غیر مسلموں کی تقاریر سننا!!۔۔۔

ایک تو میں اس سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا کے علاموں سے بہت تنگ ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کے علامے آپ کو ٹوٹر جس کا موجودہ نام ایکس ہے پر، فیس بک پر جگہ جگہ پڑے ملیں گے۔ ان کی ایک وافر تعداد واٹس ایپ کے گروپوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ جہاں یہ اپنے قیمتی علم کے کھردرے موتی اور اپنے انتہائی فضول قسم کے تجزیو ں کی گیس سے فضا کو مسلسل آلودہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات زیادہ اہم ہے کہ سوشل میڈیا پر پائے جانے والے اس ہجوم بیکراں میں چند مخلص لوگ بھی یقینا پائے جاتے ہیں لیکن ان کا معاملہ یوں نازک ہوجاتا ہے کہ وہ بیچارے صورتحال کوفقظ اپنے اخلاص اور نیک نیتی کے حساب سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ علم، کچھ مطالعہ اور کچھ جید علما ئے کرام اور مشائخ عظام کی صحبت بھی میسر ہوتی تو یقینا ماحول زیادہ سازگار ہوتا۔

بات شروع یہاں سے ہوئی کہ ایک واٹس ایپ گروپ میں ہمارے ایک انتہائی عزیز دوست نے ایک ہندو مذہبی موٹیویشنل سپیکر کی تقریر کے کچھ حصے پر مشتمل ایک ویڈیو پوسٹ کی اور کچھ دوستوں نے اسے بہت پسند کیا اور اس پر انگوٹھے بلند کیئے۔ نہ کسی کو پتا تھا کہ اس ویڈیو میں بولنے والی شخصیت کون ہیں اور نہ ہی کسی نے پوچھنے اور جاننے کی کوشش کی اور مجھے یقین ہے کہ چند ایک نے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے ترنت اسے کئی کئی جگہوں پر فارورڈ بھی کیا ہوگا۔ میں نے اس پر کمنٹ کیا کہ ” یہ ویڈیو ایک ہندو مذہبی اور موٹیویشنل سپیکر کی ہے اور اس کا مدعا اول آخرہندو مذہب کا پرچارہی ہے۔

مجھے آپ سب کی طرف سے کسی بھی پوسٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا نہ ہونا چاہیئے لیکن میرا اپنے حوالے سے صرف ایک کنسرن ہوتا ہے اور وہ کنسرن اپنے سب دوستوں اور پیاروں کے حوالے سے بھی ہوتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو اسلام کے خلاف ہے اور ہمارے اللہ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا تو میں اس کی بات کیوں سنو ں؟ کیا ہماری کتاب قران مجید ہیں کم ہے جس میں تمام زندگی کے لیئے مکمل ترین رہنمائی موجود ہے۔کیا ہمارے اپنے مذہبی رہنا کم ہیں ہمارے سننے کے لیئے؟ میرا کنسرن یہ ہے کہ کہیں میرا اللہ میرا رب مجھ سے ناراض نہ ہو اس کو نہ ماننے والے کو سننے پر۔دنیا کا تمام علم اور تعلیم قرآن میں موجود ہے۔

اگر میں یہ سوچوں کہ ہو سکتا ہے وہ کوئی اچھی بات کر رہاہو تب بھی میری اپنے مذہب سے محبت، میری اپنے رب سے اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری یہ گوارا نہیں کرتی کہ میں کسی ایسے شخص کی بات سنو ں یا اسے قابل توجہ سمجھوں جو میرے اللہ اور نبی کو نہیں مانتا” میرے اس کمنٹ کے جواب میں میرے محترم دوست فرمانے لگے کہ "میں آپ سے جزوی طور پر متفق ہوں۔ لیکن سچ پوچھیں تو جب میں پاکستان میں رہتا تھا تو میں بھی آپ کی طرح سوچتا تھا کہ تمام ہندو بُرے ہیں یہاں تک کہ باقی تمام مذاہب کی تعلیمات بالکل بری ہیں لیکن اب جب میں کثیر الثقافتی معاشرے میں رہتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ ہندو اور سکھ مسلمانوں سے زیادہ سخی ہیں اور خیراتی کام کرتے ہیں۔

تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پرہمیں سر گنگا رام اور دیا رام جیت میل وغیرہ کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ ہم بحیثیت مسلمان پوری دنیا اگر صرف زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دیں تو ہم تمام غریب مسلمانوں کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔اس قسم کے پنڈت اور تقریریں کرنے والے بھی اپنے پیروکاروں کو اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اسرائیل کے خلاف ہونے والے تمام مظاہروں میں سکھ اور عیسائی اور دیگر تمام کمیونٹیز ہمارے ساتھ کھڑی تھیں۔ مسلمانوں کو بھی ان دوسرے مذاہب کے لوگوں کی مشکلات میں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے” ۔ان کے اس جواب پر فورا ہی چند لوگوں کی تائید آگئی بلکہ ایک اورصاحب نے بھی اسی قسم کی بات کی کہ ہمارے لندن آفس میں بھی ہندو سکھ وغیرہ سب ساتھ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

