ثقافتی ٹوپی کو عزت دو

گلگت بلتستان کی مخصوص اون کی ٹوپی یہاں کے باشندوں کی منفرد پہچان اور فخر کا نشان ہے۔ میں نے جی بی کی اس منفرد پہچان کو ہر حال میں لازم رکھا ہوا ہے۔ حج کی ادائیگی کے دوران حرمین شریفین اور تمام مقامات مقدسہ میں اپنی منفرد پہچان کو برقرار رکھا اور ٹوپی پہنا، حرمین شریفین میں گلگت بلتستان سینکڑوں لوگ مجھے پہچان گئے اور ملاقات کی ۔

یہ صرف سردی گرمی سے بچاؤ کا ذریعہ نہیں، بلکہ ہماری ثقافتی ورثے کی ایک مضبوط علامت ہے جو اس علاقے کی شناخت، وقار اور عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ٹوپی ہمارے آبا و اجداد کی روایات، تہذیب اور ثقافتی شناخت کی مظہر ہے اور اس کا احترام ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

کچھ اطلاعات کے مطابق، گلگت بلتستان کے کچھ ہوٹلز اور ادارے اپنے ویٹرز اور نیچلی سطح کے ملازمین کو خدمات انجام دینے کے دوران یہ ٹوپی پہننے پر مجبور کر رہے ہیں یعنی انہیں ٹوپی پہننا ہی ہے۔ اگر یہ بات واقعی درست ہے، تو یہ نہ صرف ہمارے ثقافتی ورثے کی توہین ہے بلکہ پورے علاقے کے وقار اور شناخت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ ٹوپی کو محض ایک سر ڈھانپنے کی شے کے طور پر لینا، اور اسے نچلی سطح کے ملازمین کی وردی کے طور پر استعمال کرنا، اس کے اصل تقدس اور احترام کو مجروح کرتا ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ٹوپی یا پگڑی جیسے ثقافتی لوازمات ہمیشہ سے عزت، عظمت اور سربلندی کی علامت سمجھے گئے ہیں۔ انگریزوں نے برصغیر میں اپنے استعماری دور کے دوران پگڑی کو بیروں اور ویٹروں کی وردی کا حصہ بنا دیا، جس سے اس عظیم ثقافتی علامت کی اہمیت گھٹائی گئی۔ آج بھی ہمارے کئی بڑے ہوٹلوں میں دربانوں اور نیچلی سطح کے ملازمین کو پگڑی پہنائی جاتی ہے، جو اصل میں پگڑی کی عزت و وقار کے ساتھ مذاق ہے۔ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیشہ پگڑی کو وقار اور شان کی علامت کے طور پر لیا، اور یہی مقام ہمیں اس کی عزت و تکریم میں پیش نظر رکھنا چاہیے۔

ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم گلگت بلتستان کی ثقافتی ٹوپی کے ساتھ بھی ایسا ہی احترام روا رکھیں۔ یہ ٹوپی اس علاقے کی انفرادیت اور وقار کا استعارہ ہے، جیسے عمامہ اسلامی روایت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں شمار کیا جاتا ہے۔ جس طرح عمامہ پہن کر لوگ اپنی اسلامی شناخت اور تاریخی ورثے پر فخر محسوس کرتے ہیں، اسی طرح گلگت بلتستان کی ٹوپی کو بھی ہمارے عوام کے فخر، شناخت اور ثقافتی علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

انگریزوں کے دور میں جس طرح انہوں نے برصغیر کی ثقافت کو اپنے استعماری مقاصد کے لیے استعمال کیا، ہمیں آج بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ ہماری ثقافت کو بے وقعت نہ کیا جائے۔ انگریزوں کے باقیات اور نمک حلال آج گلگت بلتستان میں اسی پالیسی کے حامی ہیں اور آج وہ بھی ہماری ثقافتی علامات کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں، اور یہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ ہمیں اپنی ثقافتی ورثے کی عزت اور اہمیت کا ادراک کرنا ہوگا، اور ٹوپی کو محض ایک نیچلی سطح کی ملازمتی وردی کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف بھرپور آواز بلند کرنی ہوگی۔

لہٰذا، ہم سب کو چاہیے کہ مل کر اس مسئلے کو اجاگر کریں اور ایک مضبوط مہم چلائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس ثقافتی ورثے کو اسی فخر اور احترام کے ساتھ دیکھیں جو ہمارے اجداد نے ہمارے لیے چھوڑا ہے۔ ٹوپی کو عزت دیجیے، کیونکہ یہ ہماری شناخت اور وقار کی محافظ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے