دنیا آج جس بڑے خطرے سے دوچار ہے، وہ صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی، معاشی، سماجی اور صنفی بحران بن چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (WMO) کی حالیہ رپورٹ نے ایک خوفناک منظرنامہ پیش کیا ہے، جس کے مطابق 1970ء سے لے کر 2021ء تک دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑی قدرتی آفات نے 20 لاکھ سے زائد انسانی جانیں نگل لی ہیں اور دنیا کو چار ٹریلین ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان پہنچایا ہے، WMO کے سیکرٹری جنرل پروفیسر سیلسٹے ساؤلو کا کہنا ہے کہ دنیا مسلسل گرم ہو رہی ہے، اور ہم ہر سال پہلے سے زیادہ شدید ہیٹ ویوز، طوفان، سیلاب اور گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی یومِ موسمیات 2024 کا موضوع رکھا گیا: ”Closing the Early Warning Gap Together” یعنی "مل کر ابتدائی انتباہی نظام کے خلا کو پُر کرنا”۔ کیونکہ جلد از جلد اور درست معلومات کی فراہمی کئی انسانی جانوں کو بچا سکتی ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کے ان 10 سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ملک بھر میں شدید گرمی، بے وقت بارشیں، غیر متوقع سیلاب، گلیشیئرز کا تیز رفتار پگھلاؤ، اور پانی کی قلت جیسے مسائل نے زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رکھا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو 2030ء تک موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے کم از کم 350 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ملک کے 75 فیصد آبی وسائل متاثر ہو چکے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے، اور 90 فیصد خوراک کی پیداوار براہِ راست متاثر ہو رہی ہے۔ ہر سال ملک کی جی ڈی پی کا 14 فیصد موسمیاتی آفات کی نذر ہو جاتا ہے، اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو 2050ء تک یہ نقصان 20 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیات یا معیشت کا مسئلہ ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ ایک سماجی انصاف اور صنفی مساوات کا مسئلہ بھی ہے۔ خاص طور پر خواتین، خاص طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار بن رہی ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خواتین نے نہ تو صنعتی انقلاب میں کاربن کے اخراج سے متعلق فیصلے کیے، نہ وہ بڑی فیکٹریوں کی مالک تھیں، اور نہ ہی وہ وہ پالیسیاں بناتی ہیں جو ماحول کو آلودہ کرتی ہیں۔ لیکن جب خشک سالی، سیلاب، خوراک کی قلت، یا گرمی کی لہر آتی ہے، تو خواتین ہی وہ پہلی ہستی ہوتی ہیں جو ان کے منفی اثرات کو برداشت کرتی ہیں۔دیہی علاقوں میں پانی کی قلت کی وجہ سے خواتین کو روزانہ کئی میل دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔ خاص طور پر سندھ کے بعض علاقوں میں خواتین کا دن کا بیشتر حصہ صرف پانی کی تلاش میں گزر جاتا ہے۔ اس صورتحال کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کم عمر بچیوں کو تعلیم سے محروم کر کے گھریلو خواتین کی مدد کے لیے پانی بھرنے پر لگا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی 70 فیصد دیہی خواتین زراعت سے وابستہ ہیں، اور کھیتوں میں مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ وہ بیج بوتی ہیں، کھاد ڈالتی ہیں، فصل کاٹتی ہیں، لیکن جب زمین بنجر ہو جائے، بارشیں بے وقت ہوں یا فصلیں برباد ہو جائیں، تو ان کی معاشی خودمختاری سب سے پہلے متاثر ہوتی ہے۔ ان کی آمدن ختم ہو جاتی ہے ، اور وہ مزید پسماندگی کی طرف دھکیل دی جاتی ہیں۔
مسئلہ صرف یہ نہیں کہ خواتین متاثر ہو رہی ہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ ان کے تحفظات اور ضروریات کو پالیسی سازی میں شمولیت نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب فیصلے مرد بناتے ہیں، اور ان کا محور بھی مردوں کے مفادات ہوتے ہیں، تو خواتین کی مخصوص ضروریات مثلاً ماں بننے کی صحت، پانی تک رسائی، یا بچوں کی خوراک جیسے مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
اگر ہم موسمیاتی تبدیلی کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جن میں خواتین کو مرکزی کردار دیا جائے۔ یہ پالیسیاں صرف امداد دینے پر مبنی نہیں ہونی چاہییں، بلکہ انہیں خواتین کو فیصلہ سازی، تعلیم، وسائل تک رسائی، اور قیادت کے مواقع فراہم کرنے والی ہونی چاہییں۔ دنیا بھر میں موسمیاتی انصاف کے حوالے سے بحث تیز ہو چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جنہوں نے صدیوں تک ماحول کو آلودہ کیا، ان پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی کاربن کا اخراج کم کریں بلکہ ترقی پذیر ممالک، خصوصاً متاثرہ خواتین کی مدد کے لیے فنانسنگ، ٹیکنالوجی اور تربیت فراہم کریں۔
COP28 جیسے بین الاقوامی فورمز پر صنفی مساوات کو ایجنڈے کا حصہ بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ اقدامات صرف عالمی سطح پر ہی نہیں، بلکہ قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر بھی ہونے چاہییں۔اگرچہ صورتحال سنگین ہے، لیکن مایوس کن نہیں۔ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں ایسی خواتین کی کمی نہیں جو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف سرگرم ہیں،چاہے وہ مقامی کسان ہوں، ماحولیاتی کارکن ہوں، یا سائنس دان۔ ہمیں ان کی آواز کو بلند کرنا ہوگا، ان کی قیادت کو تسلیم کرنا ہوگا، اور انہیں وسائل فراہم کرنے ہوں گے تاکہ وہ تبدیلی کی ایجنٹ بن سکیں۔ موسمیاتی بحران ایک ایسا چیلنج ہے جو صرف درختوں، بارشوں، یا گلیشیئرز تک محدود نہیں۔ یہ ہماری زندگیوں، معیشت، صحت، تعلیم، اور سب سے بڑھ کر ہمارے سماجی ڈھانچے کو متاثر کر رہا ہے۔ اور اگر ہم اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ صنفی انصاف موسمیاتی انصاف کا بنیادی حصہ ہے۔
خواتین صرف متاثرہ نہیں ہیں—وہ حل کا حصہ ہیں۔ ان کی آواز کو سنا جائے، ان کی قیادت کو تسلیم کیا جائے، اور انہیں وہ وسائل دیے جائیں جن سے وہ اپنے، اپنے خاندانوں اور اپنی زمین کی حفاظت کر سکیں۔