دیکھیں جی دنیا کا ہر شخص جب اس دنیا میں برآمد ہوتا ہے تو وہ بچے کی فارم ہی میں ہوتا ہے یہ بھی اللّٰہ کی رحم دلی ہے، سو میں بھی جب اس دنیا میں آیا تو بچہ ہی تھا،میں بڑا ہونے کی خواہش کبھی نہ کرتا اگر گھر میں ایک ہفتے کے دوران دوبار ٹینڈے نہ پکتے کہ مجھے اس سبزی سے چڑ تھی جس دن یہ بےہنگم سی چیز گھر میں پکائی جاتی مجھے اندازہ ہو جاتا کہ میرے کسی دشمن کی دعا پوری ہو گئی ہے،چنانچہ گھر میں دوفریق بن جاتے ایک میرے گھر کے تمام ارکان اور دوسری طرف میری اکیلی جان،ایک فریق کہتا کھائو،دوسرا فریق کہتا نہیں کھائوں گا ۔تاہم فریقین کے درمیان یہ مکالمہ زیادہ دیر نہ چلتا اور وہ یوں کہ مجھے مار اور ٹینڈے دونوں کھانا پڑتے۔ میں یہ ظلم اور زیادتی کب تک برداشت کرتا چنانچہ ایک دن میں نے ایک بڑا فیصلہ کیا ،میں مسجد میں گیا دونفل اپنے فیصلے کے شکرانے کے ادا کئے اس کے بعد مسجد کے بلند وبالا مینار پر چڑھ گیا اور اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے میں نے نیچے کودنے کا ارادہ کیا اور احتیاطاًنظر نیچے ڈالی اور گہرائی کا اندازہ کیا، میں نے اقبال کا وہ شعر بھی پڑھ رکھا تھا؎
بےخطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
مگر اس دن یوں ہوا کہ عقل محو تماشائے بام رہی اور میں نے واپس گھر جاکر ٹینڈے کھائے!
ظاہر ہے یہ بہت پرانی بات ہے مگر اپنی یہ حرکت جب یاد آتی میرے اندر شرمندگی کی جو تھوڑی بہت رمق ہے وہ عود کر آتی اور میں سوچتا کہ میں نے خودکشی کا ارادہ کیوں کیا۔مجھے ٹینڈے نہ کھانے کے حوالے سے اپنی جمہوری جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے تھا اور دوسری طرف سے ہونے والی مسلح جدوجہد کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے تھا اور یوں میرا شمار بھی نیلسن منڈیلا سے اگر زیادہ نہیں تو عزت مندانہ سا تو ضرور ہوتا ،تاہم ایک روز ٹینڈوں کی ایک دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا ان پر نظر پڑی تو منہ فوراً دوسری طرف پھیر لیا بس ایسا کرنے کی دیر تھی کہ میرے دل میں ایک خیال تجلی کی طرح آیا اور میں نے سوچا کہ کوئی کام خدا کی منشا کے خلاف نہیں ہوتا اور جو کام خدا کی منشا کے مطابق ہو اس میں انسان کے لئے بھلائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ،سو میں نے غور کیا کہ مینار پر سے چھلانگ لگانے کی صورت میں اخبار کی ایک چھوٹی سی سرخی لگنا تھی کہ ایک بچے نے ٹینڈے کھانے سے انکار پر ضد میں آکر مسجد کے مینار سے چھلانگ لگا دی، بس صرف یہ کہ اللّٰہ یہ نہیں چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر کوئی عظیم کام کرے۔الحمدللّٰہ میں اللّٰہ کی امیدوں پر پورا اترا اور وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ دنیا محو حیرت میں رہ گئی ۔اب اگر میں نے یہ ذکر چھیڑ ہی دیا ہے تو یہ کہتا چلوں کہ کالم، ڈرامے، شاعری، طنزو مزاح اور دوسری الم غلم چیزیں تو میں وقت گزاری کے لئے لکھتا ہوں الحمدللّٰہ میں نے اردو اور انگریزی ادب کی گرانقدر خدمات انجا م دی ہیں میں نے تین ہزار صفحات پر مشتمل اقبال کے کلام کی شرح لکھی ہے ولی دکنی سے عطاالحق قاسمی تک کے فن اور شخصیت پر ساڑھے چھ ہزار صفحات پر مشتمل وقیع کام کیا ہے ۔ آپ شاید یقین نہ کریں کہ میں نے دنیا کی مختلف زبانوں کے شعراءپر بھی بہت وقیع کام کیا ہے۔ چیخوف، گورکی، ٹالسٹائی گابرائیل مارکیز، شیکسپیئرپر تقریباً بیس ہزار صفحات لکھے ہیں۔اس کے علاوہ الحمدللہ دنیا کا کوئی فلاسفر انقلابی اور خصوصاً اپنے دوفیورٹ فرائیڈ اور کارل مارکس پر جب میرا علمی اور تحقیقی کام سامنے آئے گا تو دنیا کو پتہ چلے گا کہ میرے خدا نے صرف ٹینڈوں کی ضد میں میری خودکشی کی کوشش کو کیوں ناکام بنایا تھا۔یہ سب کتابیں سنگ میل پبلشرز کے افضال احمد کو محض اس کی محبت کی وجہ سے اشاعت کے لئے دی ہیںمجھے یقین ہے کہ اب مجھ سے زیادہ آپ کو ان کتابوں کی اشاعت کا انتظار ہو گا۔وماعلینا الالبلاغ
اب آخر میں قمر رضا شہزاد کی ایک خوبصورت نعت:
صحن حرم میں اور کسی کا خیال ہو
ایسا اگر کروں مرا جینا محال ہو
یہ بارگاہ سید لولاک ہے یہاں
آنسو بھی خامشی سے بہیں یہ خیال ہو
دل میں ہی چل رہا ہو دعاؤں کا سلسلہ
کیوں سامنے حضور کے لب پر سوال ہو
کیا مجھ پہ کارگر ہو یہاں کوئی تیغ تیز
جب مرے پاس اسم محمد کی ڈھال ہو
دنیا نہیں قبول، رہوں آپ کا غلام
جو اصل ہے وہی مرا عہدہ بحال ہو