آپریشن دوبارہ کنٹرول کی کال موصول ہونے کے بعد ایس پی بلال سلہری کی یقین دہانی کے باوجود جڑانولہ پہنچ جاتے ہیں۔ ایس ایس پی کے مطابق تحصیل جڑانوالہ میں 500پولیس مین کی نفری تھی اور مزید درخواست کرنے پر 500پولیس مین تقریباً 2:30بجے جڑانوالہ پہنچے اس دوران رینجرز کی درخواست کر دی گئی تھی مگر سسٹم کے طریقہ کار کو پورا کرتے کرتےرینجرز قریباً 8 بجے جڑانوالہ پہنچے۔ اس دوران ڈی سی فیصل آباد عنان قمر، سی پی او فیصل آباد بھی 2:30بجے ویڈیو کے ذریعے سامنے آئے جو کہ جڑانوالہ میں سب کنٹرول کی خبر دے رہے تھے۔
لالہ روبن ڈیئنیل نے بتایا 8 بجے مجھے جڑانوالہ سے مذکورہ واقعہ کی کال آئی اور میں تصدیق کرنے کے بعد لوگوں کی جان کی حفاظت کے لئے 9 بجے آئی بی اور سی پی او کے نمائندوں سے درخواست کر دی تھی۔قریباً 10بجے تک یہ خبر چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب، آئی بی اور آئی ایس آئی تک پہنچ چکی تھی اور شاید میڈیا تک بھی۔ مگر سب کی پر اسرار خاموشی اور صبح 5 سے رات 9 تک مظاہرین کو کھلی چھوٹ دینا ، مقامی پولیس سمیت انتظامیہ کے کردار پر بہت سارے سوالوں کو جنم دیتا ہے ۔ایک سوال کا اظہار تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا اور سی پی او فیصل آباد کو ایس ایچ اور ایس پی کو شامل تفتیش کرنے کے بارے میں پوچھا۔
اس کے بعد واقعہ کے تیسرے دن میڈیا کے ذریعے،حکومتی شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس واقعہ میں بین الاقوامی کردار شامل ہیں اور انڈیا کی ایجنسی "را” کی شمولیت کی ثبوت ملے ہیں ۔ کچھ دن بعد آئی جی نے دعویٰ کیا کہ تمام مرکزی ملزمان کو پکڑ لیا گیا ہے، اور ایک اخبار کے ذریعے خبر فیڈ کروائی کی گئی کہ رابرٹ چارلس نامی بندہ جس کے فرانس کی این جی او کے ساتھ رابطہ ہے وہ اس واقعہ کا مرکزی ملزم ہے۔ جس کی بنیاد ایک سی سی ٹی وی فوٹیج ہے۔ مقامی پولیس نے رابرٹ چارلس کے علاوہ 6 اور مقامی مسیحیوں کو بھی حراست میں لے لیا۔ رابرٹ چارلس سمیت تمام ملزمان کے غیر قانونی حراست کے خلاف لاہو ہائی کورٹ میں رٹ سامنے آنے کے بعد پولیس ایک قدم پیچھے ہٹتی ہے اور تمام زیر حراست لوگو ں کو چھوڑ دیتی ہے۔
آئی جی پنجاب جنا ب ڈاکٹر عثمان انور پریس کانفرنس کے ذریعے نمودار ہوتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کو پولیس کو ثبوت مل گئے ہیں اور، جس کے بعد محترم آئی جی صاحب پردہ سکرین پر یو رپی یونین کا لوگو لہراتے ہیں اور واقعہ کو بھارت میں جاری منی پور فسادات سے توجہ ہٹانے کا مدعا بنا کر پیش کر کے انٹرنیشنل سازش کا دعویٰ سامنے لے آتے ہیں۔
3ستمبر کو فیصل آباد کی مقامی پولیس اپنے پیج پر پرویز عرف کوڈو کو سارے واقعہ کا مرکزی ملزم بنا کر پیش کر دیتی ہے اور واقعہ کی بنیاد پرویز کوڈو کی راجہ عمیر سے ذاتی رنجش( پرویز کوڈو کی بیوی کے راجہ عامر سے تعلقات) کو قرار دیتی ہے۔
اس دوران وزیر اعلیٰ بھی یک نکاتی ایجنڈے پر مبنی صوبائی کابینہ کا اجلاس چرچ میں کرتے ہیں اور متاثرین کو 20 لاکھ کی امدادی رقم اور چرچز کی تعمیر کا اعلان کرتے ہیں ۔ دو دن بعد وزیر اعظم صاحب تشریف لاتے ہیں اور چیک متاثرین میں تقسیم کر کے تین دن میں فنڈز منتقل ہونے سے لیکر کافی سارے وعدے وعید کرتے ہیں ۔