میں اپنے "فاضل” دوستوں کے یہ جواب پڑھ کر سر تھام کر بیٹھ گیا کیوں کہ میں نے کچھ اور بات کی تھی جو صرف اس لیئے سمجھ نہیں سکے کہ اس وقت ان پر سمجھنے کے بجائے یہ احساس غالب آگیا تھا کہ میں نے اتنے دوستوں کی موجودگی میں ان کی پوسٹ پر اعتراض کیا ہے۔ انہیں جذبات میں صرف اعتراض نظر آیا اس میں بیان کی گئی بات انہیں سمجھ نہیں آئی۔

میں کسی غیر مسلم کو برا نہیں سمجھتا جب تک وہ اسلام کا دشمن نہیں ہے۔ جب تک وہ ہماری مذہبی اقدار کا دشمن نہیں ہے۔ قران مجید کی سورۃ الممتحنہ کی آیت 8میں اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت فرماتا ہے کہ وہ غیر مسلم جواسلام دشمن نہیں ہیں ان سے بھلائی کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔یہاں کنفیوژن دو مختلف چیزوں کا اکٹھا کرنے سے ہو رہی ہے۔ ان سے حسن سلوک ایک الگ چیز ہے اور ان کی تقریریں سننا، ان کے مذہبی تہواروں میں شامل ہونا ایک الگ چیز ہے۔ اللہ نے ان سے حسن سلوک سے منع نہیں فرمایا بشرطیکہ وہ اسلام کسے دشمنی نہ کر رہے ہوں۔ لیکن ان کے بیانات سننا کسی طور بھی مناسب اور عقلمندی نہیں ہے۔ الٹا اس میں دین کا خطرہ موجود ہے۔ ہم انسان ہیں فرشتے تو ہیں نہیں کیا پتا کب کس بات سے متاثر ہوجائیں اور اپنی دنیا و آخرت خراب کر بیٹھیں۔

قران مجید کی سورۃ انعام کی ایت 68میں کافروں، بے دینوں کی صحبت میں بیٹھنے سے منع کیا گیا اور فرمایا کہ ان کے پاس نہ بیٹھو اور اگر بھول کر بیٹھ جاو تو یاد آنے پر اٹھ جاوؐ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”آخری زمانہ میں جھوٹے دجال ہوں گے جو تمہارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو نہ تم نے سنیں، نہ تمہارے باپ داداوں نے، ان کو خود سے اور خود کو ان سے دور رکھو، وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں، فتنہ میں نہ ڈال دیں۔

یاد رہے کہ غیر مسلموں کی محفل میں جانے اور ان کی تقریر سننے سے سختی سے بچنا ہی مناسب ہے۔ بھلے وہ اپنی تقریر میں قران وحدیث کا حوالہ ہی کیوں نہ دے رہے ہوں، اچھی باتیں چننے کا زعم رکھ کر بھی انہیں سننا ہر گز جائز نہیں۔ عین ممکن بلکہ اکثر طور پر واقع ہے کہ گمراہ شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث کی شرح و وضاحت کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بے دینی کی بھی ملا دیا کرتے ہیں اور قوی خدشہ بلکہ وقوع کا مشاہدہ ہے کہ وہ باتیں تقریر سننے والے کے ذہن میں راسخ ہو کر دل میں گھر کر جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گمراہ و بے دین کی تقریر و گفتگو سننے والا عموماً خود بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف اپنے ایمان کے بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے۔امام محمد بن سیرین شاگردِ انس رضی اللہ عنہ کے پاس دوغیر مسلم آئے۔ عرض کی کچھ آیاتِ کلام اللہ آپ کو سنائیں! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی کچھ احادیث سنائیں! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اصرار کیا۔ فرمایا، تم دونوں اٹھ جاو یا میں اٹھا جاتا ہوں۔ آخر وہ مایوس ہوکرچلے گئے۔ لوگوں نے عرض کی: اے امام! آپ کا کیا حرج تھا اگر وہ کچھ آیتیں یا حدیثیں سناتے؟ فرمایا، میں نے خوف کیا کہ وہ آیات و احادیث کے ساتھ اپنی کچھ تاویل لگائیں اور وہ میرے دل میں رہ جائے تو ہلاک ہو جاوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے