کیا مرد ناسمجھ ہے یا کمزور کہ جری عورت اور زہین عورت کے موجود ہونے کے خیال تک کو برداشت نہیں کر سکتا ؟ کیا عورت کو اپنے برابر ماننے والے مرد "بے غیرت ” ہیں ؟ کیا مردوں کے بھی صنفی مسائل ہیں ؟ کیا عورت بھی عورت کی دشمن ہے اور پدر سری رویہ رکھ سکتی ہے ؟ بری عورت اور بہادر عورت کیا ایک ہیں ؟ عورت کی بد کرداری کیا ہے ؟ کیا کردار صرف عورت کا ہونا چاہے ؟ کیا ماضی صرف عورت کا ہوتا ہے، مرد کا نہیں ؟دو سال کی بچی کیوں ریپ ہو کر قتل کر دی جاتی ہے ؟ ہم کیوں اپنے معاشرے میں جنسی اور صنفی تشدد کے ہونے کو تسلیم نہیں کرتے ؟ فیملی پلاننگ ‘ ایڈز اور بڑھاپے سے منسلک مشکلات کی صنفی جہتیں کیا ہیں ؟ کیا خودمختار عورت ایک وارننگ سائن ہے، ہمارے فیملی سسٹم کو تباہ کرنے کے لیے ؟ گھر کے کاموں کو جو عورتیں کرتی ہیں، اس کو کام کیوں نہیں گنا جاتا ؟
ایسے ہی اور اسی طرز کے ان گنت سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لئے میں نے یورپ میں اپنے پبلک ہیلتھ کی پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے لکھے گئے تھیسس جس کا عنوان تھا "مین: پاٹنرسز نوٹ ماسٹرس -ٹوورڈ جینڈر ایکوالٹی ان پاکستان (Men:Partners Not Masters, Toward Gender Equality in Pakistan) —- کو بنیاد بنا کر پی ٹی وی کے لئیے ایک نجی سیریز بنائی.یہ بات ہے سن 1999 کی . جس کو مرد اور عورت کے حوالے سے اور وہ بھی نوجوان نسل کے لئے پی ٹی وی کی تاریخ کا پہلا پروگرام قرار دیا گیا اور 2001 میں 19 حصّوں پر مشتمل اس سیریز کو حسن کارکردگی کا ایوارڈ بھی دیا گیا . پچیس سال ہوگئے . صدی تک بدل گئی نہ بدلے تو یہی بنیادی سوالات اور اخلاقیات اور مذہب کے خود ساختہ ٹھیکے داروں کے لا یعنی اعتراضات اور گھٹیا تاثرات . گو کہ اب پی ٹی وی جیسے ریاستی ادارے تک کے سینسر کوڈ میں نرمی نظر آنے لگی ہے اور بظاہر ایسا محسوس ہونے لگا ہے یا کسی طرح ہمیں یہ باور کروا دیا گیا کہ صنفی امور پر بہت توجہ ہے اور عورتوں کی حیثیت اور معیشت میں بڑی خوشگوار تبدیلی آچکی ہے .
خوش شکل صورتوں اور خوش نما رپورٹس کی خیرہ کر دینے والی دنیا سے ہٹ کر آیئے ذرا حقائق کی جانب ایک نظر ڈال لیں . یو این کی جاری کردہ خبر کے مطابق جس رفتار سے خواتین کے لئیے ایک مساوی اور عادلانہ دنیا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے "محض ” تین صدیوں میں پدر سری کا خاتمہ ہو جائے گا. ورلڈ اکنامک فارم کی 2023 میں جاری کردہ سالانہ رینکنگ کے مطابق دنیا کے 146 ملکوں میں پاکستان کا نمبر صنفی برابری میں 142 واں ہے.
معاشرہ اور ریا ستی ادارے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں نا کام ہیں. کسی بھی ناخوشگوار تجربے میں خاتون کو ہی دوش دیا جاتا ہے . تھانہ کلچر ایسا ہے کہ عام طور پر گھروں میں سلطان راہی کی طرح ایکشن ہیرو یا مصطفیٰ قریشی جیسا ولن نظر آنے والے بھی اس کوچے میں جانے سے گھبراتے ہیں . ملکی وقار سے لے کر خاندانی عزت کا سارا بوجھ اس عورت پر ہوتا ہے، جس کو اپنی زندگی کےفیصلے تک کا اختیار نہیں ہے. اکثریت کو اس محرومی کا ادراک تک نہیں . جن کو اپنے فون کی ا ونر شپ نہیں ملتی، ان کو جائیداد میں کیا حصّہ ملے گا ؟ اسی کشمکش بھری الجھی بکھری صورت حال میں پھر بھی کئی عورتیں چاہے دیہات کی ہوں یا شہری علاقوں کی، قابل ستائش بھی اور ناقابل یقین کارنامے انجام دے دیتی ہیں . کچھ ہی ہیں جن کو اس پورے پراسس میں گھر کے مردوں یا دفتر کے مرد کولیگس کا تعاون حاصل رہا ہوگا.
