حماس کے اسرائیلی سر زمین پر داخل ہونے کے بعد غزہ کی صورتحال بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اسرائیلی فوج نے حماس کے حملے کے جواب میں حفاظتی اقدام کے نام پر غزہ پر جو شدید بمباری کی وہ جواب سے کئی گنا زیادہ سنگینی کی شکل اختیار کر چکی ہے کیونکہ اسرائیل نے ایک طرح سے غزہ پر جنگ مسلط کر دی ہے اور حماس کی اس حرکت کی آڑ میں معصوم فلسطینیوں کو لقمہ اجل بنایا جا رہا ہے۔
حالانکہ بین الاقوامی جنگی قوانین کے مطابق جنگ میں لڑائی صرف افواج کے درمیان ہوتی جبکہ عوام کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی ممانعت ہے۔ مگر اسرائیلی فوج سے جوابی حملے کے وقت یہ بات ملحوظ خاطر نہیں رکھی گئی۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق تقریباً 4,385لوگ غزہ جنگ کی شروعات سے آج تک شہید ہوئے ہیں۔200بچے بھی جنگ کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل فلسطین میں راکٹ حملے سے سو سے تین سو افراد شہید ہو گئے۔ بلا شبہ جنگ اور اس کے نقصانات کا ذمہ اسرائیل کے سر جاتا ہے مگر جب حریف بہ ظاہر مضبوط ہو تو جنگ بہترین ترجیح نہیں۔
قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ کا جنگ کے علاؤہ مسلمانوں کی مدد کے لیے ان کے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے اور معاشی مدد کا بھی حکم ہے۔ اگر حماس اسرائیل کی سرحد عبور نہ کرتا تو آج فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کی جانب سے اس قہر کا سامنا نہ کرنا ہوتا۔
بلا شبہ حماس کے حملے سے پہلے بھی صورتحال کچھ خاطر خواہ بہتر نہ تھی مگر حملے کے بعد فلسطینیوں کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ جس کا اثر وسائل میں کمی، جان و مال کے نقصان اور دیگر زندگی کے شعبہ جات میں نمایاں ہے۔ حماس کے حملے کے کچھ روز بعد اسرائیلی وزیر توانائی کاٹز نے اعلان کیا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین کو مہیا ہونے والی پانی اور بجلی کی فراہمی حماس کی گرفت میں اسرائیلی مغویوں کی بازیابی تک روک دی گئی ہے۔
بالفرض حماس کا حملہ بقا کے لئے بھی تھا تب بھی یہ فلسطینیوں کی بقا کے برعکس ثابت ہو رہا ہے اور آگے بھی انتشاری اقدام سے کوئی خاص نتیجہ حاصل نہیں ہو گا۔ حالات میں بہتری کے لئے صرف بات چیت کا راستہ اپنایا جا سکتا ہے۔ لڑائی کسی صورت مسئلے کا حل نہیں۔
دوسری جانب پاکستانی عوام ہے جو مسلمان بھائیوں کی مدد کے نام پر حماس کے حملے کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں اور جنگ لڑنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں جبکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں مسلمان بھائیوں پر مظالم کی صورت میں اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ لڑائی کے علاؤہ مسلمانوں کی معاشی امداد بھی کی جا سکتی ہے اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے اور پاکستانی قوم ان دونوں باتوں کی متحمل رہی ہے مگر مخصوص گروہوں کی جانب سے انتشاری اقدامات یا جنگ میں حصہ لینے کی بات کی جا رہی ہے مگر یہ حالات کے پیش نظر مناسب نہیں کیونکہ پاکستان خود معاشی بحران کا شکار ہے اور بہت کچھ ٹھیک کرنا باقی ہے۔
ایسے میں ہماری بساط جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دیتی جبکہ ہم مالی اعتبار سے بھی کمزور ہیں۔ مزید یہ کہ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ انسانی بنیادوں پر سمجھا جانا چاہیے۔ اس معاملے کو مذہبی رنگ دے کر جنگ کو بڑھاوا دینا جائز نہیں کیونکہ دنیا بھر میں غیر اسرائیلی یہودی بھی فلسطینوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں چنانچہ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ مسئلہ فلسطین دو ریاستوں کے مابین ایک تنازعہ ہے نہ کہ دو مذہبوں کے درمیان لڑائی۔
مگر اسی بات کو سوچنے کی ضرورت فلسطینی ریاست کو بھی ہے کہ آیا اسرائیل سے جنگ درست فیصلہ ہے یا پھر ان کو بات چیت اور مزاکرات کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ معاملات طے کرنے چاہیے تاکہ معصوم شہریوں کی جانوں کا ضیاع بھی نہ ہو اور معیشت بھی صحیح ڈگر پر چل پڑے۔ قرآن کے اصولوں کے مطابق بھی یہی روش اختیار کرنی بنتی ہے جہاں آپ کی بساط مسلمانوں کے تحفظ کے لئے جنگ درکار نہیں کرتی وہاں دوسرے راستے اپنانے چاہیے۔
جہاں تک بات ہے اسرائیل کی یہ لڑائی انا کی جنگ معلوم ہوتی ہے کیونکہ دونوں کی طویل مدت سے جاری لڑائی میں سے اسرائیلی عوام کو باوجود ترقی یافتہ ہونے کے بھی دودھ اور شہد کی ندیاں نہیں حاصل ہوئیں۔ بہتر ہے کہ اس انا کی جنگ کو ختم کر کے دونوں فریقین اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور ضروری فیصلے لیں۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ امریکہ جیسی ذمہ دار عالمی طاقت دو ریاستوں میں جنگ رکوانے کی بجائے اسرائیل کی حمایت کر کے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہی ہے۔
جب کہ اس کو بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے اور معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔
جنگ کے ہر پہلو کی نشاند دہی ضروری ہے تاکہ صورتحال پر ہر لحاظ سے قابو پایا جا سکے اور دو طاقتوں کی انا کی چکی میں معصوم لوگ مزید نہ پسیں۔ لڑائی سے صورتحال میں صرف بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے جیسا کہ موجودہ حالات سے واضح ہے، بہترین حل صرف بات چیت ہے۔