مذہبی انتہا پسندی

ایک ایسی ریاست جہاں مذہبی انتہا پسندی پر سب سے پہلے آواز اٹھائی جاتی ہو ، جہاں قرآن مجید کی توہین یا مساجد جلائے جانے والے واقعات پر ملک گیر احتجاج ہوتی ہو اور جہاں خواتین کی حجاب پر پابندی جیسے اقدامات کی پر زور مذمت کی جاتی ہو وہاں دوسرے مذاہب کی سرعام توہین کرنا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

پاکستان مذہب اسلام پر وجود میں آنے والی ایک بہت بڑی ریاست ہے۔ کھلے عام اسلامی تعلیمات کی منافی کرنا ہم پاکستانیوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست کے باشندے اس قسم کی شدت پسندی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس بات پر کوئی ابہام نہیں کہ پاکستان کی ابتداء سے ایسے واقعات جنم لیتے آئےہیں،مگر دور حاضر میں یہ روز بہ روز شدت اختیار کر رہے ہیں۔

سویت یونین ٹوٹنے کے بعد 80ء کی دہائی میں کئی جہادی گروپس ،مدارس اور اسکول آف تھوٹس تشکیل میں آئے، ان میں لشکر جھنگوی ،لشکر طیبہ،تحریک طالبان پاکستان،جیش محمد مدارس میں مرکز الدالارشاد،حزبلاطاہر وغیرہ لیکن سب اسلام کے اصل مقاصد اور تعلیمات کو مسلمانوں تک پہنچانے میں ناکام رہے اور مسلمانوں کی منفی ذہن سازی کی فرقوں اور دوسرے مذاہب کے حوالے سے اور ان مسلح گروہوں کے اثرات آج تک مرتب ہو رہے ہیں، فیصل آباد اور جڑانوالہ جیسے سانحات کی شکل میں۔

حقائق کے مطابق توہین مذہب کی بنیاد پر 19 سے زائد گرجا گھروں کو جلایا گیا اور درجنوں مکانات بھی جلائے گئے اور سینکڑوں مسیحیوں کو بے گھر کردیا گیا۔ ایسے واقعات پاکستان میں نہ پہلی بار ہوئے ہیں اور نہ ہی آخری ، اس قسم کے شدت پسندی کے واقعات کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ بہت وسیع ہے۔ اگر ہم چند سالوں کی بات کریں تو صرف کچھ سالوں میں ایسے کئی دردناک سانحات پاکستان کی تاریخ کا حصہ بنے ہیں۔

مشال خان کو اسی بے دردی سے توہین مذہب کا الزامات لگا کر قتل کر دیا گیا،سری لنکن منیجر پریانتا کمارا کو توہین رسالت کے الزام میں مشتعل ہجوم نے قتل کر دیا۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ تھم نہ سکا اور حال ہی میں بلوچستان کے علاقے تربت میں ایک 22 سالہ نوجوان ٹیچر عبد الرؤف کو شدت پسندی اور انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھایا گیا اور قاتل ابھی بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ صرف چند سالوں میں ایسے واقعات کا رونما ہونا پوری دنیا میں پاکستان کی رسوائی کا سبب بن رہا ہے۔ ایسے واقعات کیوں جنم لے رہے ہیں،اس کی بنیادی وجہ کیا ہو سکتی ہے اور کئی ایسے واقعات ملک کے خلاف سازش تو نہیں؟

ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنا ملکی مفاد میں ہے۔ ان مشکل حالات میں جس وقت پاکستان سنگین سیاسی،معاشی اور امن و امان کی صورتحال سے دو چار ہے، ایسے واقعات کا رونما ہونا آ گ میں مزید تیل چھڑکا نے کے مترادف ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صرف ہمارے حکمران اور نہ ہی صرف پولیس فورس ان کی اصل زمہ داران میں آتے ہیں بلکہ بہت سے دیگر عناصر کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ اول تو ہمارے گھروں میں بھی ہمیں یہ تعلیم نہیں دی جاتی کہ ہم پر ہر مذہب اور فرقے کا احترام لازمی ہے اور دؤم ہمارے تدریسی ادارے ( اسکول اور مدارس) میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جا تا ہے،اس ناسور سے نپٹنے کے لیے تعلیمی اداروں میں یہ تعلیم عام کی جائے کہ اسلام انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے سخت خلاف ہیں۔

نوجوانوں میں سب سے زیادہ شعور کی بیداری کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے واقعات میں زیادہ تر ہماری نوجوان نسل ملوث ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ اس بات کی مکمل شہادت دیتی ہے کہ مذہب اور عقائد کے نام پر جتنی شدت پسند اور دہشتگردی پاکستان میں ہوئی ہے وہ شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں ہوئی ہو۔ ہماری ریاست نے اس حوالے سے بے شمار جانی ومالی نقصانات اٹھائے ہیں۔ اگر ریاست کی مشینری ان کو روکنے میں ناکام رہی تو ملک کی بچا ہوا وقار بھی مٹی میں مل جائے گا اور اس کی جڑوں کو مزید کھوکھلہ کرتا جائے گا۔

مذہبی شدت پسندی سے نمٹنے کیلئے پوری قوم کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا ،چاہے وہ ریاستی ادارے ہوں ،عوام یا میڈیا۔ چنانچہ یہ میڈیا کا دور ہے تو ہمارا میڈیا اس سلسلے میں سب سے بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف سب کو ہم آواز ہونا چاہیے کیونکہ اس اقدام میں ملک کی خوشحالی ہے،ایک متفقہ مشترکہ بیانیہ کی ضرورت ہے۔ ملک سے سب سے پہلے طبقاتی نظام،فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑنے اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ قائد اعظم کے وژن کو جو اس ملک کے اقلیتوں کے متعلق تھی اسے گھر گھر پہنچانے کی ضرورت ہے۔ بقول قائد اعظم محمد علی جناح "چاہے آپ کسی بھی ذات پات ،فرقے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اسکا ریاست پاکستان سے کوئی تعلق نہیں وہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے اس ملک میں ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم سب مل کر پاکستان کی خدمت کرں گے”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے