دسمبر آ رہا ہے، دسمبر جا رہا ہے۔
یہ مہینہ سال کے اختتام کا اعلان کرتا ہے، لیکن گلگت بلتستان میں یہ محض ایک مہینہ نہیں بلکہ ایک پوری کہانی ہے۔ فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں بسے اس خطے میں دسمبر کا آنا ایک تہوار کی طرح ہے، جس میں زندگی کی ہر رنگینی اور ہر اداسی ایک ساتھ گُندھی ہوتی ہے۔
نومبر کے اختتام پر جب پہاڑوں پر پہلی برفباری پڑتی ہے، تو سرد ہواؤں کے جھونکے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ دسمبر قریب ہے۔ یہ ہوائیں ہر دروازے پر دستک دیتی ہیں اور لوگ اپنی زندگی کو سردی کی شدت سے محفوظ رکھنے کی تیاریوں میں جُت جاتے ہیں۔ گھروں میں "در بند تھے لا” یعنی دروازہ بند کریں، کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں، گویا باہر کے دروازے بند ہو رہے ہیں، اور اندر کے دروازے جذبات اور یادوں کے لیے کھل رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کے فلک بوس پہاڑوں پر برف کی سفید چادر ہر منظر کو خاموشی کا لباس پہنا دیتی ہے۔ درخت، میدان، گلیاں سب برف کی گود میں ایسے سکون سے لیٹے ہوتے ہیں جیسے زندگی کی تمام ہلچل ایک لمحے کے لیے تھم گئی ہو۔ ان پہاڑوں اور جنگلوں میں موجود جنگلی حیات بھی دسمبر کی آمد پر اپنا نظام زندگی درست کرلیتے ہیں اور اپنی تیاریاں مکمل کرلیتے ہیں ۔
گلگت بلتستان میں دسمبر کے آتے ہی زندگی کا ایک منفرد رنگ نظر آتا ہے۔ یہاں کے لوگ صدیوں سے موسمِ سرما کے لیے منفرد تیاریاں کرتے آ رہے ہیں، جنہیں دیکھ کر ایک عجیب سی گرمجوشی کا احساس ہوتا ہے۔
نسالو، ایک قدیم روایت ہے، جس کے تحت بیل اور بکرے ذبح کر کے ان کا گوشت خشک کیا جاتا ہے۔ یہ گوشت سردیوں کے مہینوں میں پروٹین کا اہم ذریعہ بنتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیسی گھی، انگور کا شیرہ، اور دیسی مٹر (بوکک) جیسے ذخائر جمع کیے جاتے ہیں۔ خشک سبزیاں اور دیگر خوراک بھی تیار کی جاتی ہیں تاکہ طویل سردیوں میں زندگی کا پہیہ رواں رہے۔
لکڑیوں کا ذخیرہ کر کے انگیٹھیاں دہکائی جاتی ہیں۔ ان دہکتی انگیٹھیوں کے گرد بیٹھ کر کہانیاں سننا، یادوں کو تازہ کرنا، اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا، دسمبر کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے۔ چلغوزے، خشک میوہ جات، اور اون کے گرم ملبوسات نہ صرف جسم کو سردی سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ زندگی کو رنگین بھی بناتے ہیں۔
ہم نے بچپن میں دسمبر کی برف کیساتھ خوب کھیلا ہے۔ جب برف پڑتی تھی تو ہم راستوں اور سڑکوں پر برف کے اوپر راستہ بناتے اور پورا پورا دن اسی میں اپنے دونوں پاؤں پر مشتمل گاڑی چلاتے رہتے، اور پھر برف کے گولے بناکر ایک دوسروں کو مارنا تو معمول کی بات تھی۔ یہ شرارتیں نوجوان لڑکیاں اور خواتین بھی کرتی تھیں۔
ادبی لحاظ سے دسمبر ہمیشہ اداسی، جدائی، اور ماضی کی یادوں کا استعارہ رہا ہے۔ گلگت بلتستان کی طویل یخ بستہ راتیں جذبات کو گہرا کر دیتی ہیں۔ ان راتوں میں دہکتی انگیٹھی کے پاس بیٹھ کر سردیوں کے ماضی کی باتیں، محبوب کی یادیں، اور بیتے وقت کی خوشبو دلوں کو بھگو دیتی ہے۔ اور بعض دفعہ یہ یادیں سخت عذاب بن جاتی۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہر دل اپنے اندر ایک دسمبر جیتا ہے۔ ان راتوں میں ماضی کی دھندلی یادیں، ادھورے خواب، اور ان کہی باتیں دل کے دریچوں پر دستک دیتی ہیں۔ یہ سرد موسم جذبات کو سرد نہیں کرتا بلکہ انہیں اور گہرا کر دیتا ہے۔
زندگی کی سردیوں میں بھی دل کے کسی گوشے میں ایک خاموش سی آگ دہکتی رہتی ہے، جو نہ بجھتی ہے، نہ گرماتی ہے، بس جلتی رہتی ہے۔ یہ وہی آگ ہے جو دسمبر کی طویل راتوں میں برف سے ڈھکے پہاڑوں کے پیچھے چھپے سورج کی یاد دلاتی ہے، جو لوٹنے کا وعدہ تو کرتا ہے لیکن وقت کی چادر میں کہیں کھو جاتا ہے۔
دسمبر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مہینہ بظاہر اداسیوں سے بھرا ہوا ہے لیکن اس کے اندر ایک ان کہی خوبصورتی پوشیدہ ہے۔ یہ مہینہ خاموش ہے لیکن کہانیوں سے بھرا ہوا۔ سردی کی شدت کے باوجود یہ جذبات کی حدت کو بڑھا دیتا ہے۔
گلگت بلتستان میں دسمبر صرف موسم کی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ یہ محبت، خلوص، اور قربت کا احساس جگانے والا مہینہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب قدرت کے حسین مناظر، انسانی جذبات، اور پرانی روایات ایک دوسرے میں گُھل مل کر ایک انمٹ نقش چھوڑ دیتے ہیں۔
گو کہ یہ مہینہ سال کا اختتام ہے، مگر اس کے اختتام کے ساتھ ہی کئی یادیں، کئی کہانیاں، اور کئی جذبات کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔ دسمبر جا رہا ہے، لیکن اپنی سرد ہواؤں، دہکتے انگاروں، اور یادوں کے گہرے نقش کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دلوں میں بس جاتا ہے۔