پاکستان میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کے لیے بلا تفریق تعلمی اداروں میں ملازمت کے مواقع اور درپیش مسائل

پاکستان کی چوتھی مردم شماری کے مطابق اقلیتوں کی کل آبادی کا 3.72فیصدہیں۔ پاکستان کا آئین اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کو حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ قانون کے دفعات آرٹیکل 20 کے مطابق پاکستان کے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔

یہ قانون افراد کو اپنے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق بھی دیتا ہے۔آرٹیکل 22 کے مطابق یہ آرٹیکل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام شہریوں کو عوامی دفاتر اور سول سروس تک مساوی رسائی حاصل ہے، چاہے ان کا مذہب کوئی بھی ہو۔آرٹیکل 25 پاکستان کے تمام شہریوں کو مساوی شہریت اور حقوق کی ضمانت دیتا ہے، چاہے ان کا مذہب، نسل، ذات یا جنس کچھ بھی ہو۔ لیکن طویل عرصے اقلیتی برادری کے تخفظ اور حقوق کے حوالے سے غیر مناسب رویے اور واقعات کے بعد سے اقلیتی برادری میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ ان کے حقوق کا عملی طور پر کتنا تحفظ کیا جا رہا ہے۔

اقلیتی برادری کے ٹیچرز کی ملازمت پر بات کی جائے تو آئین کا آرٹیکل ستائیس اس بات کا ضامن دیتا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی شہری اگرکسی نوکری کی شرائط پرپورااترتا ہو تو وہ چاہے پاکستان کے کسی شہر، مذہب، ذات یا رنگ و نسل سے متعلق ہو ا،سے اس ملازمت سے محروم نہیں کیاجاسکتا۔اسی شق کوآگے بڑھاتے ہوئے پاکستان حکومت نے سال 2009میں ایک ڈائریکٹو ایشو کیا تھا جس کے تحت پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کیلئے پانچ فیصدکوٹہ مخصوص کیاگیاتھا،اس ڈائریکٹو پر پنجاب، سندھ اوربلوچستان نے فوری عمل کیا جبکہ کے پی کے نے پہلے اسے بتدریج بڑھاتے ہوئے اس شرح کو تین فیصد تک جاپہنچایا۔

پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی دفعات کے باوجود، اقلیتیں بدستور امتیازی سلوک، پسماندگی، مذہبی بنیادیوں پر الزامات اور ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں میں یہ مشکلات کس طرح ظاہر ہوتی ہیں۔ خاص کر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے استاتذہ ، سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر بہ طور اساتذہ کے لیے ملازمت کے مواقع بغیر کسی تفریق کے دستیاب ہوتے ہیں اور تعلیم کے فروغ کے لیے کن مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔ اس حوالے سے اقلیتی برادری کے اساتذہ سے حالات جاننے کے لیے کوشش کی گئی۔

شناخت نہ ظاہر کرنے پر زور دیتے ہوئے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے راولپنڈی کے رہائشی رشی ویر (فرضی نام ) کا کہنا ہے کہ با طور ٹیچر میرا پروفیشن بھی ہے اور معاشی نظام چلانا کا ذریعہ بھی ہے ۔ دس سال غیر سرکاری تعلمی اداروں میں فرائص سر انجام دیتا رہا ہوں ۔ مختلف مسئلے سے دوچار ہونے کے بعد میں اب ہوم ٹیوشن فراہم کرتا ہوں ۔

ملک کا نظام اکثریت کے ہاتھوں میں ہو تو اقلیتیوں کو اپنے حقوق کی آواز بھی سزا محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیرسرکاری سطح پر اقلیتیوں کو اکثر ملازمت میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کیرئیر کی ترقی اور معاشی خوشحالی کے امکانات کو محدود کر سکتا ہے۔ خاص کر تعلمی اداروں میں استاتذیں کی مذہبی بنیادیوں پر بھرتیاں ، غیر مساوی معاوضہ اور کام کی جگہ پر ہراساں کرنا اگر کوئی اپنے حق کے لیے آواز بھی اٹھائے تو غیر ریاستی عناصر کی طرف سےنفرت انگیز ہجومی تشدد، تو ہین رسالت جیسے سنگین الزامات اور مختلف ذہنی اور جسمانی تشدد ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔

نام نہ ظاہر کرتے ہوئے( بہاولپورکی رہائشی ) دنیا پور کے سرکاری کالج کی ٹیچر کا کہنا ہے کہ اقلیتی برادری سے تعلق ہونے کی وجہ سے بہ طور ایک ٹیچر مسئلے کا سامنا نہیں رہا۔ اقلیتوں کے سرکاری کوٹے کی وجہ سے ملازمت بھئ احسانی سے مل گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ طاقت کے کھیل میں اکثریت کے معیاروں کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ ملک کے اندر اقلیتی برادری سنگین مسئلے سے دوچار ہو رہی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک بھر کے اقلیتی برادری میں ڈر اور خوف کی کیفیت ہے بے شک حکومت اور قانون ہمیں تخفظ فراہم کرتا ہے ۔ ایسی صورتحال میں ملک بھر میں تعلیم ادارے مذہبی تفریق کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ییں۔

پاکستان مینارٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن چیئرمین ، ڈائریکٹر خواتین کی سماجی ہم آہنگی بیداری اور ترقی (شیڈو آرگنائزیشن) پولیٹیکل سائنس پروفیسر انجم جیمز پال نے ٹیلیفون پر خصوصی طور پر بات چیت کرتے ہوئے ملک بھر میں اقلیتی برادری کو ددپیش خوفناک قسم کے مسئلے پر تشوتش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی بنیادوں پر نفرت کی لہریں اقلیتیوں کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہے ۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں اقلیتیوں کے لیے سنگین اور غیر انسانی واقعات میں شدید آرہی ہے۔ اقلیتی برادری زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں یہاں تک کہ اپنے مسئلے پر بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ توہین رسالت کا شکار نہ کر دیے جائے۔ اقلیتی برداری کے استاتذہ میں بھی ایسی ہی صورت حال پائی جاتی ہے۔

