مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک سبز زمین

اٹھارہوی صدی کے آخر میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا ، دنیا میں بھاپ سے چلنے والے انجن متعارف ہوئے جنہیں کوئلے کی مدد سے چلایا جاتا تھا، یہی تاریخ دنیا میں مشین کی عظیم ترقی سے تعبیر کی جانے والی ایجاد تصور کی جاتی ہے، جب کوئلہ تیل یاقدرتی گیس جلائی جاتی ہےتو کاربن ڈائی آکسائڈ گیس (سی او ٹو) پیدا ہوتی ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائڈ گیس جب پودوں اور سمندر میں جذب ہونے سے بچ جاتی ہے تو فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے، اسی طرح ائیرکنڈیشنڈ اور ریفریجریٹر سے خارج ہونے والی کلوروفلورو کاربن اوزون کی سطح کو تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہے،صنعتوں نے ترقی تو بہت کی مگر ساتھ ہی عالمی حدت میں اضافہ ہوا،20ویں صدی میں درجہ حرارت میں 0.6 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کا حصہ گلوبل وارمنگ کے باعث بننے والی گیسز کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم ہے وہیں پاکستان کے ہمسایہ ممالک کاربن پیدا کرنے میں چین کا پہلا نمبر ،بھارت کا تیسرا نمبر ہے،جس کے باعث پاکستان کی فضا میں بھی ان گیسز کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔پاکستان کو کا قصور اتنا نہیں جتنی اس کا سزا کا سامنا ہے کاربن پیدا کرنے میں پاکستان کا حصہ صرف اعشاریہ آٹھ فیصد لیکن موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، شدید موسمی حالات کبھی شدید گرمی کبھی شدید سردی کبھی سیلاب کا سامناہے. 2010 کے بعد تقریباً ہر سال ہی پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے،2022 کے سیلاب میں پاکستان کو 3 اعشاریہ 3 ارب کا معاشی نقصان ہوا 1739 اموات جس سے 33 ملین لوگ متاثر ہوئے۔ یہ پاکستان میں 2010ء کے بعد سب سے مہلک سیلاب ہے، جب سیلاب میں تقریباً 2000 افراد ہلاک ہوئے تھےیہ سیلاب 2020ء کے جنوب ایشیائی سیلاب کے بعد دنیا کا سب سے مہلک سیلاب تھا اور اسے ملک کی تاریخ کا بدترین سیلاب قرار دیا گیا۔ اسے دنیا کی اب تک کی سب سے مہنگی قدرتی آفات میں سے ایک کے طور پر بھی ریکارڈ کیا گیا ۔2024 شدید گرمی کے بعد اب معمول اے زیادہ بارشوں کی پیشن گوئی ،گلیشیئرز پھٹنے سے دریائے چترال میں اونچے درجےکا سیلاب آچکا ہے ۔

ہر سال 192 ممالک مل کر اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نشستیم گفتم برخاستم پر بات ختم ہو جاتی ہے اگر ہم نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے تو سائنسدانوں نے امکان ظاہر کیا ہے صدی کے آخر تک 6 سے 8 ڈگری ٹمپریچر بڑھنے کا اندیشہ ہے. جس سے کرہ ارض کے بہت سے علاقے رہنے کے قابل نہیں ہوں گے قحط سالی،موسمی شدتیں،خشک سالی ،بیماریاں جنم لیں گی قدرتی آفات سے کسی کو انکار نہیں مگر ہم خود بھی بڑی وجہ ہیں جس کے لئے عالمی برادری کو موثر اقدامات کرنے ہوں گے ۔

صرف سرکاری سطح پر نہیں انفرادی سطح پر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ،ہمیں صرف خود کو ٹھیک نہیں کرنا اپنی آنے والی نسل کو گوبل وارمنگ کے حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے ،سب سے پہلے درختوں کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جس تیزی سے جنگلات کو کاٹا جارہا ہے درخت لگانے کی سپیڈ اس سے کم ہے، صرف پودے لگائے نہ جائیں ان کی نگہداشت پر بھی توجہ دی جائے شجرکاری مہم چلائی جائیں شہروں میں درخت لگانے کے ساتھ گاوں اور پہاڑی علاقے کے لوگوں کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے کہ جن درختوں کو وہ ایندھن کے حصول کے لئے کاٹ دیتے ہیں وہ کتنے قیمتی ہیں اور کیسے ہمیں قدرتی آفات سے بچاتے ۔پلاسٹک کے استعمال کو کم کیا جائے کون سے برائی ہے جو اس سے نہیں پھیلتی ان کو جلایا جاتا ہے تو کاربن میں اضافہ ہوتا ہے گٹر بند ہوتے ہیں اربن فلڈنگ کا باعث بنتے ہیں جانوروں کی جان لینے کا باعث یہ ہیں گلی محلوں میں اڑتے پلاسٹک کے شاپرز کو جمع کرکے کسی ایک شاپر میں جمع کردیا جائے تو یہ سیوریج کے بڑے نالوں کو بند ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ ان کی جگہ کپڑے سے بنے تھیلے استعمال کئے جائیں ۔

پنجاب میں کئی سالوں سے ایک نئی مصیبت سموگ کی صور ت میں سامنے آئی ہے فصلیں یا بھوسا جلانے سے جو فضائی آلودگی پھیلی ہے خصوصا سردی کے موسم میں سموگ بیماریوں کو جنم دیتا ہے ،یہ فضائی آلودگی سارا سال موجود ہوتی ہے، موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی اس کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے،دسمبر 2023 میں لاہور آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا۔سموگ کی بڑی وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ،فیکٹریوں کا دھواں اور فصلوں اور بھوسے کو جلانے کا عمل ہے،کسانوں کو بتایا جائے کہ بھوسے کو جلانے کے علاوہ اور کس طریقے سے تلف کیا جا سکتا ہے ،دھواں نکالنے والی گاڑیوں اور کارخانوں پر جرمانے عائد کئے جائیں ۔

دن کی روشنی کا بھر پور استعمال کیا جائے جیسے ترقی یافتہ ممالک میں کیا جاتا ہے، کاروبار کا آغاز صبح کیا جائے 6 بجے مارکیٹس بند کی جائیں تاکہ توانائی کی بچت ہو سکے ہیٹر اور ایئر کنڈشنروں کا استعمال کم کیا جائے اپنے گھروں کو انسولیٹ کریں تاکہ توانائی کی بچت ہو فوسل فیول پر شفٹ کیا جائے نئے ڈیمز بنائے جائیں، پانی سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگائے جائیں۔ سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کر کے گاڑیوں پر انحصار کو کم کیا جائے تاکہ فضائی آلودگی میں کمی لائی جا سکے۔

گلوبل وارمنگ ایسا مسئلہ ہے، جس سے آنکھیں چرانا نا ممکن ہے ،اگر آئند آنے والی نسلوں کو گلوبل وارمنگ کے خطرات سے بچانا اور مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک سبز زمین چھوڑ کے جانا چاہتے ہیں تو ٹھوس اقدامات اٹھانا نا گزیر ہے نہ صرف بین الااقوامی بلکہ انفرادی سطح پر بھی سب کو اپنا حصہ ڈا لنا ہو گا تبھی اس عفریت کوقابو کیا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے