ہمارے معاشرے میں جو بے چینی، عدم برداشت، اور جارحیت سرایت کر چکی ہے، وہ اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ یہ ایک طویل عمل کا نتیجہ ہے، جس میں کئی عوامل نے مل کر ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ آج اختلافِ رائے جرم بن چکا ہے، تنقید ناقابل معافی سمجھی جاتی ہے، اور غریب ہونا گویا گناہ۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کب اور کیسے ہوا؟ اس تبدیلی کے پیچھے کون سے محرکات ہیں؟
پہلے اختلافِ رائے کو برداشت کیا جاتا تھا، لوگ مکالمہ کرتے تھے، دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، مگر آج معاملہ بالکل الٹ چکا ہے۔ اگر آپ کسی سیاستدان پر تنقید کریں تو اس کے حامی آپ پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اگر کسی مذہبی شخصیت یا مولوی کی بات پر سوال اٹھائیں تو فوراً کفر کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ یوں نہیں ہوا کہ لوگ فطری طور پر عدم برداشت کا شکار ہو گئے، بلکہ اس کے پیچھے مخصوص قوتیں ہیں جنہوں نے لوگوں کے ذہنوں کو بند کرنے کا کام کیا ہے۔ سیاستدانوں نے اپنی پوزیشن کو مضبوط رکھنے کے لیے اپنے چاہنے والوں کو اندھی تقلید کی ترغیب دی، مذہبی رہنماؤں نے ہر سوال اٹھانے والے کو "باغی” قرار دے کر اپنی اجارہ داری قائم رکھی، اور یوں ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا جہاں مکالمہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
تنقید کسی بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری ہوتی ہے، مگر جب حکمران، علمائے دین، اور دیگر بااثر طبقات خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگیں تو تنقید کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہی ہوا۔ میڈیا، سوشل میڈیا، اور دیگر پلیٹ فارمز پر ایسی فضا بنا دی گئی کہ جو بھی کسی طاقتور شخصیت یا طبقے پر تنقید کرے، اسے ذلیل و رسوا کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ یا تو خاموش رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں یا پھر انتہا پسند رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر آپ غریب یا مڈل کلاس ہیں تو آپ کا جینا محال ہو چکا ہے۔ دولت کے بغیر عزت نہیں، تعلقات کے بغیر کوئی حق نہیں، سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں۔ دکاندار تک آپ کو حقارت سے دیکھتا ہے اگر آپ قیمت کم کرنے کا مطالبہ کر دیں۔
یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے اثرات کا نتیجہ ہے، جہاں ہر چیز کو پیسے کے ترازو میں تولا جانے لگا ہے۔ امیر طبقہ طاقتور ہو چکا ہے، اور غریب کی آواز دب چکی ہے۔
یہ سب کچھ صرف چند برسوں میں نہیں ہوا، بلکہ کئی دہائیوں سے یہ زہر ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہا تھا۔ چند اہم عوامل درج ذیل ہیں:
1. تعلیم کا زوال: جب لوگوں کو سوال کرنے، سوچنے، اور سمجھنے کی صلاحیت نہ دی جائے تو وہ اندھی تقلید کا شکار ہو جاتے ہیں۔
2. میڈیا کا کردار: ایک وقت تھا جب میڈیا عوام کی آواز تھا، مگر اب زیادہ تر میڈیا مخصوص ایجنڈوں کا حصہ بن چکا ہے۔
3. سوشل میڈیا کا منفی استعمال: بجائے اس کے کہ یہ پلیٹ فارم مثبت مکالمے کا ذریعہ بنتے، یہ نفرت، پروپیگنڈے، اور عدم برداشت کے گڑھ بن گئے۔
4. سیاست میں شدت پسندی: سیاسی رہنماؤں نے اپنے حامیوں کو سوچنے کے بجائے صرف حمایت کرنے کا درس دیا، اور نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی وابستگی مذہب سے بھی زیادہ مقدس ہو گئی۔
5. معاشی عدم استحکام: جب معیشت خراب ہوتی ہے، تو لوگوں میں فرسٹریشن بڑھتی ہے، اور وہ اس کا غصہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نکالنے لگتے ہیں۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ ہم اس زوال سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ چند بنیادی نکات درج ذیل ہیں:
1. تعلیم کو بہتر بنانا: ایک ایسی تعلیمی پالیسی بنائی جائے جو سوالات کرنے اور مکالمے کی حوصلہ افزائی کرے۔
2. میڈیا کو ذمہ دار بنانا: میڈیا کو محض سنسنی خیزی کے بجائے مثبت مکالمے کو فروغ دینا ہوگا۔
3. سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنا: لوگوں کو تربیت دی جائے کہ وہ اختلافِ رائے کو برداشت کریں اور دوسروں کی رائے کا احترام کریں۔
4. سیاسی شعور اجاگر کرنا: عوام کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سیاستدانوں کی حمایت عقیدت نہیں، بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
5. معاشی نظام کی بہتری: جب تک معاشی انصاف نہیں ہوگا، طبقاتی تفریق برقرار رہے گی، اور لوگوں میں مایوسی اور غصہ بڑھتا رہے گا۔
ہم جس معاشرتی زوال کا شکار ہیں، اس سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں برداشت، مکالمے، اور اختلافِ رائے کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا نہ کر سکے، تو یہ زوال مزید گہرا ہوتا جائے گا اور ہمارے معاشرے کی بنیادیں مکمل طور پر کمزور ہو جائیں گی۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں اور ایک مثبت، متوازن، اور باشعور معاشرے کی تشکیل کے لیے کام کریں۔