محنت کر، حسد نہ کر!

میرے ایک دوست ہیں حاسدوں سے بہت ڈرتے ہیں گھر سے کسی دن اچھے کپڑے پہن کر نکلیں اور انہیں دور سے بھی کوئی حاسد نظر آجائے تو موصوف وہاں سے دوڑ لگا دیتے ہیں۔ کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھانے کیلئے جائیں اور وہاں کسی ٹیبل پر انہیں کوئی حاسد نظر آ جائے تو الٹے پائوں واپس آ جاتے ہیں اور ماسی برکتے کے تنور سے کھانا کھانے نکل پڑتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال یقیناً پیدا ہو گا کہ انہیں پتہ کیسے چلتا ہے کہ فلاں بندہ ان سے حسد کرتا ہے۔ خود میرے ذہن میں بھی یہ سوال تھا چنانچہ ایک دن میں نے ان سے اس کا جواب مانگ لیا۔

انہوں نے اس حوالے سے کئی مثالیں دیں مثلاً یہ کہ ایک دن وہ غیر معمولی طور پر حسین لگ رہے تھے اس دوران ایک دوست سے انکی ملاقات ہوئی تو واپسی پہ انکا پائوں پھسل گیا اور پائوں میں موچ آ گئی۔ اسکے بعد انہوں نے اس دوست کے علاوہ ان سب لوگوں کو بھی حاسدوں کی فہرست میں شامل کر لیا جنہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے تصویر دیکھی ہے اور آپ شہزادے لگ رہے ہیں!حاسدوں کی نظر بد کا شکار ہونے والے صرف یہی ایک دوست نہیں ہیں بلکہ ان جیسے لاکھوں کی تعداد میں ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں اور انہی لوگوں کے طفیل عاملوں کا کاروبار روز افزوں ترقی پاتانظر آتا ہے۔ہم لوگ معمولی معمولی حادثوںاور چھوٹی بڑی ہر ناکامی کو حاسدوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔میں اس قماش کے لوگوں سے جب ملتا ہوں تو یہ کہتا ہوں بھائی انسان کے پائوں میں موچ بھی آسکتی ہے۔اسے نزلہ زکام بھی ہو سکتاہے اسے زندگی میں پے در پے ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتاہےلیکن اگر یہ حاسدوں کا کیا کرایا ہے تو جوکامیاب لوگ نظر آتے ہیں جب یہ کامیابی کی طرف گامزن تھے تو حاسد ان کا کیوں کچھ نہ بگاڑ سکے۔

اس کا عمومی جواب یہ ہوتا ہے کہ جناب یہ لوگ دو نمبری کاموں سے آگے آئے ہیں ہم تو ان ہتھکنڈوں سے واقف نہیں اور ﷲ نہ کرے کہ ہم کبھی واقف بھی ہوں۔ انکا یہ جواب سن کر دل میں خوب ہنستا ہوں کہ خود انکے اپنے سب ہتھکنڈوں سے میں پوری طرح واقف ہوتا ہوں۔اپنی نااہلیوں کو دوسروں کے کھاتے میں ڈالنا اور دوسروں کی اہلیت کو دو نمبر ی کا نتیجہ قرار دینے سے وہ اپنی تشفی تو شاید کر لیتے ہیں مگر یہ سوچ انسان کو کبھی آگے نہیں جانے دیتی۔ اس صورتحال کا ایک حصہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ میں نے ایسے کئی کروڑ پتی دیکھے ہیں جو بدترین زندگی گزار رہے ہیں کہ کہیں حاسدوں کی بُری نظر کا شکار نہ ہوجائیں۔ان میں ایک صاحب نے ویسے تو تین کروڑروپےکی کار رکھی ہوئی ہے مگروہ اسے گیراج میں تالہ لگا کر’’قید‘‘کئے رکھتے ہیں اور خود رکشے پر آتے جاتے ہیں۔ دوایک دفعہ تو میں نے انہیں رکشے کی پچھلی نشست پر دوسرے مسافروں کے ساتھ سینڈوچ بنے بھی دیکھا ہےوہ جو کپڑے پہنتے ہیں وہ دور ہی سے دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کپڑے ان سے پہلے کسی اور نے بھی پہنے ہوئے ہیں۔

