خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے رہائشی ارشاد الحق، جن کے گھر میں قدرتی گیس کی سہولت میسر نہیں، اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک جدید اور ماحول دوست طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔ وہ جانوروں کے فضلے سے بائیو گیس تیار کرتے ہیں۔
ارشاد الحق روزانہ جانوروں کا فضلہ جمع کرکے اسے پانی کے ساتھ ملا کر ایک آمیزہ تیار کرتے ہیں، جسے ہوا بند کنٹینر میں منتقل کیا جاتا ہے۔ چند دنوں میں گیس پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے، جو کھانے پکانے اور دیگر گھریلو ضروریات کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے نہ صرف توانائی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ بچا ہوا مواد زراعت کے لیے بطور کھاد استعمال کیا جا سکتا ہے، جو زمین کی زرخیزی بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ریسرچ اسکالر عبدالبصیر کا کہنا ہے کہ بائیو گیس ایک سائنسی اور ماحول دوست طریقہ ہے، جس میں فضلے کو آکسیجن کی غیر موجودگی میں بیکٹیریا کے ذریعے تحلیل کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں میتھین گیس بنتی ہے، جو توانائی کا ایک موثر ذریعہ ہے۔
میتھین گیس کے حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد نفیس کا کہنا ہے کہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں زیادہ گرمی قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، تاہم فضا میں اس کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق، میتھین گیس تقریباً 12 سال تک فضا میں رہ سکتی ہے اور موسمیاتی تغیرات میں اس کا کردار 25 سے 30 فیصد تک ہے۔
عالمی سطح پر میتھین گیس کے اخراج میں اضافے نے موسمیاتی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق، انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے فضا میں میتھین کے اخراج کی شرح 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں زراعت، مال مویشی اور لینڈ فلز جیسے عوامل شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق، اگر میتھین کے اخراج میں 45 فیصد کمی لائی جائے تو زمین کے اوسط درجہ حرارت میں 0.3 ڈگری سینٹی گریڈ تک کمی ممکن ہے۔
پاکستان بھی ان 100 ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے 2021 میں میتھین کے اخراج میں 30 فیصد تک کمی لانے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اگر پاکستان گھریلو سطح پر بائیو گیس جیسے ماحول دوست ذرائع کو فروغ دے تو نہ صرف توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ فضائی آلودگی اور موسمیاتی تغیرات کے اثرات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد نفیس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قدرتی گیس کا بڑا حصہ بجلی پیدا کرنے اور سی این جی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر شمسی توانائی اور ہائبرڈ ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے تو گیس کی بچت ممکن ہے۔ اسی طرح، گھریلو سطح پر بائیو گیس کے استعمال سے ماحول کو بھی صاف رکھا جا سکتا ہے۔
زراعت اور مال مویشی پالنے سے پیدا ہونے والے میتھین کے اخراج میں کمی کے لیے کسانوں کو کھاد کے موثر استعمال اور جدید تکنیکوں کی تربیت دینا ضروری ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے نہ صرف فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ موسمیاتی تغیرات کے اثرات کو بھی محدود کیا جا سکتا ہے۔
ارشاد الحق جیسے افراد کی کوششیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ چھوٹے پیمانے پر بائیو گیس جیسے منصوبے نہ صرف توانائی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ ماحول کو محفوظ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان منصوبوں کو حکومتی سطح پر فروغ دیا جائے تو یہ قومی اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
سویڈن نے سال 2023 میں 90% بائیو گیس پلانٹس نے گیس کو صاف کرکے ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال کیا، جو تیل کے متبادل کے طور پر کاربن کے اخراج میں 70% تک کمی لاتا ہے۔ جب کہ بھارت نے نیشنل بائیو انرجی مشن کے تحت 2020 تک 50 لاکھ سے زائد چھوٹے بائیو گیس پلانٹس نصب کیے، جس سے دیہی علاقوں میں ایندھن کے مسائل کم ہوئے۔ اقوام متحدہ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، بائیو گیس پلانٹس سالانہ 6% -10% گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جو 2050 تک عالمی حدت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اہم ہے۔
پاکستان میں بائیو گیس کی ترقی کے لیے 2008 سے "پاکستان رینیوایبل انرجی ڈویلپمنٹ پروگرام” چلایا جا رہا ہے، جس کے تحت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 10,000 سے زائد بائیو گیس پلانٹس نصب کیے گئے ہیں۔
آلٹرنیٹیو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ کے مطابق، بائیو گیس پلانٹس سے ایک اوسط خاندان سالانہ 2 ٹن ایندھن کی بچت کر سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا اور سندھ میں مختلف این جی اوز نے دیہی علاقوں میں چھوٹے بائیو گیس یونٹس نصب کیے ہیں۔ جس طرح صوبہ سندھ میں "ورلڈ بینک کلائمیٹ ریزیلینس پروگرام” کے تحت 2023 میں 200 نئے پلانٹس لگائے گئے۔
گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق، بائیو گیس کے استعمال سے ترقی پذیر ممالک میں لکڑی کے ایندھن کی طلب 20% -30% کم ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں 200 ملین مویشیوں کی موجودگی سالانہ 1000 میگاواٹ تک توانائی پیدا کر سکتی ہے۔ جب کہ حکومت کی سرمایہ کاری اور این جی اوز کی مدد سے لاکھوں دیہاتی خاندانوں کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