وہ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی اخبارات پڑھتا تھا ، وہ انہیں ان سے بہتر سمجھتا تھا، لہذا اکتوبر 2023 میں اپنے فوجی آپریشن کو اتنے منظم طریقے سے پلان کیا اور موثر طریقے سے سر انجام دیا کہ آج دنیا 40 دن گزرنے کے بعد بھی حیران ہے۔
یحییٰ سنوار 2017 سے حماس کی قیادت کر رہے ہیں، جو 1980 کی دہائی کے اوائل میں تنظیم میں شامل ہوئے تھے۔
یحییٰ کو 7 اکتوبر کے حملوں کا معمار سمجھا جاتا ہے، وہ اسرائیل کو سب سے زیادہ مطلوب شخص ہیں – اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے مطابق ”وہ ایک مردہ ہے جو چل رہا ہے -“
یحییٰ نے 20 سال سے زیادہ عرصہ اسرائیلیوں اور ساتھی فلسطینیوں کو قتل کرنے کے جرم میں جیل میں گزارا ہے۔
اسرائیلی انٹیلجنس نے 61 سالہ یحییٰ کے کئی عرفی نام رکھے ہوئے ہیں جن میں“ The face of evil ، Butcher of Khan Younis اور The man with twelve faces ”
شامل ہیں – اسرائیل کے 12 مشتبہ مخبروں کے حوالے سے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں یحییٰ نے قتل کیا تھا جنہیں مارنے کا فتویٰ حماس کے بانی کی طرف سے دیا گیا تھا۔
یحییٰ 1962 میں جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے، انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جس کی بنیاد 1978 میں ان دو افراد نے رکھی تھی جنہوں نے تقریباً ایک دہائی بعد حماس کو قائم کیا۔
وہاں وہ خاص طور پر ان میں سے ایک عالم شیخ احمد یاسین کے قریب ہو گئے۔
یاسین اور محمود الزہر نے 1987 میں غزہ میں مقیم اخوان المسلمین کے سیاسی ونگ سے الگ ہونے والے گروپ کے طور پر حماس کی مشترکہ بنیاد رکھی تھی۔
اسرائیلی رپورٹس کے مطابق سنوار کا کہنا ہے کہ یاسین نے انہیں اسرائیلیوں کے ساتھ تعاون کرنے کے شبہ میں کسی بھی شخص کو قتل کرنے کا فتویٰ دیا تھا۔
یحییٰ کو پہلی بار 1982 میں تخریبی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسرائیلی جیل میں ان کی ملاقات حماس کے دیگر اہم ارکان سے ہوئی جن میں تنظیم کے عسکری ونگ قاسم بریگیڈز کے سابق رہنما صلاح شہادے بھی شامل تھے۔
1985 میں گرفتار ہونے اور دوبارہ جیل میں ڈالے جانے کے بعد یحییٰ کو حماس کی داخلی سلامتی کی شاخ مجد فورس کا انچارج بنا دیا گیا، جس کا کام غزہ اور تنظیم میں موجود ایسے مشتبہ فلسطینیوں جو اسرائیل کے لئے جاسوسی کر رہے ہوں کی تلاش اور انہیں ہلاک کرنا ہے۔
ڈاکٹر احرون بریگمین جو اسرائیلی فوج کا ایک سابق میجر ہے اور اب کنگز کالج لندن میں جنگی علوم اور عرب اسرائیل تنازعہ سمجھنے کے حوالے سینئر ٹیچر ہے کہ مطابق ”اسرائیلیوں نے کئی سال کوشش کی کہ وہ یحییٰ کو اپنےایک ساتھی کے طور پر اپنے ساتھ شامل کریں جس کے لئے انہیں بڑے پیمانے پر مراعات کی بھی پیشکش گئی تھی ، لیکن اس نے انکے ساتھ کبھی کام نہیں کیا۔ درحقیقت وہ اسرائیلوں کے ساتھ تعاون کرنے کے شبہ میں فلسطینیوں کو قتل کرنے کے لیے بدنام ہوا۔“
1988 میں یحییٰ نے اسرائیلی ڈیفنس فورس کے دو سپاہیوں کو اغوا کرنے اور قتل کرنے میں مدد کی جس کی وجہ سے اسے اسرائیلی جیل میں 22 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
قید ہونے کے باوجود سنوار نے وقت کا استعمال کیا اپنے دشمن کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے روانی سے عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیلی جیل میں حماس کے قیدیوں کا سرکردہ بن کر خود کو منوایا۔
اپنی قید کی سزا کے پندرہ سال بعد وہ اسرائیلی ٹیلی ویژن پر آیا اور عبرانی میں بات کرتے ہوئے حماس کے ساتھ جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
یحییٰ کو 2011 میں صرف ایک یرغمال اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے 1000 سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا گیا تھا ۔
اپنی قید پر تبصرہ کرتے ہوئے یحییٰ نے کہا تھا ”وہ چاہتے تھے کہ جیل ہمارے لیے قبر بنے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہماری مرضی، عزم اور جسمانی مشقت نے جیل کو عبادت گاہوں اور مطالعہ کے لیے اکیڈمیوں میں تبدیل کر دیا۔“
یحییٰ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ 2015 میں حماس کے ساتھی کمانڈر محمود اشتیوی کے تشدد اور قتل میں ملوث تھے۔
انہوں نے 2017 کے اوائل میں اسماعیل ہنیہ کی جگہ حماس کے رہنما کے طور پر لی اورایک قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے بعد 2021 میں حماس کے سربراہ کے طور پر دوبارہ منتخب ہوئے۔
بطور لیڈر یحییٰ نے تنظیم کی طرف سے اسرائیلوں کے خلاف مسلح جدو جہد کو تیز کیا ، سوشل میڈیا کا استعمال اور مربوط عوامی احتجاج کروانے کی پلاننگ کی ، اور اسرائیل پر وقتاً فوقتاً راکٹ فائر کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔
اپنے فوجی پس منظر کے ساتھ یحییٰ کو حماس کے مسلح اور سیاسی ونگز کو متحد کرنے والے ایک اہل اور قابل شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر بریگ مین ( ایک فوجی اسرائیلی پروفیسر ) یحییٰ کو“ A man of few words , A natural leader , Charismatic personality,
Master of Secret Manipulation
قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ یحییٰ کو 7 اکتوبر کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ اور ایسے شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے اسرائیلیوں کو ان کی سب سے خوفناک تباہی سے دوچار کیا۔ اسرائیل کی اس تباہی کو تاریخ میں فلسطینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے گا، اس خوفناک قیمت کے باوجود جو وہ اب ادا کر رہے ہیں اور ایک عظیم فتح کے طور پر ہی یاد رکھا جائے گا -“
ڈاکٹر بریگ مین نے لکھا ہے کہ ”حماس کے رہنما کو سیاسی معاہدے کے تحت کسی دوسرے ملک میں جانے کا محفوظ راستہ دینے کی پیشکش کی جا سکتی تھی، کیونکہ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سابق رہنما یاسر عرفات بھی 1982 میں تیونس گئے تھے۔
یحییٰ کی قسمت میں جو کچھ بھی ہو، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فلسطینی تاریخ میں ایک افسانوی شخصیت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔“