موجودہ معاشی حالات اور اپنے بچے بیچنے پر مجبور والدین

اسلامی تاریخ میں غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے اور اس پر ملنے والے اجر کی روایات کے باوجود بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج کا غلام زمانہ قدیم کی طرح نہ تو زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور نہ ہی اس پر کوڑے برسائے جاتے ہیں، لیکن وہ چند پیسوں کے عوض کسی کی ملکیت میں ہیں اور اس کا مالک خود مختار ہے وہ جیسے چاہے اسے رکھے۔ پاکستان میں سالانہ اجرت کی ادائیگی پر ملازمین خاص طور پر کم سن بچے رکھنے کا رواج عام ہو تاجا رہا ہے۔

پنجاب کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے دو بچے جن کی ماہانہ اجرت اٹھ سے 10 ہزار ہے، راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں کام کر رہے ہیں۔ ہوٹل مالک کا کہنا ہے کہ اس نے ان کے والدین کو پورےسال کی اجرت اداکر دی ہے ۔ان بچوں کی معصوم آنکھوں میں باقی سب بچوں جیسے خواب ہیں جو ان کی غربت اور مجبوریوں کی نظر ہو گئے ہیں۔

روشن خیال اور پڑھے لکھے طبقوں میں بھی سالانہ اجرت پر ملازمین رکھنے کا رواج عام ہے۔ جس کی بےشمار مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں ایک ہسپتال کے ویٹنگ روم میں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جس کے ساتھ ایک چھ سات سال کی بچی تھی جو لباس سے دہی علاقے کی معلوم ہوتی تھی۔میرے استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ ملازمہ ہے جو چھوٹے بچے کی دیکھ بھال کے لیے گاؤں سے لائی گئ ہے۔جب میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ تو خود بہت چھوٹی ہے یہ بھلا کیا کام کر سکتی ہو گی۔تو خاتون نے بتایا یہ بس بچے کو دیکھتی ہے تاکہ میں کام کر سکوں۔

اتنی چھوٹی سی پری جو خود ماں کی گود سے ابھی نکلی ہےگھر سے اتنے دور ہی کیسے آئی ہو گی۔دس سال کے بچے بھی کتنے ہی بڑے ہوتے ہیں۔جو دوسروں کی خدمت کر سکیں۔اس میں قصور ہے غربت کا، ہمارے حکمرانوں کی طرف سے بنائے گئے حالات کا جس نے ہمارے غریب طبقے کو اتنا مجبور کر دیا کہ وہ چند پیسوں کے لئے اپنے بچے بیچنے لگے۔اس میں قصور ہے ہم جیسے پڑھے لکھے جاہل لوگوں کا جو ہر وقت خواتین اور بچوں کے حقوق کا رونا روتے ہیں اور اپنے گھروں میں کمسن ملازمین ہی رکھنے کو ترجہی دیتے ہیں جو کم پیسوں میں ہر وقت دستیاب ہوں۔

اس میں قصور ہے ہمارے نام نہاد نظام کا جس کا قانون ہمارے بچوں کو تحفظ نہیں دے سکتا۔ یہ کہانی ایک رضوانہ کی نہیں ہے یہ کہانی ہے ان بے شمار بچوں کی جن کو دوسروں کی ملکیت میں کچھ معاوضے کے عوض دیا جاتا ہے اورپھر ان کی خبر تک نہیں لی جاتی کہ وہ کس حال میں ہیں۔اس طرح قصور ان والدین کا بھی ہے جو اپنی ذمہ داریاں اپنے بچوں کو سونپ کر انھیں زمانے کی گرم سرد ہواؤں کے سپرد کر دیتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے