13 مئی 1951ء کو اردو ادب اور برصغیر کی سیاسی جدوجہد کا ایک روشن ستارہ، مولانا حسرت موہانی، لکھنؤ میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ اصل نام سید فضل الحسن، 1875ء میں اتر پردیش کے قصبے موہان میں پیدا ہوئے۔ ایم اے او کالج علی گڑھ سے فارغ التحصیل مولانا حسرت موہانی نے طالب علمی ہی کے زمانے میں سیاسی شعور حاصل کرلیا تھا۔
انہوں نے علی گڑھ سے اپنا معروف اردو رسالہ "اردوئے معلیٰ” جاری کیا جو ایک طرف ادبی میدان میں ان کی صلاحیتوں کا مظہر تھا اور دوسری طرف سیاسی شعور بیدار کرنے کا ذریعہ بھی بنا۔ کانگریس سے وابستگی کے بعد وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کا بھی حصہ رہے۔ ان کی بے باک صحافت اور بے خوف سیاست نے انہیں بارہا جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا، مگر وہ کبھی اصولوں سے پیچھے نہ ہٹے۔
قائداعظم محمد علی جناح سمیت کئی سیاسی اکابرین ان کی حق گوئی کے معترف تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی انہوں نے بھارت میں رہتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔
مولانا حسرت موہانی صرف ایک سیاست دان نہیں تھے، بلکہ ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔ ان کا دیوان آج بھی اردو شاعری کے چاہنے والوں میں مقبول ہے۔ ان کا ایک مشہور شعر آج بھی ان کی مزاحمتی طبیعت کی عکاسی کرتا ہے:
ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے، حسرت کی طبیعت بھی
مولانا حسرت موہانی کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اصولوں، ادب، اور قوم کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ ان کی خدمات رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