والدین کو سب سے عزیز اپنی اولاد ہوتی ہے اور اولاد کو سب سے زیادہ محبت والدین سے ہی ہوتی
ہے،والدین کی ڈانٹ ڈانٹ سے بھی پیار جھلکتا ہے،اچھے بْرے کی پہچان کروانا اساتذہ کے ساتھ ساتھ یہ
ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے،اسی لئے وہ بْری باتوں، بْرے کاموں کی وجہ سے ڈانٹتے ہیں اور
آپ کی بھلائی چاہتے ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اولاد کو چاہئے کہ والدین کے ساتھ دوستانہ ماحول
رکھیں،ان کی نصیحتوں پر عمل کریں اورکوئی بھی بات والدین کو بتانے میں جھجھک محسوس نہ
کریں، ہر بات والدین سے شیئر کریں، اسکول کے دوستوں کے بارے میں والدین کو آگاہ کرنا ضروری
ہے، جبکہ والدین کو بھی اپنی اولاد کے ساتھ ایسا دوستا نہ ماحول رکھنا چاہئے،جس سے بچوں میں خود
اعتمادی پیدا ہو،ایسا کرنے سے بچے فارغ اوقات گھر میں گزارنا پسند کریں گے نہ کہ باہر کے دوست
بنائیں گے اور بْری سوسائٹی سے دور رہیں گے۔دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ والدین کی بلاوجہ ڈانٹ
ڈپٹ سے بچے نہ صرف ضدی اور خود سرہو جاتے ہیں بلکہ باہر کے دوست بنانے پر مجبور ہو جاتے
ہیں اور کئی بْری سوسائٹی اپنا لیتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے قدم جما لیتے ہیں
جہاں سے واپسی کا راستہ ان کے لئے ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ دوست بنا نا بْری
بات نہیں،دوست ضرور بنائیں دوست ایسا ہونا چاہئیے جو نہ صرف ذہین بلکہ اس کا کریکٹر بھی بے داغ
ہو،کیونکہ بْرا دوست آپ کا تعارف بن جاتا ہے۔اس لئے بْرے دوستوں سے بچنا ضروری ہے۔دوست
بناتے وقت اچھے دوست کا انتحاب ضروری ہے جتنے ذہین اور ہونہار دوست ہونگے آپ کی معلومات
میں اضافہ ہو گا،اچھے دوست جتنے بھی ہوں کم ہیں،آہستہ آہستہ دوستوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سوسائٹی
کا روپ دھار لیتی ہے۔
ننھے منے زیر تعلیم دوستو! اچھی سوسائٹی ا پنائیں اور اچھے کام کریں۔ سکول، محلے میں کوئی دوست
غیر ضروری بات کہے یا کسی ایسے راستے چلنے پر مجبور کرے جو بعد میں بدنامی کا باعث بنے تو
اس بارے میں فوراً والدین کو آگاہ کریں۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں آپ کو پچھتانا پڑے۔ والدین سے کی ہوئی
بات آپ کے لئے یقیناً فائدہ مند ثابت ہو گی،ایسے دوستوں کو ملنے سے باز رہیں جس کے بارے میں
والدین نے منع کیا ہو۔ سکول میں بچے تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تعلیم ہمیں اچھے بْرے میں پہچان
کرواتی ہے اور تعلیم ہی ہمیں کار آمد شہری بنانے میں مدد کرتی ہے شرط یہ ہے کہ جو علم ہم حاصل
کرنے جاتے ہیں اس پر عمل کیا جائے،اساتذہ کرام بھی یہ سمجھاتے ہیں کہ بے کار ہے وہ علم جس پر
عمل نہ کیا جائے۔ اچھی بات کوئی بھی کہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور بری باتوں، بری
سوسائٹی،بْرے دوستوں، اور بْرے کاموں سے دور رہیں۔ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
دور جدید میں بچوں کے بڑھتے ہوئے موبائل فون کے رحجان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بچوں
کو اس کی ضرورت بنا دیا گیا ہے جبکہ موبائل فون ہر اْس شخص کی ضرورت ہے جوکاروبار یا
ملازمت سے تعلق رکھتا ہو لیکن بڑوں کی دیکھا دیکھی، بچوں نے بھی اسے اپنی ضرورت بنا لیا ہے
