مصر میں سیاحتی شادیوں کا قانون

مصر نے سیاحت کے فروغ کے لیے عارضی یا سیاحتی شادی کے خواہاں غیر ملکیوں کے لیے پہلے سے مروج قانون میں بعض ترامیم کی ہیں جس کے تحت اگر کوئی غیرملکی خود سے پچیس سال یا اس سے زیادہ عمر کی چھوٹی مصری عورت /لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اس کو اس خاتون کے نام پر مصر کے نیشنل بنک میں پچاس ہزار مصری پاؤنڈز (6383 ڈالرز) جمع کرانا ہوں گے۔

یہ ”سیاحتی یا موسمی شادی” کا قانون کہلاتا ہے۔یہ قانون مصر میں چھٹیاں گزارنے یا سیر وسیاحت کے لیے آنے والے غیرملکیوں کی اپنے سے کہیں کم عمر مصری لڑکیوں سے شادیوں کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ایسی شادیاں کرنے والے غیر مصری مرد حضرات اپنے قیام کی مدت کے خاتمے پر بالعموم اپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں۔

مصری حکام اس قانون کو خواتین کے مالی مفادات کے تحفظ کا ضامن قرار دیتے ہیں لیکن انسانی حقوق کے گروپوں نے اس پر کڑی تنقید کی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ قانون دراصل انسانی تجارت اور اسمگلنگ کو سہولت فراہم کرنے کی ایک ملفوف صورت ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نحاد ابوالقمسن نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس قانون کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اس قانون میں وقت کے ساتھ ترامیم ہوتی رہی ہیں۔ یہ قانون 1976ء میں نافذ کیا گیا تھا۔ابتداء میں مصری خواتین اور غیرملکی مردوں کے درمیان عمروں کا فرق 25 سال سے زیادہ ہونے کی صورت میں شادی نہیں ہوسکتی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ 1993ء میں اسلامی گروپوں کے دباؤ پر یہ پابندی ختم کردی گئی تھی۔البتہ یہ شرط عاید کی گئی تھی کہ خاوند کو 25 ہزار مصری پاؤنڈز بیوی کے نام بنک میں جمع کرانا ہوں گے۔سنہ 2004ء میں یہ رقم بڑھا کر 40 ہزار پاؤنڈز اور 2015ء میں 50 ہزار پاؤنڈز کردی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مصر کا عدالتی نظام ایسی شادیوں کو روایتی بندھن کے طور پر دیکھتا ہے حالانکہ درحقیقت سیاحتی شادیوں کو”قانونی قحبہ گری” کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔انھوں نے مزید بتایا کہ غیرملکی مرد قانونی مسائل سے بچنے کے لیے شادی کے معاہدے پر دستخط کرتے ہیں اور لڑکی کا خاندان رقم وصول کر لیتا ہے۔اس طرح بعض اوقات تو ایک لڑکی کو ایک ماہ میں دو یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ بیاہ دیا جاتا ہے۔
ردعمل

مصر کے مواصلاتی ترقی مرکز کے ڈائریکٹر نجلع العدلی کا کہنا ہے کہ اس قانون میں اس حقیقت کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا ہے کہ اس طرح کی شادیاں بالعموم خفیہ طریقے سے کی جاتی ہیں اور بعض لڑکیوں کی شادی کے وقت عمر اٹھارہ سال سے بھی کم ہوتی ہے۔پھر اگر لڑکی کم عمر نہ بھی ہوتو اس طرح کی شادیوں کا آغاز میں اندراج نہیں کیا جاتا ہے۔

مصر کی قومی کونسل برائے خواتین کی رکن ثناء السعید کا کہنا ہے کہ اس قانون نے مصری خواتین کو ایک مہنگی بازاری جنس بنا دیا ہے۔اس قانون سے محض لذت پسندی کے لیے شادیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔مزید یہ کہ اگر کوئی لڑکی حاملہ ہوجاتی ہے تو اس کو اس 50 ہزار پاؤنڈز سے کیا فائدہ ملے گا؟

