ضلع ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے محمد طارق پچھلے 13 سال سے باغبانی کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ کئی سالوں سے بڑے پیمانے پر سپرے کرنے کے ٹیکے بھی لے رہے ہیں ۔اس کام کو سرانجام دینے کیلئے انہوں نے ڈاٹسن اور بڑے جنریٹر والا پمپ بھی رکھا ہوا ہے۔ طارق نے بتایا، ”بڑے سے بڑے باغ کا سپرے اب چند گھنٹوں میں ہوجاتا ہے البتہ سارا سپرے درخت پر گرتا ہے یا زمین پر بھی گر جاتا ہے البتہ آدھے سے بھی ذیادہ سپرے زمین پر گر جاتا ہے لیکن بارش کے ساتھ یہ کیمکل پھر ختم ہو جاتا ہے“۔ طارق کے مطابق زمین پر گرنے والا زہریلا مواد بارش کیساتھ ختم ہو جاتا ہے لیکن شاید یہ انکو علم نہیں کہ اس عمل سے وہ زمین کو زہریلہ بنا رہا ہے۔
پاکستان میں زرخیز زمین کی بڑی مقدار موجود ہے لیکن ہم ملکی ضرورت کے مطابق زرعی مصنوعات حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ کسانوں نے پیداوار بڑھانے کے لیے کیمیکلز (کیڑوں کو بھگانے کے لیے کھاد اور زہر) کا استعمال شروع کیا ہے۔
سوات ایگریکلچر ریسرچ سینٹر میں بطور ڈائریکٹر کام کرنے والے منیر شاہین کہتے ہے کہ ہم سالانہ 80 ارب کے زہر منگواتے ہیں جس کو ہم سادہ زبان میں پیسٹی سائیڈ کہتے ہیں۔ جب ہم اپنی زراعت کیلئے ہر سال 80 ارب کے پیسٹی سائیڈ منگواتے ہیں۔تو کیا یہ اتنا پیسٹی سائیڈز ہمیں اتنا فائدہ دے رہے ہیں جتنا کہ اس پر زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے؟
دوسری طرف ہمارے کسان بھی اتنے تعلیم یافتہ اور اتنے ایکسپرٹ نہیں کہ کب کونسا اور کتنا پیسٹی سائیڈ استعمال کرنا ہے، اب اگر صحیح طریقے سے اور صحیح مقدار میں پیسٹی سائیڈز استعمال نہیں ہونگے تو اس سے قدرتی ماحول پوری طرح خراب ہوسکتاہے۔ مثال کے طور پر اگر زیادہ مقدار میں زیادہ اسپرے ہوگا تو یہ پیسٹی سائیڈز زمین پر گرے گا اورجب یہ زمین پر گرے گا تو اس سے ارتھ وارم (زمینی کیڑے) مر جائیں گے۔ اب ارتھ وارم کو کسان کا ٹریکٹر کہا جاتا ہے یعنی کہ اس سے کسان کا ٹریکٹر مرجائے گا۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک میں کیڑے مار ادویات کا دوسرا بڑا صارف ہے۔ زراعت کی پیداوار بنیادی طور پر کیڑے مار ادویات کے استعمال پر منحصر ہے۔ کیمیائی کھاد اور کیمیائی زہر زرعی کاشت کے اثرات انسانی صحت اور ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔
اس کے مضر اثرات نے زراعت کے ماہرین کی توجہ زمین کی زرخیزی بر قرار رکھنے، فصلوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے، پودوں کے امراض کے خلاف جنگ کے نئے طریقے دریافت کرنے اور مفید جراثیموں پر تحقیق کی جانب مبذول کرائی ۔حیاتیاتی کھاد یا بایو فرٹیلائزر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ڈائریکٹر ایگریکلچر خیبر پختونخوا حاجی محمد کے مطابق پسٹی سائڈ کے بغیر زراعت ممکن ہے لیکن اس کے لیے کسانوں کو ذہن استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی اور محنت کرنا ہوگی ۔ جیسے فصل میں موجود کسی قسم کے بیمار پودوں یا کیڑے والے فصل کو اسی وقت نکالنا۔فصل کی کٹائی کے بعد زمین کو صاف کرنا ہوگا جو بقایا فضلہ رہ جائے اس کو جلا دینا یا دفن کرنا۔اس کے بعد مختلف فصلوں کے جدید بیچ کے اقسام کا انتخاب کرنا جس میں حیاتیاتی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہو۔مثال کے طور پر گندم میں پیرسباق 2019 یا گلزار 2019 ایسی اقسام ہیں جس کی نہ صرف پیداوار ذیادہ ہے بلکہ بہت سی بیماریوں کے خلاف لڑ سکتا ہے ۔
تیسرا طریقہ ہوسکتا ہے کہ ایک فصل کے ساتھ دوسری فصل لگا دیں۔جیسے ٹماٹر کے ساتھ گوبھی یا ٹماٹر کے ساتھ کدو ،اگر فصل میں پیاز یا لہسن کاشت کی جائے تو اس خوشبو کی وجہ سے کیڑے مکوڑے فصل میں نہیں آتے اور اگر یہ سب کچھ ناکام ہو جائے تب زہر کا استعمال کیا جاتا یے۔لیکن ہمارے ہاں کسان بلکل اس محنت کیلئے تیار نہیں۔
حاجی محمد کے مطابق آڑو اور چند دیگر فروٹس کے باغات میں ہم نے ٹریپر لگانے کے تجربے کئے ہیں جو کہ ایک حد تک کامیاب جا رہے ہیں۔ ٹریپر پلاسٹک کے جگ کی طرح کا ایک آلہ سی ہے جس میں مخصوص کیمیکل ڈال کر مکھیاں پکڑی جاتی ہیں۔
محمد یاسر اپنے آڑو کے باغ میں کھڑے ہیں اور ایک ایک درخت میں موجود ٹریپر دیکھ رہے ہیں ۔ان دنوں یاسر نے باغ میں چار سو کے قریب ’آٹھ نمبر‘ آڑو کے درخت لگائے ہے ۔ان کے مطابق اس وقت آٹھ نمبر آڑو صرف درختوں میں موجود ہیں تو اس لئے ان کے پاس ذیادہ فوڈ فلائی آتے ہیں۔ یاسر کو اس وقت حکومت کی جانب سے 34 فوڈ فلائی ٹریپر ملے ہیں۔
جس سے فائدہ یہ ہوا کہ آڑو پیسٹی سائڈ سے بچ گیا۔ ’’عام طور پر ہشتم آڑو پر چار دفعہ سپرے کیا جاتا ہے لیکن ہمیں آخری دنوں میں ٹریپر ملے جس کی وجہ سے ہم نے فوڈ فلائی کیلئے چوتھی دفعہ سپرے نہیں کیا کیڑے مار زہر ایسے مادے یا کیمیکل ہیں جو ان کیڑوں یا دیگر جانداروں کو بھگانے، مارنے اور کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو پودوں کی نشوونما کو متاثر کرتے ہیں۔ مؤثر ہونے کے باوجود، کیڑے مار زہروں میں نقصاندہ کیمیکل ہوتے ہیں جو انسان کے حواس اور اعصابی نظام پر وسیع، اور بعض اوقات دائمی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی میں مایئکرو بیالوجی کے پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ عبدالبصویر کا کہنا ہے کہ ایک تو ہمارے ہاں کسان کمیونٹی سائل ٹیسٹنگ نہیں کرواتے تاکہ معلوم ہو جائے کہ زمین میں کمی کس نیوٹرینٹ کی ہے۔ جیسے کہ نائٹروجن کی کمی ہے یا زنک یا فاسفورس کی۔ وہ کہتے ہیں، ’’کسان عموما صرف یوریا کو استعمال کرتے ہیں اب زمین کو یوریا کی ضرورت ہے یا کسی اور نیوٹرینٹ کی یہ ان پر واضح نہیں ہوتا‘‘۔ مسلسل کیمکل فرٹیلائزرز کے استعمال سے زمین میں موجود خورد حیاتیات متاثر ہونے لگتے ہے جس کے بعد انزامیٹک ری ایکشن نہیں ہوتا۔جس کی وجہ سے زمین کا بنجر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
عبدالبصویر کے مطابق جب یوریا کا ذیادہ استعمال ہوتا ہے تو اس سے زمین کا پی ایچ لیول سخت ہوسکتا ہے۔ زمین میں نائٹروجن ذیادہ ہونے سے نائٹروجن نیچے چلی جاتی ہے اور پینے کے پانی کے ساتھ مکس ہو جاتی ہے جو بچوں میں بلیو بیبی سینڈروم نام بیماری پیدا کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس میں موجود بیکٹیریا بھی ختم کردیتا ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اسان لفظوں میں زمین نیچرل فرٹائل ہوتی ہےاس کاسارا سسٹم خراب ہوجاتا ہے‘‘۔
پیسٹی سائیڈز کا متبادل کیا ہوسکتا ہے؟
عبدالبصیر کے مطابق ہمارے پاس متبادل بائیو فرٹیلائزرز ہیں۔ اس کے ساتھ زمین قدرتی طور پر نرم ہو جاتی ہے۔زمین کاربن سے مالامال ہوجاتی ہے اور کیمیکل سے بھی صاف ہوجاتی ہے اور فصل انتہائی اچھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے۔ بائیو فرٹیلائزرز کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ آہستہ سے زمین میں حل ہوتی ہیں جو فصل کو اس وقت تک خوراک دیتی ہے جب تک وہ فصل اس زمین پر موجود ہے۔
کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ویہاڑی کے ریسرچ سکالرز محمد فرحان سعید نے کیڑے مار ادویات کے خطرات کے بارے میں سروے کیا جس میں 56 رضاکاروں سے خون اور پیشاب کے نمونے لئے گئے۔ جن میں بچے، خواتین کارکنان، کیڑے مار دوا کے کاروبار سے منسلک فراد، کیڑے مار سپرے کرنے والے اور وہ لوگ جو زرعی کھیتوں سے دور رہ رہے تھے۔ خون کے رزلٹ سے پتہ چلا کہ باقی لوگوں کے نثبت پیسٹی سائیڈز چھڑکنے والوں کے خون کے نمونوں میں کی زہریلے ادویات کے باقیات کی سطح دوسرے گروپوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی۔
یاد رہے کہ سال 1979 کیڑے مار ادویات کے درآمدات پر سبسڈییز دی گئیں تھیں۔ جس کا 75 فیصد حصہ نجی شعبے کو دیا گیا جبکہ حکومت نے باقی 25 فیصد اپنے پاس رکھا۔ تاہم، فروری 1985 کے بعد سے، تمام سبسیڈیز واپس لے لی گئی اور صوبہ بلوچستان کے علاوہ پورے پاکستان میں کیڑے مار ادویات کی درآمد، تقسیم اور فروخت کے لیے نجی شعبے کو مکمل طور پر ذمہ دار بنا دیا گیا تھا۔ کیڑے مار دوائیں سال 1991 سے عام ناموں سے درآمد کی جارہی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، دنیا بھر میں 1,000 سے زیادہ اقسام کے کیڑے مار زہر استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ سب سے زیادہ عام قسمیں جڑی بوٹیوں کی دوائیں (49 فیصد)، فنگسائڈز اور بیکٹیریسائڈز (27 فیصد) اور کیڑے مار (19 فیصد) ہیں۔ 1990 میں عالمی سطح پر کیڑے مار زہروں کی کھپت 3.72 بلین پونڈ (1.69 بلین کلوگرام) تھی۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ دو دہائیوں میں 57 فیصد سے زیادہ بڑھ کر 2020 تک 5.86 بلین پونڈ (2.66 بلین کلوگرام) تک پہنچ گئی۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ میں کیڑے مار ادویات کے استعمال میں مسلسل اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جیسا کہ 2050 تک دنیا کی آبادی 9.3 بلین افراد تک پہنچنے کی توقع ہے، خوراک کی پیداوار کی شرح میں 60 فیصد اضافے کی ضرورت ہے۔ اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے، محققین کا خیال ہے کہ کسانوں کو مزید پیسٹی سائڈ استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