یہ بڑے بدقسمت لوگ ہیں کہ انکی اولاد کے کان انکی ’’وفات حسرت آیات‘‘کی خوشخبری سننے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔میں نے زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے ہیںتھوڑی تنخواہ میں بھی صاف ستھرے کپڑے پہنے ہیں اور زیادہ تنخواہ میں اس سے زیادہ بہتر کپڑے بھی پہنے ہیں بہتر زندگی بھی گزاری ہےمیں ایک معاملے میں بہت ظالم واقع ہوا ہوںمجھے اگر یقین ہو جائے کہ کوئی شخص طبعاًحاسد ہے تو اس کے حسد کو نہ صرف یہ کہ بہت انجائے کرتا ہوں بلکہ اس کے حسد میں اضافے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتا ہوں بلکہ ایک دفعہ ایسے ایک صاحب کے ساتھ تو میں نے خاصا ’’غیر انسانی‘‘ سلوک بھی کیاتھا۔میں ایک دفعہ ان سے ملنے گیا تو سخت پریشانی کے عالم میں مجھے مخاطب کیا اور کہا’’آپ کو پتہ چلا ہے؟‘‘ میں گھبرا گیا کہ ﷲ جانے کیا ہو گیا ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں کیا ہوا؟ بولے، ارشد کو جانتے ہونا؟

میں نے کہا بہت اچھی طرح۔ کہنے لگے بہت معتبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ وہ روزانہ صبح پھلوں کا جوس پیتا ہے۔یہ سن کر مجھے آگ لگ گئی مگر میں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے انہیں تنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔میں نے کہا جناب آپ تو بھولے بادشاہ ہیں،آپ کو تو پتہ ہی کچھ نہیں میں نے ابھی کل اسے لکشمی چوک میں کڑاہی گوشت بھی کھاتے دیکھا ہے۔یہ سن کر ان کا رنگ پیلا پڑگیا۔ مگر اس روز میں انہیں پوری طرح تنگ کرنے پر تُلا ہوا تھامیں نے جان بوجھ کر پہلے مہنگائی کا ذکر شروع کیاپھر اپنی کالم نگاری کی کتابوں کی رائلٹی اور شاعروں کے اعزازی معاوضے کو چار سے ضرب دے کرپوچھا ’’یہ کتنے پیسے بنے ؟‘‘

اس دوران ان کے سانس کی رفتار خاصی تیز ہو چکی تھی۔ بولے ’’بہت زیادہ ،اتنے پیسوں کا تم کیا کرتے ہو؟‘‘ میں نے مہنگائی کی بات تو پہلے ہی چھیڑی تھی،چنانچہ کہا اتنے تھوڑے پیسوں سے کیا بنتا ہے اس کے بعد میں نے جیب سے دولاکھ روپے نکالے جو کمیٹی کے تھےاور جس کی کمیٹی نکلی تھی اسے پہچانے جا رہا تھا اور ساتھ ہی کہا یہ آپ دولاکھ روپے دیکھ رہے ہیں بس، گھنٹے بعد ختم ہو جائیں گےاس کے بعد مجھے کوئی چیز گرنے کی آواز آئی یہ چائے کا کپ تھاجو اتنی بڑی خبر کا بوجھ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے نیچے جا گر اتھا!اور آخر میں یہ کہ حاسدوں سے ڈریں نہیں بلکہ آتے جاتے انہیں ڈراتے رہا کریں۔ میں اپنی ایک بات دہرا رہا ہوں کہ تمام گناہوں میں سے حسد واحد گناہ ہے جس کے مرتکب کو اسی وقت سزا ملنا شروع ہو جاتی ہے جب اسکے دل میں کسی کیلئے حسد پیدا ہوتا ہے۔ حاسد کا خون جلنے لگتا ہے اور اسکے جسم کی کیمسٹری فوراً بدلنا شروع ہو جاتی ہے یقین نہ آئے تو کسی بھی ڈاکٹر سے پوچھ کر دیکھ لیں! حاسد کیلئے یہی سزا کافی ہے۔
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے