ایران شاید اسرائیل کے خلاف ابھی تک اپنے غلط اندازوں سے فراغت نہیں پا سکا ۔ اکتوبر 2023 میں حماس اور حزب اللہ کی طرف سے شروع کی گئی جنگ میں تباہ نہ ہونے کی صورت میں جن دو پراکسی فوجوں کو ختم کر دیا گیا ہے، ان میں سے مؤخر الذکر ایران کے جغرافیائی سیاسی عزائم کے لیے سب سے اہم ہے۔ حزب اللہ نے نہ صرف لبنان کو تہران کے لیے ایک کٹھ پتلی ریاست میں تبدیل کیا بلکہ اس نے گزشتہ تیرہ برسوں میں بشار الاسد کو سنی اسلام پسند باغیوں کے خلاف سخت کاروائیاں کرنے پر مجبور کیا –
اب ایرانی کٹھ پتلی بشار الاسد کے مبینہ طور پر ملک سے باہر ہونے کی خبر کے بعد بغاوت کی افواہیں پھیلی ہیں کہ حلب باغی اتحاد کے پاس آ گیا ہے-
شام کے دارالحکومت دمشق میں ہفتے کی رات دھماکے سنے گئے جس سے یہ قیاس آرائیاں بڑھ گئیں کہ بغاوت کی کوشش کی جا رہی ہے-
شام کی سرکاری عرب نیوز ایجنسی (SANA) کا سرکاری ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہفتے کی رات بند تھا، اور نیوز آؤٹ لیٹ کی عربی اور انگریزی زبان کی ویب سائٹس بھی ناقابل رسائی تھیں۔
دارالحکومت میں جنرل اسٹاف اور سرکاری میڈیا کی عمارت کے قریب دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں ہیں –
مقامی ذرائع مطابق حکومت کے جنرل سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل حسام لوکا صدر بشار الاسد کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں جو مبینہ طور پر کامیاب بھی ہو چکے ہیں – بشار الاسد کئی دنوں سے ملک سے باہر ہیں –
ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماسکو سے ایک پرواز علی الصباح دمشق میں اتری تھی – کیا اس پرواز میں اسد واپس آیا ہے ؟
موجودہ حالات میں اس کا امکان نہیں لگتا، خاص طور پر جب دارالحکومت میں شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں – اس وقت بہت کچھ واضح نہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ ایران یا تو خطے میں اپنی پراکسیوں کا کنٹرول کھو چکا ہے، یا ایسا ہونے کے بہت قریب ہے-
کچھ سال پہلے شام کی خانہ جنگی ختم ہوتی دکھائی دے رہی تھی، جس میں بڑا کردار ایران نے اپنی شیعہ فوج حزب اللہ کے ذریعے ادا کیا تھا مگر اب اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کی تباہی ایران کے علاقائی بالادستی کے خوابوں کے لیے ممکنہ طور پر نہ پورے ہونے والے نتائج کا سبب بن رہی ہے-
وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق ” 2016 میں شامی حکومت اور اس کے حامیوں ایران، روس اور حزب اللہ کو ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب سے باغی افواج کو نکالنے میں چار سال سے زیادہ کا عرصہ لگا تھا۔ اس وقت انہوں نے اس فتح کو شام کی خانہ جنگی میں اہم کامیابی کے طور پر منایا۔
اب باغیوں کی طرف سے ہوئے موجودہ حیرت انگیز حملے نے نا صرف چند دنوں میں حلب پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے، بلکہ اس اس قبضے میں شہر کے وہ حصے بھی شامل ہیں جہاں شامی فوج نے پہلے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔ کہا جا رہا ہے یہ تیز ترین تبدیلی شام کی سرحدوں سے باہر شروع ہونے والی نئی جنگوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
لبنان کی حزب اللہ ملیشیا ، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ایرانی آیت اللہ خامنائی کی حکومتیں سب اس وقت ایسے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں جن سے ان کی اپنی بقاء کو خطرہ لاحق ہے، اور اس صورت حال میں شام ان کے لئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے ۔ تینوں نے کوشش کی ہے جہاں تک ممکن ہو اسٹریٹجک دباو برداشت کیا جائے مگر اس صورتحال میں شامی باغیوں کا اس وقت کا سب سے بڑا سپوٹر ترکی فائدہ اٹھانے کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے “
بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں ترکی امور کے ایک ماہر اسلی آیڈنتاشباش کا کہنا ہے "روس اندرونی طور پر کمزور ہو چکا ہے، ایران کی کمزوری واضح نظر آ رہی ہے، حزب اللہ کو ایران اور اسکے اتحادی شکست دے چکے ہیں اس صورت حال نے ترکی کے لیے ایک بہت بڑا موقع پیدا کر دیا ہے، جس سے اس نے بہت جلد اور موثر فائدہ اٹھا لیا ہے
اب واضح ہو گیا ہے کہ ایران نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر تعاون کیوں کیا – مگر کیا اب بہت دیر نہیں ہو چکی ؟ ایران کے پاس اب حزب اللہ کا استعمال اسرائیلی کارروائی کے خلاف یا خطے میں اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کو بچانے کے لیے بطور ایک ہتھیار نہیں رہا ہے – یہاں تک کہ تجربہ کار مبصرین حزب اللہ کی تباہی کے بعد حلب کے زوال/آزادی کو بشار الاسد اور ایرانی بالادستی کے مستقبل کے لیے ایک بہت بری علامت کے طور پر دیکھتے ہیں“-
حلب میں شامی باغیوں نے حیران کن پیش قدمی کرتے ہوئے صرف چند گھنٹوں میں شہر کے ان حصوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے جو وہ ایک دہائی قبل 4 سال کی لڑائی میں بھی نہیں لے سکے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسد حکومت اپنی بقا کے لیے حزب اللہ اور ایران پر کتنا انحصار کر رہی تھی-
روس اب بھی اسد کو سہارا دینے کی کوشش میں ہے جس کی وجہ سے وہ باغیوں پر مسلسل فضائی حملے کر رہا ہے ، لیکن یوکرین جنگ کی وجہ سے اس کے پاس پہلے جیسے وسائل نہیں ہیں جس کی وجہ سے پیوٹن دمشق میں اپنے اتحادی کو بچانے کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا، حالانکہ اس نے اسد کی مدد کے لیے حلب میں باغیوں کے خلاف بہت تیزی سے ایکشن لیا ہے –
روسی فضائیہ جو اسد کی بقا کے لیے ناگزیر ہے، یوکرین میں روسی زمینی دستوں کی طرح تنزلی کا شکار نہیں ہوئی ہے، لیکن اس نے بھی اپنی فائر پاور کا ایک اہم حصہ کھو دیا ہے – اوریکس کنسلٹنسی کے اوپن سورس تجزیہ کاروں کے مطابق، تقریباً تین سال کی یوکرائنی جنگ میں روس کے 117 جنگی طیارے تباہ ہوئے ہیں –
اگرچہ روسی فضائیہ نے حالیہ دنوں میں شام میں بمباری کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن یہ حملے محدود تھے اور باغیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے زیادہ موثر بھی ثابت نہیں ہو سکے –
اسد حکومت کو ایک ایسے بحران کا سامنا ہے جو شام میں ایک اور بدترین جنگ کے بازگشت ہے، اس بار بشار کی حکومت اور بھی کمزور دکھائی دے رہی ہے، اس کے اتحادی اسے بچانے کے لیے آنے سے قاصر ہیں- برسوں کی معاشی تباہی، اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور بے قابو ملیشیاؤں کے عروج نے اسد کو بری طرح کمزور کر دیا ہے-
بشار کی موجودہ حکومت اب اس کا کھوکھلا ورژن ہے جسے روس اور ایران نے 2015 میں بچانے کے لیے جنگ لڑی تھی –
اس کے برعکس باغی حیات تحریر الشام کی کمان کے تحت پہلے سے کہیں زیادہ نظم و ضبط اور متحد نظر آ رہے ہیں-
یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ سیکیورٹی (JISS) کے سینئر ریسرچ فیلو ڈینیئل راکوف نے ہفتے کے روز X پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ حلب پر اسلام پسندوں کا حملہ "اسرائیل کے لیے بظاہر اچھی خبر ہے۔”
راکوف JISS میں مشرق وسطیٰ میں روسی پالیسی کے ماہر ہونے کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور IDF میں ریزرو لیفٹیننٹ کرنل بھی ہے۔ ایکس پر اپنی پوسٹ میں، اس نے لکھا ہے کہ "شمالی شام کا باغیوں کے ہاتھوں زوال سے وہاں ایرانیوں اور حزب اللہ کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کے لیے وہاں حزب اللہ کی بحالی کے لیے کام کرنا مشکل ہو جائے گا-
شام میں اسرائیلی کاروائیوں کا امکان مزید بڑھ گیا ہے –
امریکی اتحادی کرد فورسز نے حلب کے حملے میں حصہ لیا اور وہاں کچھ علاقے پر کنٹرول بھی حاصل کیا ہے جو کہ ایک اچھی پیش رفت ہے، لیکن اس سے کردوں کے مسائل ختم ہونے کا امکان نہیں –
سنی اسلام پسند ترکی کی پشت پناہی سے کچھ دیر کے لیے معاملات کو ختم کر دیں گے، جب کہ رجب طیب اردگان ایران اور روس کے ساتھ ان کی مخالفت میں کچھ ایسا کرنے جا رہا ہے جو انکے لئے انہونی ہو گی- جبکہ ایک موقعہ پر پہنچ کر ترکی کردوں کو بھی نشانہ بنائے گا، اس خانہ جنگی میں برسوں سے ترکی انہیں دبانے کی کوشش کر رہا ہے-
دو اسلامی فوجوں کے درمیان جنگ میں ہمارے لئے خوشی کا واحد نتیجہ وہی نکلتا ہے جس میں وہ دونوں ہار جاتے ہیں“ –
اسد کا زوال بہت سے لوگوں کے لئے ممکنہ اچھی خبر ہو سکتی ہے مگر وہ اس پر منحصر ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے- پچھلے 14 سالوں میں ایسی جنگوں میں حکومتوں کے خاتمے کے بعد جو کچھ ہوا وہ عام طور پر اس سے پہلے کے مقابلے میں بدتر رہا ہے-