بے شمار قابل حل اور ناقابل فہم مسائل میں گھری ایک عام پاکستانی عورت کا ایک اہم ترین معاملہ بے خطر،بے ضرر اور بھروسے والی سفری سہولت بھی ہے . خواتین کا آزادانہ اور محفوظ سفر ابھی تک ایک پیچیدہ قضیہ ہے . کبھی صرف خواتین کے لیے مختص یا الگ ٹرانسپورٹ جیسے کہ پنک بس کی سکیم لائی جاتی ہے، کبھی نجی گاڑیوں کی سروس، جو اکثر امرا کے بچوں کی سٹارٹ اپ ہوتی ہیں اور جو ا یپس/ aaps کے تحت ہیں. کویرج اور تسلسل کی علاوہ ان میں بھی ہراسگی کی بے حساب شکایات ہیں. حاکمانہ متعصب مردانہ ذہنیت کا تسلط ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی ہے . اول تو بہت کم خواتین کو گھر سے اپنی مرضی سے نکلنے کی "اجازت ” ہوتی ہے . جو آسانی سے یا لڑ جھگڑ کر یا دلائل سے بات منوا کر گھر سے بازار میں خریدو فروخت ، تعلیم ، معاش یا علاج کی غرض سے اپنے لیئے یا خاندان کے لئیے نکلتی بھی ہیں، ان کو بےتحاشا مشکلات کا سامنا ہے، جس کو ہراسگی اوربے انصافی کی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے . اپنی سواری صرف چار نہیں بلکہ دو پہیوں والی گاڑی یعنی سکوٹی یا موٹر بائیک بھی ہو سکتی ہے . کئی غیر سرکاری اور سرکاری پروجیکٹس کی وجہ سے اب سڑکوں پر دور دراز کے علاقوں میں بھی خواتین ان سواریوں پر نظر آرہی ہیں. بلاشبہ یہ ایک خوبصورت اور با معنی تبدیلی ہے اور اس کی بدولت زندگی کے کئی دشوار، راستے آسان ہوں گے . لیکن بیمار ذہنوں کو اس میں بھی شرافت کی ہلاکت نظر آرہی ہے . ایسے بھی ہیں جو بہت دھیمے لہجے میں سرپرستانہ انداز لئیے گھگھیا رہے ہیں کہ بچیوں کی مجبوری ہوگی ،شوق تو نہیں لہٰذا، انہیں مت چھیڑیں.
اطّلاعًا عرض ہے کہ ہم خواتین ایک عدد بچہ دانی کہ علاوہ ایک کام کرنے والا مکمّل دماغ بھی رکھتی ہیں. جس کو آپ میں سے کئی مرد حضرات ایک متعفن یرقان زدہ جنسی لذت یا چسکا حاصل کرنے کی لیے سمجھ دانی کہتے ہیں . اور اس لفظ کو جب چبا چبا کر معنی خیز انداز میں ادا کرتے ہیں تو خوب ٹھٹھ لگتا ہے اور صاحب بدذوق خوب خوب داد پاتے ہیں . بہت سوں نے یہ منظر اکثر معقول نظر آنے والے موقع محل پر دیکھا ہوگا . ہم عورتوں کو پورا حق ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے سجھداری کے ساتھ بسر کریں . ہمیں اب اجازت کی ضرورت نہیں ہے . ہمیں رشتوں کے عدسوں سے بھی دیکھنا ختم کریں اور ایک مکمّل اور برابر کے انسان کے طور پر مان لیں. آپ سب کو ذہنی آرام اور اطمینان حاصل ہوگا .
مکرو فریب پر مبنی عزت کے تصور کو مذہب اور مورے لیٹی کا منجن بنا کر بیچنا بند کریں. بہت سا سکون خود بخود بغیر جمہوریت کے حسن کے بھی ہمارے پاکستان میں پھیل جائے گا . ہماری بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی محنت کو ہماری بغاوت نہ سمجھا جائے .ہم بہادر عورتیں ہیں بااختیار ہونے کی تگ و دو میں ہیں. اپنے حق کو استعمال کرنا نہ تو گمراہی ہے اور نا ہی کوئی بدکرداری . بر ا ہ کرم اپنی سوچ کو صحیح اور صاف رکھیں .شائد آپ کو محال لگے مگر یہ ممکن ہے .
ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