ملک میں شخصی حقوق کے لیے کوشاں ایک تنظیم کے مطابق یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ رقم کی مالیت بڑھانے سے سیاحتی شادیوں کے خاتمے میں مدد ملے گی۔تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جو کوئی پہلے اس عارضی شادی کے لیے ہزاروں پاؤنڈز ادا کررہا تھا تو وہ اب مزید چند ہزار اور بھی ادا کردے گا۔ دلال مزید رقوم دینے والے مردوں اور غریب خاندانوں کو تلاش کر لیں گے۔

یونین برائے عرب خواتین کی ڈائریکٹر ہدیٰ بدران نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور بہت سے غیرملکیوں کے لیے تو 50 ہزار مصری پاؤنڈز کچھ بھی نہیں۔ان میں سے بعض تو اتنی رقم رات کے چند ایک کھانوں پر ہی اڑا دیتے ہیں۔

فلسفۂ اسلام کی پروفیسر اور پارلیمان کی رکن آمنہ نصیر نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اگر ملک سے اس صورت حال کا خاتمہ مقصود ہے تو پھر ایک بالکل مختلف قانون نافذ کرنا ہوگا۔اس قانون کے تحت اس طرح کی شادیوں کی بالکل ممانعت ہونی چاہیے اور جو والدین اپنی لڑکیوں کو بیچنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں،انھیں سزائیں دی جانی چاہییں۔

مصر کے سوشیالوجسٹ سینڈیکیٹ کے وائس چئیرمین عبدالحمید زید کا کہنا ہے کہ یہ قانون دراصل ریاست کی ناکامی کا مظہر ہے۔وہ اس طرح کی مظہریت کے بنیادی اسباب کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے،وہ لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے اور انسانی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کے بجائے اس بات کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کہ عورتوں کے ساتھ ایک بازاری جنس کے طور پر معاملہ کیا جاسکتا ہے۔

بعض مصری خواتین نے اس قانون کی حمایت بھی کی ہے۔قومی کونسل برائے خواتین کی رکن عزا ہیکل کا کہنا ہے کہ اگر شادی کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس طرح لڑکی کے نقصان کا اس رقم سے ازالہ ہوجاتا ہے۔اس سے اس کی مالی مدد ہوجاتی ہے۔ان کے بہ قول سیاحتی شادی کے لیے رقم بڑھا کر ایک لاکھ پاؤنڈز کی جانی چاہیے۔

عزا ہیکل نے اس دعوے پر بھی اعتراض کیا ہے کہ اس قانون سے انسانی تجارت کی توثیق ہوتی ہے کیونکہ رقم نوجوان دوشیزہ کو ملنے کے بجائے اس کے خاندان کے پاس چلی جاتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ”اس لڑکی کے خاندان کو اس رقم تک رسائی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ یہ رقم ”سیاحتی شادی” کرنے والی لڑکی ہی کو ملے”۔

سماجیات کے پروفیسر سعید صادق کا کہنا تھا کہ بنک میں جمع کرائی جانے والی رقم سے بیوی کے مفادات ہی کا تحفظ ہوتا ہے۔اس طرح اس کا خاندان رقم کو اپنے پاس رکھ سکے گا اور اس لڑکی کا خاوند اس پر رقم کی واپسی کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکے گا۔

مصرکی وزارت انصاف کے ترجمان حامدی موعود نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”قانون میں بیوی کے حقوق کے تحفظ کے لیے بعض دوسری ترامیم بھی متعارف کرائی گئی ہیں۔مثال کے طور پر قانون میں یہ قدغن موجود ہے کہ خاوند اپنے سفارت خانے کے ذریعے دستاویزات جمع کراتا ہے اور ان میں اس کی آمدن ،خاندان اور اس کی ذات سے متعلق تفصیل درج ہوتی ہے۔اگر کوئی بھی دستاویز شامل نہ ہو تو پھر وہ وزیر انصاف کو ایک درخواست لکھتا ہے۔اس کی بنیاد پر وزیرعدل یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا اس شخص کو دستاویزات فراہم کرنے سے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے یا نہیں”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے