سال 2009 سے تاحال 14 سالوں کے اندر صحافیوں کے حقوق حوالے کوئی ایک بھی قانون گلگت بلتستان اسمبلی سے نہ پاس ہوا ،اور نہ ہی صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی، جس کی وجہ سے گلگت بلتستان میں اکثر صحافیوں کو اپنے فرائض انجام دیتے وقت اپنی جان کو نہ صرف خطرے میں ڈال کر رپورٹنگ کے مرحلے سے گزرنا پڑ رہا ہے بلکہ صحافیوں کو متعدد جھوٹے مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صحافتی خدمات انجام دینے ملک کے دیگر حصوں کی نسبت گلگت بلتستان ایک مشکل ترین خطہ ہے جہاں ایک خبر کی کھوج لگانے میں چند گھنٹوں کی جگہ کئی دن لگ جاتے ہیں اور ان مشکل راستوں سے گزر کر جب صحافی اپنے مطلوبہ مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد خبر چلا لیتا ہے تو اس صورت میں بھی رپورٹر کو بخششِ نہیں ملتی۔ خبری ذرائع کا نام نہ بتانے پر صحافی کو تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے ویسے تو صحافیوں کے تحفظ کے لئے بہت سارے قوانین بنتے رہے ہیں ہر آنے والی صوبائی حکومت کی طرف سے ان قوانین کو خطے میں نافذ کرنے سوائے امید دلانے کے سنجیدہ نہیں آخری بار وفاقی سطح پر پروٹیکشن آف جرنلسٹس ایکٹ کے بنے ہوئے بھی 2 سال کا عرصہ گزر گیا لیکن تا حال صوبائی سطح پر گلگت بلتستان میں یہ قانون اب تک نہیں بن سکا۔
ملک کے دیگر صوبوں جیسا کہ 2021 میں سندھ اسمبلی کی طرح گلگت بلتستان اسمبلی میں بھی صوبائی سطح پروٹیکشن آف جرنلسٹس ایکٹ منظور کیا جاسکتا ہے صحافتی تحفظ کا کوئی عملی منصوبہ گلگت بلتستان میں موجود نہ ہونے کے باوجود بھی یہاں کے مقامی صحافی طبقہ ایک عدم قانونی تحفظ چھتری تلے اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریوں کو کن دشوار گزار راستوں سے گزر کر نبھانے میں مجبور ہیں ذرا ذیل کے سطور میں ملاحظہ فرمائیں تو خود اندازہ ہو گا کہ رپورٹنگ کے دوران گلگت بلتستان کے صحافیوں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
دوران رپورٹنگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے صحافی امتیاز گلاب بگورو نے بتایا کہ
2020 میں کورونا وائرس کے باعث گلگت بلتستان انتظامیہ کی طرف سے شہر بھر میں مکمل لاک ڈاؤن تھا لیکن صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ زمہ داریاں ادا کرنے ڈی سی گلگت کی طرف سے باقاعدہ پاسیز جاری کئے گئے تھے گلگت سب ڈویژن دنیور بازار سے گزر رہا تھا میری نظر اے سی کی گاڑی پر پڑی جو اپنے ہمراہ اک پولیس کی بڑی تعداد لیکر سڑک بیج ٹریفک جام کر کے فوٹو گرافی کرنے پر مصروف تھا میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس صورتحال کے حوالے سے سٹوری بناؤں جو اے سی خود لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر رہا اور دوسروں کو فاصلہ رکھنے کی ہدایات جاری کر کے یہاں ہجوم بنا رکھا ہے تصاویر کھینچ رہا تھا تو پولیس کو اے سی شیر غازی نے حکم دیا کہ ان کو پکڑ کر قریب لے آؤ اور مجھے پولیس والوں نے اے سی کے گاڑی کے پاس لے گئے اے سی نے تصاویر کھینچنے کی وجہ دریافت کی تو میں نے صحافی ہونے کا تعارف کرواتے ہوئے ڈی سی گلگت سے صحافیوں کو جاری حکم نامہ نکال کر دکھایا تھا۔
اتنے میں ان کے ساتھ موجود اک پولیس اہلکار نے مجھے گھسیٹ کر پولیس گاڑی میں ڈال کر دنیور تھانہ حوالات میں بند کر دیا جس پر سی ایم سیکرٹریٹ کے باہر سنٹرل پریس کلب گلگت اور یونین آف جرنلسٹس کی بھر پور احتجاجی مظاہرے کے بعد میری رہائی ممکن ہوئی امتیاز گلاب بگورو نے کہا کہ گلگت بلتستان میں ہر صحافی محفوظ نہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کے صحافیوں کی جان ومال کی حفاظت کے لئے بنائی گئی قوانین میں سے ایک قانون بھی گلگت بلتستان میں لاگو نہیں جس کی وجہ سے صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ زمہ داریوں کے دوران یہ دن دیکھنے کو پڑتے ہیں دوسری جانب یہاں جتنے بھی تشدد کے واقعات صحافیوں کے ساتھ پیش آئے ہیں وہ سب قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے مصالحتی بنیاد پر اختتام پذیر ہو چکے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اک تو ایسے واقعات کے بعد معزز لوگ درمیان میں آکر صلح پر مجبور کرتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قانونی راستے کو اپنانے کے لئے اک کم تنخواہ والے صحافی کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ ملزم کو سزا دلوانے کے لئے وکیلوں کی فیسوں کو برداشت کر سکے جس کی وجہ سے وہ عدالتوں کا سہارہ لینے سے بھی قاصر رہتا ہے۔
صحافی عابد شگری نے بتایا کہ کسی بھی سٹوری کو جب ہم بطور صحافی تحقیقات کا آغاز کر دیتے ہیں تو معلومات لیتے وقت ہی صحافیوں کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے صحافیوں کو اپنی سٹوری کی تکمیل تک بہت سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان مراحل کے دوران متعلقہ ادارے کے زمہ داران کا رویہ شدت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ قانونی راستہ اختیار کرنے کے لئے نہ یہاں خطے میں کوئی قانون نافذ ہے اور نہ ہی اداروں میں بیٹھے افراد کا اخلاق درست ۔ جس کی وجہ سے اداروں کے افراد خود کو بچانے کے لئے جھوٹے مقدمات کا سہارہ لیتے ہیں اور اسی طرح صحافیوں کو تشدد ، حوالات اور جیل کی سلاخوں تک کی اذیتوں سے گزرتا پڑتا ہے۔
صحافی طیب بابری نے کہا کہ گلگت بلتستان میں صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی سے تا حال پاس نہیں ہو سکا اس کے باوجود یہاں صحافیوں نے سخت حالات میں بھی عوام کو ہر خبر سے باخبر رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے انھوں نے کہا کہ ملک بھر کے صحافیوں کی طرح قوانین کی سہولیات کے دائرے بیٹھ کر یہاں کے صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ زمہ داریاں نبھانے کا موقع فراہم کیا جائے تو گلگت بلتستان کے صحافی صحافت کے میدان میں ایک مثالی کردار ادا کریں گے۔
سماء ٹی وی گانچھے کے نمائندے ذولفقار علی نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے صحافی خطے کے اندر جس مشکلات کے دائرے میں اپنا حق ادا کر رہے ہیں میرے خیال میں دنیا کا کوئی صحافی اس سخت ترین رویوں کے اندر بیٹھ کر رپورٹنگ کرنے کو تیار نہیں ہو گا یہاں خبر دیتے ہیں تو رپورٹر کے اوپر جھوٹے مقدمات درج کروائی جاتی ہے اور جب کہیں کوریج کے لئے جاتے ہیں تو وہاں کوریج سے روک دیا جاتا ہے ان مشکلات میں پھر بھی ہم اپنے کام میں نا کام نہیں رہتے مقدمات کا سامنا ہو یا تشدد کا شکار لیکن ہر صورت عوام کو حقیقت سے آگاہ کرتے رہتے ہیں بلا رکاوٹ بلا خطر صحافیوں کو اپنے فرائض نبھانے صوبائی سطح قانون سازی ضروری ہے۔
صحافی وقار احمد راجپوت نے بتایا کہ گلگت بلتستان اسمبلی میں صحافیوں کو تحفظ دینے کے لئے ایکٹ کی منظوری وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ملک و علاقے کو کرپشن سے بچانے کے لئے میڈیا کا کردار ایک عبادت سے کم نہیں انھوں نے کہا کہ ہم اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر رپورٹنگ کر کے اپنا فرض ادا کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں لیکن حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ریاست کے اس چوتھا ستون کے تحفظ حوالے ملک میں لاگو قانون کو گلگت بلتستان میں نافذ کرتے ہوئے صحافیوں کو اپنے پیشہ میں جہاد کرنے کا سہولت فراہم کرے تاکہ وہ بغیر خوف و خطر سلامتی کے ماحول میں مزید اپنے فرائض بہتر انداز انجام دے سکے وقار احمد نے بتایا کہ ہم جب بھی کوئی سکینڈل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لاتے ہیں تو اس کے لپیٹ میں آنے والوں کی طرف سے سخت دھمکیوں اور جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