صرف ایک 48 گھنٹے والے وعدے کا ذکر کروں تو مقامی لوگوں کے مطابق تا حال لوگوں میں فنڈز ٹرانسفر نہ ہوئے ہیں۔
اس دوران مسیحی کمیونٹی کی جانب سے غم و غصے کا اظہار سامنے آیا کسی نے علیحدے صوبے ، کسی نے اندرونی ہجرت، کسی نے ٹی ایل پی سے حکومتی معاہدہ کی منسوخی اور حسب روایت کاروائی کی بجائے گوجرہ انکوائری کی روشنی میں ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کی اپیل کی۔ متاثرین کا استحقاق ہے کہ اپنے اوپر گزری قیامت بارے سوالات اٹھائیں جن کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ
1۔ اگر یہ آئی جی پنجاب کے مطابق سازش ہے تو ،ہمیں بتایا جائے کہ جڑانوالہ ،کرسچن کالونی اور راجہ عامر کے خاندان کا انتخاب ہی کیو ں کیا گیا؟اگر یہ رد عمل تھا تو 191 کیسز رجسٹرڈ ہیں پاکستان اور صرف 9 مسیحیوں کے خلاف مگر بستیاں صرف مسیحیوں کی کیوں جلتی ہیں؟2۔ مبینہ طور پر ملزمان تو راجہ عامر اور انکا خاندان تھا مگر 300 خاندانوں، چرچز، سکولوں ، پیرش ہاوسزاور قبرستان اس قدر کو نقصان کیوں پہنچایا گیا؟
3۔ سازش تھی تو سازش پر عمل درآمد کرنے والے عناصر کے خلاف غدارملک کی دفعات کو مقدمات میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟
4۔ پی ڈی ایم کا سیاسی جماعت کے معاہدے ، عالمی سازش پر عمل درآمد کرنے اور ملک کے اندرزیادہ تر تکفیر مذہب کے مقدموں میں مدعی مقدمہ یا تخریب کاری کے ذریعے شامل سیاسی جماعت کے کتنے لوگوں کوفورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا؟5۔ دہشت گردی اور دشمن ملک کی ساز ش میں شامل ہونے کے باوجود ایک سیاسی جماعت کو کالعدم کرنے کی سفارش کرنے کی بجائے ان کو لیڈران کو آئی جی پنجاب پروٹوکول میں ساتھ لے کے کیوں گھوم رہے تھے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات بطور مسیحی کمیونٹی ہمارا استحقاق ہے اور ان سوالات کو تفتیش کا حصہ بناکر ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوانا آئی جی صاحب آپکا اولین کام ہے ۔ وگرنہ ہمیں تو یہی لگ رہا ہے کہ مرض بڑھتاگیاجیسے جیسےمعالج نے دوا دی۔وگرنہ ہمیں تو یہی لگ رہا ہے کہ مرض بڑھتاگیاجیسے جیسےمعالج نے دوا دی۔
ز، سکولوں ، پیرش ہاوسزاور قبرستان اس قدر کو نقصان کیوں پہنچایا گیا؟
3۔ سازش تھی تو سازش پر عمل درآمد کرنے والے عناصر کے خلاف غدارملک کی دفعات کو مقدمات میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟
4۔ پی ڈی ایم کا سیاسی جماعت کے معاہدے ، عالمی سازش پر عمل درآمد کرنے اور ملک کے اندرزیادہ تر تکفیر مذہب کے مقدموں میں مدعی مقدمہ یا تخریب کاری کے ذریعے شامل سیاسی جماعت کے کتنے لوگوں کوفورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا؟
5۔ دہشت گردی اور دشمن ملک کی ساز ش میں شامل ہونے کے باوجود ایک سیاسی جماعت کو کالعدم کرنے کی سفارش کرنے کی بجائے ان کو لیڈران کو آئی جی پنجاب پروٹوکول میں ساتھ لے کے کیوں گھوم رہے تھے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات بطور مسیحی کمیونٹی ہمارا استحقاق ہے اور ان سوالات کو تفتیش کا حصہ بناکر ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوانا آئی جی صاحب آپکا اولین کام ہے ۔ وگرنہ ہمیں تو یہی لگ رہا ہے کہ مرض بڑھتاگیاجیسے جیسےمعالج نے دوا دی۔