22 اپریل 2025 کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک دہشت گرد حملے میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوئے۔
آج بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے افسوسناک دہشتگرد حملے کے بعد مجھے ایک بھارتی ٹی وی ٹاک شو میں اپنے مؤقف کے اظہار کا موقع ملا۔ تاہم، اس گفتگو کے دوران یہ بات شدت سے محسوس کی کہ بھارتی میڈیا چیخ و پکار اور جذباتی نعروں کے ذریعے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ اصل مسائل کو اُجاگر کرے۔
بھاتی چینل کے ساتھ گفتگو اس لنک پر ملاحظہ فرمائیں
میری بنیادی بات یہ تھی کہ بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات، درحقیقت دہشتگردوں کے ایجنڈے کو تقویت دینے کے مترادف ہیں۔ دہشتگرد یہی چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ بڑھے، تعلقات کبھی بہتر نہ ہو سکیں، اور خطے میں مستقل کشیدگی برقرار رہے۔ یہی مقصد کچھ عالمی طاقتوں اور اسلحہ کے کاروبار سے وابستہ عناصر کا بھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا ہمیشہ تنازع کا شکار رہے تاکہ ان کی تجارت فروغ پائے۔
بھارت میں اس وقت اپوزیشن پر تول رہی ہے اور مودی سرکار کو کڑے امتحان کا سامنا ہے ۔ اپوزیشن کے حملے اور میڈیا کے دباؤ نے مودی سرکار کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے ۔ حملے کے بعد بھارتی حکومت نے جو اعلانات کیے ہیں وہ دہشت گرد گروہوں کا ایجنڈا بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں ۔ مودی سرکار نان سٹیٹ ایکٹرز کے پھیلائے ہوئے جال کا شکار ہو چکی ہے ۔ مودی جی کو دہشت گرد گروہ اس مقام سے بھی آگے لے گئے جہاں تک خود دہشت گرد بھی جانے کا سوچ نہیں سکتے تھے ۔ یہ معاملہ مودی جی کی مقبولیت میں کمی کو ایک خاص ہدف تو پورا کرے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا ۔ تاہم فائدہ در و دیوار پھلانگ کر ہو گا ۔
اس وقت دونوں ریاستوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہوش مندی کا مظاہرہ کریں، جذبات کے بجائے عقل و حکمت سے کام لیں، اور خطے کو کسی نئی تباہی کی طرف لے جانے کے بجائے امن کی راہ پر گامزن کریں۔ ریاستوں کو اپنی اندرونی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے دہشتگردوں یا نام نہاد “نان اسٹیٹ ایکٹرز” کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔
بھارتی حکومت نے اس حملے کو 2008 کے بعد سے سب سے مہلک شہریوں پر حملہ قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ بھارتی حکام نے پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا ہے، جسے پاکستان نے مسترد کیا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ زمینی سرحد بند کر دی ہے، سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے اور پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا اسکیم منسوخ کر دی ہے۔
پاکستانی حکومت نے حملے کی مذمت کی ہے اور کشمیری عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان تمام مسائل، بشمول کشمیر، کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 5 اگست 2019 کے اقدامات پر نظر ثانی کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو خود ارادیت کا حق دے۔
یہ واقعہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں تناؤ بڑھنے کا خدشہ ہے، اور خطے میں امن و استحکام کے لیے بین الاقوامی برادری کی مداخلت کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