روزنامہ وطین سے منسلک صحافی مہتاب الرحمٰن نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں صحافت کے میدان میں آنے سے قبل یہ سوچ کر میدان اترنا ہے کہ اس شعبے میں فرائض بھرپور انداز میں انجام دینا مشکل اور پل صراط سے گزرنا آسان مرحلہ ہوگا انھوں نے بتایا کہ ہم یہاں گلگت بلتستان میں ایک قسم چور کی روپ دھار کر صحافت کر رہے ہوتے ہیں آگر کوریج کے دوران کسی کیمرہ آنکھ میں آنے والے کی نظر صحافی پر پڑ جائے تو اس صورت ان جاہلوں سے یا تو کیمرہ سلامت نہیں یا پھر صحافی کی جان کو خطرہ لاحق ہے مہتاب الرحمٰن نے اپنے ساتھ ہونے والی پولیس گردی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سال 2022 گلگت جوٹیال کے مقام پر ایک پولیس افسر اپنی گاڑی سے اتر کر دکاندار کو تھپڑ مارتا جا رہا تھا اور میں نے جب وجہ دریافت کی تو دکان رات بارہ بجے تک کھول کر بیٹھنے کا جرم بتایا گیا ۔
جس پر میں نے ایک پولیس افسر کے رویہ خلاف سوشل میڈیا پر سٹوری چلائی اس جرم میں اگلے روز جب میں شام کے وقت اپنے دفتر واقع جوٹیال سے سی ایم سیکرٹریٹ وزیر اعلیٰ کی ایک پریس بریفنگ میں شرکت کرنے جارہا تھا مذکورہ پولیس افسر نے اس سٹوری کا حوالہ دیکر سر عام سڑک کے بیج اپنے سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں مجھ پر تشدد کرایا اور پولیس افسر خود تماشا دیکھتا رہا بعد ازاں مجھے پولیس نے دستی طور حوالات میں بند کر کے اس واقعے کے خلاف رپورٹ درج کرنے کا موقع تک نہیں دیا جب یہ خبر سنٹرل پریس کلب پہنچ گئی تو صحافیوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہونے لگا جس پر ایس پی گلگت نے مذکورہ پولیس افسر کے ہمراہ پریس کلب آکر معذرت کی اور مجھے رہا کردیا یہ معاملہ اسی طرح ختم ہو گیا۔
انھوں نے کہا کہ یہ سب کچھ ہمارے ممبران اسمبلی کی نااہلی کی وجہ سے ہو رہا ہے آج تک انھوں نے صحافیوں کے تحفظ حوالے سے ملک کے دیگر حصوں میں موجود کوئی قانون اسمبلی میں پیش کرنے کی زحمت تک نہیں کی ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں نشانیوں اور سیاستدانوں سے لیکر اعلیٰ سرکاری حکام تک سبھی لوگ صحافیوں پر تشدد کرنے میں زرا سا بھی اپنے اندر ڈر محسوس نہیں کرتے ہیں جو کہ یہاں کے صحافیوں کے ساتھ ناانصافی ہے اور ان صورتحال میں صحافی کی اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریاں بھی متاثر ہو کر سرکاری اداروں میں ہونے والی کرپشن کا وہ صحیح طرح بنیاد تک نہیں پہنچ پاتا ہے
بول نیوز کے نمائندے ندیم خان نے کہا کہ اپنے دفتر سے گھر جاتے وقت راستے میں بعض نقاب پوش افراد نے گن پوائنٹ پر میری گاڑی روک کر مجھے دھمکی دی کہ اگر آپ نے آئندہ اپنی رپورٹنگ میں نرمی کا سلوک نہیں برتا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے لہذا آئندہ باز آجائیں۔ اس واقعے کی رپورٹ باقاعدہ سٹی تھانہ گلگت میں درج کروائی گئی تھی اور بعد ازاں علاقے کے معزز سماجی و سیاسی شخصیات نے اس معاملے کو ملزمان کی طرف سے معافی مانگنے پر ختم کروا دیا اور تھانے سے راضی نامے کے بعد ایف آئی آر کو واپس لینا پڑا ندیم خان نے بتایا کہ اس طرح کے واقعات ماضی میں گلگت بلتستان کے دیگر صحافیوں کے ساتھ بھی پیش آتے رہے ہیں جن کو صوبائی سطح کوئی قانون لاگو نہ ہونے کی وجہ سے مصالحت کے لئے علاقے کے معزز چہرے درمیان میں آکر صلح صفائی پر مجبور کر دیتے ہیں یہاں صحافیوں کو درست سمت اپنا کام جاری رکھنے کے لئے صوبائی اسمبلی سے صحافیوں کے تحفظ حوالے وفاق سے منظور شدہ ایکٹ کو پاس کرنا اور اس قانون کا اطلاق خطہ بھر میں ہونا لازمی ہے وگرنہ یہاں اس قانون کے بغیر کسی بھی صحافی کی جان محفوظ نہیں۔