ملک کے آئین کا آرٹیکل 30 پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہب اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں ۔اس آرٹیکل میں کسی بھی جگہ نہیں ہے کہ غیر مذاہب کے افراد اس کے تعلیم کے فروغ کے پابند ہے۔

پھردوسرے مذاہب کو کیوں پابند کیا جاتا ہے کہ غیر مذاہب سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طلبہ وطالبات اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے پابند ہو اور فروغ میں کردار ادا کریں ۔ انہوں نے کہاکہ میرے پاس ملک بھر سے اساتذہ کی شکایات آتی ہیں کہ اقلیتی بنیادیوں پر انہیں سکولوں میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے یہاں تک کہ اسلامیات پڑھنے کے لیے مذہب کی تبدیلی کا بھی بولا جاتا ہے ۔ کئی کیسوں میں ٹیچرز کو تشدد سے بھی چار ہونا پڑرہا ہے۔ بہت سے اقلیتی برادری کے ٹیچرز یہ اظہار کرتے ہیں کہ توہین رسالت کا ڈر اور دباو بڑھتا جا رہا ہے ۔

دوسری طرف غیرسرکاری سکولوں میں اقلیتی ہونے کی وجہ سے ملازمت نہیں دی جاتی ہے کہ والدین کی جانب سے صرف مسلمان استاد ہی بچوں کو پڑھے۔ اس لیے تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت جلد ہماری جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کو درخواست دائر کر رہے ہیں کہ اقلیتی برادری کے ٹیچرز کسی بھی اسلامی تعلیم کو پڑھنے کے پابند نہ کیے جائے تا کہ کسی بھی سنگین صورت کا سامنا نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کے اندر رحمت احمد کیس میں قتل کر دیا گیا ، چند دن پہلے سکول کے بچے کو اسلامیات کی کتاب کے صفحہ پر توہین رسالت کے الزام میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ آرٹیکل بائیس کے کلاز ون کے مطابق ہرشہری کو حق حاصل ہے کہ وہ عصری تعلیم کے اداروں میں اپنے مذہب کے علاوہ ہونے والی تقریبات میں جانے سے انکارکردے یاکسی دوسرے مذہب کی ہدایات لینے سے یکسرانکارکردے، شہری کواس امرپرمجبورنہیں کیاجاسکتا۔ایسے واقعات کی روشنی میں قانونی مدد لینا انتہائی ضروری ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری کوٹہ کی وجہ سے حکومتی اداروں میں اقلیتی برادری کو سیکورٹی کے بہتر حالات ہیں ۔

پاکستان دنیاکے نقشے پرموجود وہ واحد ملک ہے جس کی قومی وصوبائی اسمبلی سمیت سینیٹ میں اقلیتوں کیلئے سیٹیں مختص ہیں اوریہ اُمیدواربغیرالیکشن لڑے حکومتِ وقت کے ساتھ بیٹھتے ہیں اوراوپن الیکشن کا دروازہ بھی اِن کیلئے کھلاہے۔پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں آئین کے آرٹیکل 54کے کلاز 4کے مطابق اقلیتوں کی دس سیٹیں، آرٹیکل 106کے مطابق صوبائی اسمبلی میں چوبیس جبکہ سینیٹ میں چارسیٹیں مختص ہیں۔

دوہزار گیارہ کے وفاقی گورنمنٹ کے سالانہ ایمپلائز سٹیٹیکل بلیٹن کے مطابق پانچ فیصد کوٹہ میں سے اقلیتیں محض 2.6فیصد حاصل کرپاتی تھیں، جن میں سے زیادہ تر گریڈ ایک اوردو کی نوکریاں ہوا کرتی تھیں، پنجاب پبلک سروس کمیشن کے مطابق 2016میں اقلیتوں کی 53فیصدآسامیاں خالی تھیں۔اس کی ایک بڑی وجہ اقلیتوں کے معاشی و اقتصادی حالات ہیں ۔اس ایشو کو حل کرنے کیلئے ہائیر ایجوکیشن میں اقلیتوں کیلئے دوفیصد کوٹہ مختص کیاگیا، اورجامعات کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ اپنے اشتہارات میں اس بات کی واضح تشہیر بھی کریں۔جس کی وجہ سے 2015میں ایک نوٹیفیکیشن جاری کیاگیاکہ اگرکسی خالی آسامی پرکوئی اقلیتی رکن اپلائی نہیں بھی کرتاتووہ اسامی خالی ہی رہے گی، اسے دوبارہ مشتہرکیاجائے اورصرف اقلیتی رکن ہی اس کا حقدارٹھہرے۔

آئین پاکستان میں آرٹیکل بیس سے لے کر آرٹیکل ستائیس تک اقلیتوں کو وہ تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ملک میں سرکاری سطح پر اقلیتوں کے حقوق اور تخفظ کے باوجود اقلیتیوں کے خلاف نفرت اور تشدد زدہ رویوں انسانی حقوق کی خلاف ہیں ۔ ایسے نازک صورت میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ پاکستان کی عدالتیں ، ادارے اقوام متحدہ کی تنظیم کا رکن ہونے کے ناطے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرے گا اور پاکستان کے تمام شہریوں کو بلا تفریق مذہب و نسل کے بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ کی یقین دہانی اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا جیسا کہ آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے