قارئین جہاں ایک طرف وطن عزیز سیاسی افراتفری ، انارکی اور پولیٹیکل ان سٹیبلٹی کا شکار ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا بازار گرم ہے ،جس کے باعث ملک کا ہر محب وطن شہری ملک کے مستقبل کیلیئے پریشان اور افسردہ دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا ، کب ملک سیاسی و معاشی طور پر مستحکم ہو گا کہ ہر پاکستانی خوشحال ہو۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنیوالی فیک نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حالت تشویشناک ہے اور انہیں اڈیالہ جیل سے کہیں اور منتقل کیا جا رہا ہے یا فوجی تحویل میں دیا جا رہا ہے ، پی ٹی آئی دوبارہ 7 دسمبر کو شہراقتدار میں احتجاج کرے گی ، 27 نومبر کے پی ٹی آئی احتجاج کے دوران رینجرز اہلکار کی اموات کے واقعہ میں پی ٹی آئی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ، 27 نومبر منگل کی رات پی ٹی آئی احتجاج کو منتشر کرنے کیلیئے کیئے گئے آپریشن میں پی ٹی آئی کے 250 سے 300 یا اس سے بھی زیادہ تعداد میں ورکرز کو مار دیا گیا ، انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اسی طرح کی تعداد رپورٹ کی ، ناظرین دارلحکومت میں اتنی تعداد میں لوگوں کو مار دینا اور پھر انکی ڈیڈ باڈیز کو روپوش کر دینا ممکن دکھائی نہیں دیتا اور اگر یہ سچ ہے تو حکومت کیلیئے اسے چھپانا مشکل ہے ، اتنی تعداد میں ہلاکتوں کے بارے میں درست حقائق کی جانکاری کے بارے میں کوئی بات کرنا قبل از وقت ہے ، آنے والے دنوں میں ہی یہ حقیقت آشکار ہو سکے گی کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ؟
رہی رینجرز اہلکار کی اموات کے واقعہ کی تو اس بارے میں نامور انویسٹیگیٹر رپورٹر اور صحافی اعزاز سید کا کہنا ہے کہ رینجرز اہلکار پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ریلیٹو سابق بیورو کریٹ کے بیٹے جس کا دماغی توازن درست نہیں ،نے گاڑی چڑھائی جس سے رینجرز اہلکار کی اموات واقع ہوئیں۔
ناظرین اب آتے ہیں حقیقت کی طرف جس کے مطابق عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں ہی قید ہیں اور مکمل تندرست و توانا ہیں ، انہیں نہ ہی تو کہیں اور منتقل کیا جا رہا ہے اور نہ ہی فوجی تحویل میں دیا جا رہا ہے بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ گزشتہ رات اڈیالہ جیل میں ایک اہم ملک کے سفارتکار ، ایک حکومتی نمائندہ اور ایک اور اہم شخصیت جو نہ تو پولیٹیکل ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی شخصیت، کی عمران خان سے اہم ملاقات ہوئی جس میں عمران خان کی رہائی کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ جس کے مطابق فروری کے آخر یا مارچ کے اوائل میں عمران خان اڈیالہ جیل سے رہا ہو جائیں گے اور وہ مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
موجودہ حکومتی سیٹ اپ کو ڈسٹرب یا ڈی ریل کرنے کی بجائے جیسا ہے کی بنیاد پر چلنے دیں گے۔ عمران خان ابھی نومبر کے آخر یا دسمبر میں ہی رہا ہو جاتے مگر ایک تو ن لیگ ابھی ایسا نہیں چاہتی تھی اور دوسرا عمران خان کی اپنی ہی جماعت پی ٹی آئی کی حماقتوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو پایا۔ ک
ے پی کے میں گورنر راج اود پی ٹی آئی پر پابندی کی باذگشت بھی آرہی ہے جو کہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ ملک کی مقبول اور بڑی سیاسی جماعت پر ایسے پابندی لگا دی جائے یا کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج لگا دیا جائے ، حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان بھی کے پی کے میں گورنر راج کے مخالف نظر آتے ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں ایک طرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہوں اور دوسری طرف اسٹاک ایکسچینج مثبت اشارے دے رہے ہوں تو وہاں کسی بھی طرح کی سیاسی افراتفری یا سیاسی عدم استحکام کا متحمل ہونا ملک افورڈ نہیں کر پائے گا۔
وطن عزیز کی سلامتی ، معاشی استحکام اور عوام کی خوشحالی کیلیئے موجودہ حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی دور اندیشی اسی میں ہی مضمر ہے کہ ہر طرح کی سیاسی انارکی اور سیاسی عدم استحکام سے گریز کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو ملکر ملکی ترقی اود عوام کی خوشحالی کیلیئے تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سسٹم کو چلنے دینا ہو گا اسی میں ہی سب کی بقا ہے۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل
جسے اندیشہ ء زوال نہ ہو