مقامی صحافی امجد برچہ کہتے ہیں کہ یہاں مقامی صحافیوں کے ساتھ پولیس گردی کے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں انھوں نے کہا کہ ایک ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا 13 ستمبر 2021 کو میں نے ڈی ائی جی رینج کے متعلق کوئی خبر چلائی تھی کیا خبر چلائی تھی جو اسے ناگوار گزری جس پر مجھے رات کے وقت پولیس نے گھر سے اٹھایا اور دوسرے دن گلگت بلتستان یونین آف جرنلسٹس سینٹرل پریس کلب نے گلگت بلتستان بھر کے پریس کلبوں اور صحافتی تنظیموں کو احتجاج کی کال دیتے ہوئے چیف کورٹ گلگت میں درخواست دائر کردی گئی کہ بغیر کسی مقدمہ اندراج مقامی صحافی کو گرفتار کیا گیا ہے جس پر چیف کورٹ کے چیف جسٹس نے ایکشن لیتے ہوئے کیس سماعت کے لئے مقرر کردی جبکہ سماعت سے چند گھنٹے قبل گلگت پریس کلب میں پولیس و انتظامیہ کا صدر پریس کلب کے درمیان مذاکرات اس شرط پر کہ آئندہ پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانیوں پر معاملہ رفع دفع ہو چکا تھا جس بابت تحریری طور صلح نامہ کو عدالت میں پیش کیئے جانے پر رہائی کے ساتھ ساتھ کیس کو بھی عدالت سے خارج کردیا گیا۔
سنٹرل پریس کلب گلگت کے صدر خورشید احمد نے بتایا کہ صحافیوں کے تحفظ اور آزادانہ صحافت کے فروغ کے حامل قانون صوبائی اسمبلی سے منظور کروانے کے لئے ماضی میں بہت بھاگ دوڑ کی گئی اس حوالے سے باقاعدہ وزراء و ممبران اسمبلی اور وزیر اعلیٰ سمیت گورنر سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن صرف امیدیں دلانے کے علاؤہ گلگت بلتستان اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے قانون کی منظوری تو دور کی بات ہے اس متعلق بل اسمبلی پیش ہونے گیا تک نہیں انھوں نے کہا کہ ابھی بھی ہماری جدو جہد جاری ہے اور موجودہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی میں کردار ادا کرنے کی امیدیں وابستہ ہیں ضرور اس اہم ایشو پر وہ خصوصی طور دلچسپی لیں گے۔
صوبائی ایڈوائزر محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان ایمان شاہ سے صحافیوں کے تحفظ حوالے قانون کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان حکومت یہاں صحافیوں کے حقوق کے لئے بھر اقدامات اٹھا رہی ہے ملک کے دیگر حصوں میں موجود صحافیوں کی طرح گلگت بلتستان کے صحافیوں کو بھی حقوق دلانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے معلومات تک رسائی حاصل کرنے سمیت دوران رپورٹنگ ان کے جان کی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قوانین لائے جائیں گے اور انھوں نے بتایا کہ میں نے حال ہی میں بحثیت ایڈوائزر محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان اپنی زمہ داریاں سنبھالی ہیں اس پر تھوڑا وقت لگے گا پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ صوبائی اسمبلی سے منظور کروانے میری بھرپور کوشش ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں ایڈوائزر محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان ایمان شاہ نے کہا کہ گلگت بلتستان اسمبلی کو صوبائی درجہ دیئے ابھی 13 سال ہوئے ہیں اس دوران آنے والی حکومتوں نے صوبائی سطح پر صحافیوں کے حقوق کے لئے کوئی بل اسمبلی سے منظور کروانے کی کوشش نہیں کی لیکن یہاں کے صحافیوں کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کے تحت جان و مال کا تحفظ جو ریاست کی زمہ داری بنتی دی جا رہی ہے لیکن یہ خطہ حساس خطہ ہے آئین کے تحت فراہم تحفظ کو جواز بناکر اپنی جان و مال کو مشکل میں ڈال کر رپورٹنگ کرنے کے بجائے سرکاری و پرائیوٹ سیکٹرز میں صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے دوران خبر تک پہنچنے خود کو بھی محفوظ رکھ کر فرائض انجام دینے کی ضرورت ہے۔