اور مہنگے سے مہنگا فون بچے والدین کو خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔جس کا نقصان یہ ہے کہ بچے
پڑھائی پر کم اور موبائل فون پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، سارا دن مسیج اور گیمز کھیلتے نظر آتے ہیں یہ
بھی دیکھا گیا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے موبائل فون کے ذریعے آپس میں دوستی کر لیتے ہیں جن
لڑکوں کو آپ جانتے ہیں ان سے واقف نہیں، ان سے دوستی کرنے کا نقصان بھی پہنچ سکتا ہے ایسے
واقعات اخباروں میں بھرے پڑے ہیں جن کا خمیازہ والدین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ موبائل فون بْری چیز نہیں
اس کا مثبت اور مناسب استعمال ہی اچھاہے جبکہ اس کا منفی استعمال نہ صرف آنکھوں کے لئے نقصان
دہ ہے بلکہ اس کے زیادہ استعمال سے پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہے۔
بات ہو رہی تھی گھر کے ماحول کی۔ گھر کا ماحول ایسا ہونا چاہئے دوستی والدین کے اپنے کزنز سے
اچھی لگتی ہے۔ ہر کوئی اپنے کزنز کی طبیعت سے واقف ہوتا ہے۔ فون یا میسج کے ذریعے دوستی
کرنے والوں کو آخر کار ایک دن پچھتانا پڑتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے بچے بڑے ہونہار
اور ذہین ہیں ارد گرد کے ماحول سے باخبر ہیں مختلف چینلز کے ذریعے ایک ایک پل کی خبر رکھتے
ہیں۔ ارد گرد کے ماحول کی خبر رکھتے ہوئے بْری سوسائٹی کے بچے بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس نے بہت ترقی کی ہے۔ نت نئی ایجادات ہوئیں اور بچوں میں تبدیلی
رونما ہوئی، چاہیے تو یہ تھا کہ نئی ایجادات کا مثبت استعمال کر یں اور ان سے استفادہ کریں لیکن اکثر
بچے اس کا منفی استعمال کرتے ہیں جس وجہ سے وہ پڑھائی میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ حال ہی
میں میٹرک بورڈ کے نتائج کا اعلان ہوا یقینا وہی بچے کامیاب ہوئے جن کی اچھی سوسائٹی تھی جو
پڑھائی کو ترجیح دیتے رہے جنہوں نے وقت کی قدر کی جو بْری سوسائٹی کے قریب تک نہ گئے۔ اس
کا رزلٹ یہ نکلا کہ کامیابی نے ان کے قدم چومے اوراب وہ معاشرے کے کارآمد شہری بننے کے لیے
کوشاں ہیں اور ملک وقوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ غور کریں تو آپ کو یہ جاننے میں مشکل نہ پیش
آئے گی کہ تعلیم ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اس پر عمل کرکے ہر برائی سے بچا جا سکتا ہے۔
ننھے منے دوستو! آپ والدین کی امیدوں کا سہارا ہیں، والدین آپ کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے ہر قسم کی
قربانی دیتے ہیں آپ کی ہرخواہش پوری کرتے ہیں، آپ کو بھی چاہیے کہ ان کے اعتماد کو ٹھیس نہ
پہنچائیں، کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کی یا والدین کی عزت پہ حرف آئے، یہ اسی صورت میں
ممکن ہے جب آپ اچھے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے،کوئی غلط کام نہ کریں گے۔ اس کے
لیے ضروری ہے کہ بْرے دوستوں سے بچیں کیونکہ بْری سوسائٹی آپ کا تعارف بن جاتی ہے۔ اچھے
ذہین اور ہونہار طالب علم کو ہر کوئی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اساتذہ کرام بھی اس طالب علم کی
عزت کرتے ہیں۔ اچھا شہری بننے کے لیے ضروری ہے کہ اچھی سوسائٹی اپنائیں۔