پاک بھارت کشیدگی اور موجودہ صورتحال

پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات دن بدن کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں حالیہ دہشت گرد حملے کو بھارت نے جواز بنا کر محض دو سے پانچ منٹ کے اندر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی، وہ بھی بغیر کسی تحقیق یا ثبوت کے۔ پاکستان نے نہ صرف اس واقعے کی پرزور مذمت کی بلکہ اسے بھارت کا ایک اور ”فالس فلیگ آپریشن“ قرار دے کر تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔ بھارتی حکومت کی یہ حکمت عملی کوئی نئی نہیں۔ بلکہ کسی بھی نا خوش گوار واقعے کو بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پہ تھونپ دینا بھارت کا پرانا وطیرہ ہے۔ اس فالس فلیگ کا مقصد نہ صرف دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں سے ہٹانا ہے، بلکہ داخلی سطح پر سیاسی فوائد سمیٹنا اور پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک غیر ذمے دار ریاست کے طور پر پیش کرنا بھی اس کا ایجنڈا ہے۔

بھارت کی طرف سے یہ پوری منصوبہ بندی اور کشیدگی کا ایک اور پہلو بھارت کی آبی جارحیت ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت نے دریائے چناب کا پانی روک کر پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔

اب اس کا اگلا ہدف دریائے جہلم کو کشن گنگا ڈیم کے ذریعے قابو میں لینا ہے۔ بگلیہار ڈیم پر اسپل وے کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں، جس سے پاکستانی پنجاب کے لاکھوں ایکڑ زرعی رقبے کو پانی کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

یہ ایک کھلی آبی جنگ کا اعلان ہے۔ سندھ طاس معاہدہ، جو کہ 1960 میں عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا، بھارتی اقدامات سے شدید خطرے میں ہے۔

بھارت اس معاہدے کو توڑ کر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش کر رہا ہے، اور اس کا جواز بھی اسی پہلگام حملے جیسے ڈراموں کے ذریعے تراشا جا رہا ہے۔

پاکستان نے اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی۔ یہ اجلاس پیر اور منگل کی درمیانی شب کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں بھارتی اشتعال انگیزی، خطے کی سکیورٹی صورتحال اور کشمیر کے مسئلے پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ متعدد ارکان نے بھارتی اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا اور مسئلہ کشمیر کو جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کے حل پر زور دیا۔

پاکستانی مندوب نے بھارت کی 23 اپریل کی یکطرفہ کارروائیوں اور انٹیلیجنس اطلاعات کے تناظر میں ممکنہ عسکری کارروائیوں کے خدشات سے بھی آگاہ کیا۔ اجلاس میں واضح کیا گیا کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ توڑنے کی کوشش کرتا ہے یا دریاؤں کا پانی روکتا ہے، تو یہ عمل عملی طور پر جنگ کا اعلان تصور کیا جائے گا۔

سرحدی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی مسلح افواج مکمل تیاری کے ساتھ چوکس ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں عوامی سطح پر افواج پاکستان کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں ہیں، جن میں قومی یکجہتی اور دفاعِ وطن کے عزم کا بھرپور اظہار کیا گیا۔ ابدالی میزائل کا حالیہ کامیاب تجربہ، جو ایٹمی صلاحیت کے ساتھ ساڑھے چار سو کلومیٹر دور تک مار کر سکتا ہے، الحمد للّٰہ اس تیاری کا عملی ثبوت ہے۔ اسی تسلسل میں میزائل ”فتح“ کی سیریز کا بھی ایک اور کامیاب تجربہ کیا گیا، جس نے پاکستان کے دفاع کو مزید ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔

پاکستان ہر سطح پر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کر رہا ہے سفارتی سطح پر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار عالمی برادری کو بھارتی اقدامات کے خطرناک نتائج سے مسلسل آگاہ کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے غیر ملکی دورے منسوخ کر دیئے اور عالمی رہنماؤں سے رابطے بڑھا دیے۔ ملائیشیا، روس، ترکی، یورپین ممالک ایران، خلیجی ممالک اور اقوام متحدہ کے ساتھ رابطے کیے گئے ہیں تاکہ پاکستان کا مؤقف اور خطے میں امن کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔

ملائیشیا کے وزیراعظم اور ترک صدر نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ روسی وزیر خارجہ سے گفتگو میں بھی بھارت کی جانب سے ممکنہ جارحیت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا، جبکہ ماسکو میں تعینات پاکستانی سفیر نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر بھارت نے حملہ کیا، تو پاکستان اپنی دفاعی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے بھرپور جواب دے گا، چاہے وہ روایتی ہو یا جوہری۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور توقع کی جا رہی تھی کہ وہ دہلی میں بھی ثالثی کے لیے بات آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ سب اقدامات ظاہر کر رہے تھے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، لیکن اپنی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللّٰہ تارڑ اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے حالیہ دنوں میں ملکی سیاسی قیادت کو بھی بریفنگ دی تھی، جس میں بھارت سے کشیدگی، دفاعی تیاریوں اور ممکنہ خطرات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے تمام علاقوں کو مقامی و بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو دورہ کروایا گیا تا کہ بھارت کا یہ پراپیگنڈہ بھی بے نقاب کیا جا سکے کہ آزاد کشمیر میں کسی عسکریت پسند گروپ کے ٹریننگ کیمپس موجود ہیں، انٹرنیشنل میڈیا نے بھی آزاد کشمیر ، ایبٹ آباد اور تمام ایسے علاقے جہاں بھارت نے شکوک وشبہات کا اظہار کیا تھا، کا دورہ کرنے کے بعد تمام تر حقائق اپنے اپنے پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھ دئیے تھے۔ اور بھارتی پراپیگنڈہ یہاں بھی بری طرح نا کام ہو چکا تھا۔

جبکہ منگل کے روز وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سروسز چیفس کے ہمراہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کا بھی دورہ کیا۔ اس دورے میں انہیں مشرقی سرحد پر بھارت کی جارحانہ حکمت عملیوں، ہائبرڈ وارفیئر اور دہشت گرد پراکسیز سمیت موجودہ سکیورٹی چیلنجز پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اس بریفننگ کے بعد وزیراعظم نے قومی دفاعی حکمت عملیوں، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور فیصلہ کن ردعمل کی تیاریوں پہ اطمینان کا اظہار کیا۔ قیادت نے ریاستی اداروں کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے واضح کیا کہ قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے روایتی یا غیر روایتی کسی بھی خطرے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

پاکستان نے بارہا دنیا کو متنبہ کیا تھا کہ اگر دو ایٹمی قوتیں براہ راست تصادم میں آئیں، تو اس کے نتائج صرف اس خطے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا اس کے اثرات کی لپیٹ میں آئے گی۔ بھارت کی آبی جارحیت، اشتعال انگیزی، اور فالس فلیگ آپریشنز عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود بھارت نے اپنی عوام کے سامنے فیس سیونگ کے لیے منگل اور بدھ کی درمیانی رات پاکستان پہ جارحیت کی، اور بہاولپور (احمد پور شرقیہ، مظفر آباد اور مرید کے) میں سویلین آبادی اور مساجد کو میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ جن میں معصوم بچوں سمیت 26 افراد شہید اور 46 زخمی ہوئے،بھارت کی جانب سے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے نوسیری ڈیم کے اسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا اور اسے نقصان پہنچایا گیا، ہائیڈرو اسٹرکچر کو نشانہ بنایا ایک ناقابل قبول اور خطرناک شر انگیزی ہے۔ بھارت نے جوں ہی حملہ کیا تو پاکستانی شاہینوں نے اڑان بھری اور فی الفور کاروائی کرتے ہوئے دشمن کو دھول چٹا دی، جوابی کارروائی میں پاک فضائیہ نے بھارت کے 5 لڑاکا طیارے، جن میں 3 جدید رافیل شامل تھے، مار گرا کر نہ صرف اپنی فضائی برتری ثابت کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اثرات مرتب کیے، جس کے نتیجے میں ڈسالٹ ایوی ایشن (رافیل بنانے والی کمپنی) کے شیئرز گر گئے جبکہ چینی ساختہ جے ایف-17 اور J-10C طیاروں کی مانگ بڑھی۔ہماری فضائیہ کی یہ کارروائی نہ صرف عسکری کامیابی تھی بلکہ سائبر و الیکٹرانک وارفیئر میں پاکستان کی مہارت کا ثبوت بھی بنی۔

بھارتی دفاعی ماہرین بھی اس برتری کا اعتراف کر چکے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی اور تیاری بھارت سے کئی قدم آگے ہے الحمد للّٰہ ۔

اطلاعات کے مطابق پاک فضائیہ اور فوج نے بھارت کی کئی چیک پوسٹوں کو بھی تباہ کیا، سیز فائر کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کو بھی نشانہ بنا کر تباہ کر دیا گیا، چھتری پوسٹ، جورا پوسٹ، شاہپور تھری پوسٹ اور دیگر پوسٹوں کو بھی تباہ کر دیا گیا۔

بھارت نے بدھ کی علی الصبح کو لائن آف کنٹرول کے چورا کمپلیکس پہ سفید پرچم لہرا کر اپنی شکست تسلیم کی۔

