معلوم اور معروف انسانی تاریخ اگر حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فرزندان ِ آدم یعنی ہابیل اور قابیل کا تذکرہ کئے بغیر ہم انسانی تاریخ کا آغاز ہی نہیں کر سکتے۔ یہ بد قسمتی کہیے یا انسانی صبر و شعور کا امتحان کہیے کہ دنیا کے پہلے انسان کے دو بیٹے ہی امن اور بد امنی کی علامت ٹھہرے۔
دونوں ہی ظالم اور مظلوم کا استعارہ بنے۔ دونوں قاتل اور مقتول کا نشان قرار پائے۔ انہی دو نے انسانیت کا آغاز ہی دو قسم کے رویوں سے کر دیا جس کے بعد یہ دونوں رویے کہیں رکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔
لاکھوں سالوں پر محیط انسانی تاریخ کے قدم قدم پر جہاں امن کے لیے کوششوں کے نشانات ملتے ہیں وہاں بدامنی کے لیے ہونے والے اقدامات کے شواہد بھی ملتے ہیں۔
تاثر یہی ہے کہ امن کا احساس بدامنی کی وجہ سے یا بدامنی کے بعد قیامِ امن کے وقت زیادہ ہوتا ہے۔ انسانوں نے ہمیشہ امن کی قدر امن کے زمانے میں نہیں کی بلکہ بدامنی رونما ہونے کے بعد انسانوں کو امن کی ضرورت کا احساس ہوا ہے۔ المیہ ہے کہ انسانوں نے امن کے زمانوں میں امن کو محفوظ رکھنے کے لیے اس قدر جدوجہد نہیں کی بلکہ امن گنوانے کے بعد امن کے قیام کے لیے بیشمار اور بے انتہا وسائل صرف کئے ہیں۔
حقیقی معنوں میں انسانی شعور اور عقل ِ سلیم کا تقاضا یہی ہے کہ امن کے زمانوں میں نہ صرف امن کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں بلکہ امن کو دوسرے ایسے خطوں تک منتقل کرنے کی کوششیں جاری رکھنا چاہیے جہاں امن موجود نہیں ہے۔
جدید عالمی سیاسی منظر نامے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امن کے احساس کے لیے پہلے دانستہ طور پر بدامنی پھیلائی جاتی ہے۔ پھر اس بدامنی کو روکنے کے لیے سیاسی کھیل کے ذریعے امن مہمیں چلائی جاتی ہیں۔ وہی مجرم وہی منصف کے مصداق بعض قوتیں خود ہی آگ لگانے اور پھر خود ہی فائر بریگیڈ کی ذمہ داریاں انجام دیتی نظر آتی ہیں۔
مختلف ممالک میں ہونے والی اور تاحال جاری دہشت گردیاں اس بات کی غماز ہیں کہ عالمی طاقتیں اپنی سیاسی ضرورت یا سیاسی بالادستی کے لیے امن کو تہہ و بالا کرتی ہیں جس کے بعد مظلوم شور و فغاں کرتے ہیں پھر عالمی سطح پر اس بدامنی کا واویلا کیا جاتا ہے جس کے بعد انہی عالمی قوتوں کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے کہ وہ آئیں اور اس بدامنی کو روکنے کے لیے مظلوموں کی مدد کریں۔ امن اور بدامنی کا یہ کھیل سیاسی اور بعض اوقات مذہبی طاقتوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔
بدامنی سے متاثرہ علاقے‘ ممالک‘ اقوام یا فرقے جب ظلم کے خاتمے اور امن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں تو انصاف کی ذمہ دار عالمی قوتیں اور ادارے جہاں مظلوموں کو عارضی یقین دہانیاں کراتے ہیں اور طفل تسلیاں دیتے ہیں وہاں بدامنی کے ذمہ دار عناصر سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں یا بعض اوقات کسی آزادی یا حق کے نام پر بدامنی کی ذمہ دار قوتوں کی حمایت بھی کی جاتی ہیں۔ کشمیر و فلسطین و افغانستان و عراق و لیبیا و مصر و سعودی عرب و یوکرائن و شام و کوریا وغیرہ ہماری مذکورہ بالا سطور میں درج المیوں اور پالیسیوں کا زندہ مظہر ہیں۔ اس وجہ سے آج ان خطوں میں بدامنی پھیلانے والی قوتیں اتنا طاقتور ہوچکی ہیں کہ یہاں امن کا قیام ایک خواب ہوتا نظر آرہا ہے۔
اس سب کے باوجود ہمیں ان مختصر اور مخلص قوتوں کا کردار بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو بارہ مہینے بلکہ چوبیس گھنٹے امن کے لیے اپنی قوتیں اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں وقف کئے ہوئے ہیں۔ عالمی سطح سے لے کر ہر ملک میں قومی سطح پر بلکہ ہر چھوٹے چھوٹے علاقے میں مقامی سطح پر جو ادارے‘ تنظیمیں اور شخصیات امن کے فروغ اور بدامنی کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل ہیں ان کی حوصلہ افزائی بھی ہم سب کی اخلاقی و انسانی ذمہ داری ہے۔
ہابیل و قابیل کی طرح ہماری تاریخ میں بھی اور ہمارے موجود حال میں بھی امن کے قیام کے لیے اور انسانوں کو امن کی طرف راغب و متوجہ کرنے کے لیے بیشمار ادارے اجتماعی سطح پر اور بیشمار شخصیات انفرادی سطح پر امن کے لیے کوشاں ہیں۔ بالخصوص جنگ زدہ ممالک میں امن کا احساس زیادہ ہے۔
اسی احساس کے پیش نظر عالمی سطح پر ہر سال 21 ستمبر کو یوم امن منایا جاتا ہے۔اور انسانوں کو بتایا جاتا ہے کہ امن کتنی عظیم نعمت ہے جبکہ بدامنی کتنا بڑا ناسور ہے جو انسانوں کے جسموں کے ساتھ انسانوں کی معیشت و اقتصاد اور سماجی قدروں کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ دن سب سے پہلے ۱۸۹۱ء میں منایا گیا تھا لیکن اسے باقاعدہ عالمی حیثیت 2013 ء میں اس وقت حاصل ہوئی جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دنیا کے تمام ممالک سے اپیل کی تھی کہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لیے سخت جدوجہد کریں کیونکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ممالک میں تنازعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
اکیس ستمبر کے ایک روایت کے طور پر اقوام متحدہ کے مرکزی ہیڈ کوارٹر نیویارک میں واقع ”امن کا گھنٹہ “ بجایا جاتا ہے جو افریقہ کے علاوہ دنیا کے تمام بر اعظموں کے بچوں کی جانب سے جمع کئے گئے سکوں کو پگھلا کر بنایا گیا ہے۔ یہ امن کا گھنٹہ یونائیٹڈ یونین ایسوسی ایشن آف جاپان کی جانب سے اقوام متحدہ کو بطور تحفہ دیا گیا ہے۔ اس گھنٹے کے ذریعے جاپان یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ جنگ سے انسان کو ایک بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے جبکہ دنیا کو امن کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں خاص معروضی کیفیت اور متعدد بدامنیوں کے سبب اگرچہ سرکاری سطح پر امن کمیٹیاں مرکزی سطح سے لے کر تھانے کی سطح تک موجود ہیں اور مکمل سرکاری مراعات کے ساتھ کوشاں رہتی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ملک میں بدامنی کی مختلف صورتوں کے سامنے بند باندھنے یا امن کے حقیقی قیام کے لیے غیر سرکاری اور پرائیویٹ ادارے جو خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی نظیر نہیں ملتی۔
مختلف مذہبی جماعتوں نے ملی یکجہتی کونسل کے نام سے اور مختلف قبائلی علاقوں میں امن جرگوں کے نام سے عملی طور پر کمیٹیاں کام کر رہی ہیں۔ لیکن امن کے لیے زمین ہموار کرنے کا بیڑا اپنی سطح پر ایک اہم غیر سرکاری ادارے ”ادارہ امن و تعلیم“ یعنی Peace and Education Foundation [PEF] نے اٹھایا ہوا ہے۔ جو گذشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کے مختلف مذہبی طبقات‘ مختلف سماجی طبقات اور مختلف سیاسی و صحافتی طبقات کے اندر امن کی تعلیم دیتا ہے۔ امن کے سفیران تیار کرتا ہے اور باہمی صبر و تحمل‘ رواداری‘ برداشت اور محبت بھرے روابط کا عملی نفاذ کرتا ہے۔ ادارہ امن و تعلیم اس وقت پاکستان میں بدامنی کے خلاف اور امن کے حق میں ایک علامت اور استعارے کے حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں ہونے والے تربیتی پروگراموں کے ذریعے لاکھوں طلباء‘ علماء‘ یوتھ ونگز‘ مدارس‘ سرکاری و غیر سرکاری سکولوں‘ صحافی حضرت‘ سماجی تنظیموں کے اراکین‘ خواتین کے بیشمار اداروں اور تنظیموں‘ کھلاڑیوں کی تنظیموں‘ ہندو‘ سکھ اور مسیحی مذہبی و سیاسی رہنماؤں سمیت متعدد شعبوں تک اپنا امن کا پیغام پہنچا چکا ہے اسی ادارے کے تیار کردہ اور تربیت یافتہ سینکڑوں متحرک لوگ مختلف اداروں کی شکل میں آج پاکستان میں امن کے فروغ کے لیے متحرک ہیں۔
وطن عزیز میں مذہبی سطح پر بھی بدامنی ہے۔ لسانی سطح پر بھی بدامنی ہے۔ مختلف قومیتوں کی سطح پر بھی بدامنی ہے۔ مختلف مذاہب اور مسالک کی سطح پر بھی بدامنی ہے۔ مختلف صوبائی عصبیتوں کی سطح پر بھی بدامنی ہے۔ مختلف بیرونی قوتوں کہ شہہ پر بھی بدامنی ہے۔ ان ساری بدامنیوں کے خاتمے کے لیے ہمیں سرکاری سطح پر امن کے قیام کے لیے کوششوں سے زیادہ انفرادی اور ذاتی سطح پر امن کی قدر کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم امن کا نفاذ اپنی ذات اور فرد سے شروع کریں گے تو بدامنی کی صحیح معنوں میں بیخ کنی ہو سکتی ہے۔
مصنوعی اقدامات اور نمائشی بیانات سے نہ کبھی بدامنی ختم ہو سکتی ہے اور نہ کبھی امن قائم ہو سکتا ہے۔ امن کے قیام کا اولین جزو برداشت‘ رواداری‘ دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام اور تحمل و شعور ہیں۔ ان بنیادی عناصر کے ساتھ اگر ہم تعلیمی و درسی سلیبس میں امن کی اہمیت و ضرورت بھی بیان کریں لیکن ساتھ ساتھ اپنے گھر‘ گلی‘ محلے‘ مسجد اور شہر میں اپنی نسلوں کی تربیت بھی امن کے احساس اور بدامنی کے خلاف کریں تو کوئی بعید نہیں کہ یہ وطن عزیز امن کا حقیقی معنوں میں گہوارہ بن جائے۔
ہمیں عالمی یوم امن کے موقع پر اس عہد کی تجدید کرنا چاہیے کہ ہم بالکل خلوص اور ایمان داری کے ساتھ امن کے فروغ و قیام کے لیے جدوجہد کریں گے چاہے اس کے لیے کتنی ہی بڑی قربانیاں کیوں نہ دینا پڑیں۔ کیونکہ امن ہی دراصل انسانیت اور انسانی معاشروں کی بقاء کا ضامن ہے۔