بھارت کی جارحیت کا جواب تو اس کو نقد اور دوگنا دے دیا گیا لیکن بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی بھی کی ہے، جبکہ پاکستان نے کسی بھی سویلین آبادی کو نشانہ بنائے بغیر مکمل ذمے داری کے ساتھ کاروائی کی ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم نے نہ صرف زبردست جواب دیا ہے بلکہ اب دشمن جواب کے لیے تیار رہے ہم جواب دیتے رہیں گے۔ اور دشمن کو دھول چٹا دیں گے۔

سات اور آٹھ مئی کی درمیانی رات سے لے کر آٹھ کی دوپہر تک بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں تقریباً 32 ڈرون بھیجے گئے۔ بظاہر یہ ایک جارحانہ کارروائی لگتی ہے، لیکن پاکستان کی حکمت عملی اس بار دفاعی سے زیادہ تدبیری تھی۔ دشمن کے ان ڈرونز کو روکنے کی بجائے، پاکستانی افواج نے ان کے عزائم اور ٹیکنالوجی کو سمجھنے کے لیے انہیں مخصوص حد تک اندر آنے دیا۔ یہ ڈرونز دراصل جدید اسرائیلی ساختہ تھے اور ان کا بنیادی مقصد پاکستان کے ائیر ڈیفنس سسٹمز کی ریڈیئیشنز کو ٹریس کر کے ان کی لوکیشن دشمن کو فراہم کرنا تھا۔ اگر پاکستان ہر ڈرون کو لانگ رینج میزائل سسٹمز سے نشانہ بناتا، تو دشمن ہمارے حساس دفاعی نظاموں کی پوزیشنز سے آگاہ ہو جاتا۔ لہٰذا افواجِ پاکستان نے فوری طور پر حکمت عملی بدلی اور جیمنگ، لوکل گن سسٹمز، اور محدود سطح پر گراؤنڈ بیسڈ دفاعی اقدامات استعمال کرتے ہوئے ان ڈرونز کو تباہ کیا۔ یہ اقدام نہ صرف ایک تکنیکی دفاع تھا بلکہ دشمن کو ایک واضح پیغام بھی دیا گیا کہ پاکستان نہ صرف ان کی چالوں سے واقف ہے، بلکہ کسی بھی جارحیت کا مؤثر اور محتاط جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 32 ڈرونز کا مار گرایا جانا پاکستان کی تکنیکی برتری اور اسٹریٹجک فہم کا مظہر ہے۔ ان ڈرونز کی وجہ سے بھی کچھ شہادتوں کی اطلاع ہے اور کچھ جوان زخمی بھی ہیں، لائن آف کنٹرول پر اب تک تقریباً 70 سے زائد بھارتی فوجی ہلاک کیے جا چکے ہیں, بھارت نے آٹھ مئی کو یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ گزشتہ رات کو پاکستان نے پندرہ شہروں پہ حملہ کیا ہے جسے نا کام بنا دیا گیا ہے، جس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کو کہنا تھا کہ یہ سب پراپیگنڈہ ہے پاکستان جب جواب دے گا اور حملہ کرے گا تو اس کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے گی۔

آٹھ اور نو مئی کی درمیانی شب بھی بھارتی جارحیت جاری رہی ،حاجی پیر سیکٹر میں پاکستان کی بھارتی فوج کیخلاف موثر جوابی کارروائی کی گئی ،بلا اشتعال فائرنگ کے جواب میں افواج پاکستان نے بھارتی فوج کی جھنڈا زیارت پوسٹ کو تباہ کر دیا۔

اس پوری حالیہ بھارتی جارحیت کا پورا پورا جواب دینا ابھی باقی ہے پاکستان کا جواب شدید اور سخت ہو گا۔ پاکستان دشمن کی مرضی سے نہیں اپنی مرضی سے جواب دے گا۔

سوال یہ ہے کہ عالمی سطح کے اداروں اور ممالک پر کیا ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، عالمی سطح پر ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کر کے سوال کرے کہ اگر بھارت کی اس جارحیت کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں سے جنگ چھڑ جاتی ہے تو ذمے دار کون ہو گا؟؟

اقوام متحدہ، عالمی طاقتیں، اور علاقائی دوست ممالک فوری طور پر حرکت میں آئیں، اور بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ سنجیدگی سے مذاکرات کی میز پر آ کر اپنے تمام انتہا پسندانہ اقدامات کو واپس لے۔

بصورت دیگر، بھارتی جارحیت اور مسلسل پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش میں بھارت سے پاکستان جواب لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے پاس پھر انتہائی اقدامات کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ پاکستان نے اب بھی مکمل ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن پاکستان کی قیادت کئی مرتبہ واضح کر چکی ہے کہ ہمیں اپنی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی منظور نہیں۔ اس نازک مرحلے پر عالمی برادری کا مؤثر کردار نہایت ضروری ہے تاکہ خطہ کسی بھی ایٹمی جنگ سے بچ سکے اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے