پاکستان نے 10 مئی 2025کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کیا‘ یہ ریکارڈ اب کیس اسٹڈی بن چکا ہے اور یہ دنیا بھر کی ملٹری اکیڈمیز میں جنرل عاصم منیر اور ائیرچیف مارشل ظہیر بابر سندھو کے نام سے پڑھائی جائے گی‘ پاکستان نے 10مئی کی صبح ایک گھنٹے میں کیا کمال کیا ہمیں یہ جاننے کے لیے 27 ستمبر 1925 میں جانا پڑے گا اور اس سے بھی پہلے ہمیں ناگ پور کے ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگیوار(Keshav Baliram Hedgewar) کو کھوجنا پڑے گا‘ ان دونوں کا10 مئی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
یہ سو سال پرانی داستان ہے‘ پہلی جنگ عظیم کے بعد اٹلی میں فاشزم کی تحریک شروع ہوئی اور یہ تیزی سے پورے یورپ میں پھیل گئی‘فاشزم کا تصور یورپی اخبارات‘ رسائل اور کتابوں کے ذریعے ہندوستان آیا‘ ڈاکٹر ہیڈگیوار نے اس مطالعے کے بعد سوچا اگر اٹلی صرف اٹالین ‘ فرانس فرنچ‘ جرمنی جرمن اور انگلینڈ صرف انگلش لوگوں کے لیے ہے تو پھر ہندوستان صرف ہندوؤں کے لیے کیوں نہیں ہے یہاں دوسرے مذاہب کے لوگ کیوں آباد ہیں؟ اس سوچ نے ہیڈگیوار کو ناگ پور میں 27 ستمبر 1925کو راشٹریہ سیوک سنگھ کے نام سے ہندو قوم پرست جماعت کی بنیاد رکھنے پر مجبور کر دیا‘ یہ بعدازاں آر ایس ایس کہلانے لگی۔
اس جماعت کے دو بڑے مقاصد تھے‘ ہندوستان سے دوسری تمام اقوام کو ہر صورت بے دخل کرنااور ملک میں کٹڑ ہندو نظریات نافذ کرنا‘ ڈاکٹر ہیڈگیوار نے ان مقاصد کے حصول کے لیے فوجی ٹریننگ کے ادارے اور ہندوازم کی تعلیم کے لیے اسکول کھولے‘ اس نے ممبرز کے لیے وردی بھی بنائی اور زعفرانی رنگ کا جھنڈا بھی‘ ٹریننگ کیمپوں میں طالب علموں کو لاٹھی‘تلوار‘ بھالے اور خنجر کی ٹریننگ دی جاتی تھی جب کہ اسکولوں میں سنسکرت زبان میں ہندوازم کی تعلیم کا بندوبست تھا‘ جماعت کا سائز 1927تک ٹھیک ٹھاک ہوگیا‘ یہ لوگ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے جب کہ کانگریس اور مسلم لیگ ملک کو ہندو اور مسلم حصوں میں تقسیم کرنا چاہتی تھی چناںچہ آر ایس ایس دونوں کے خلاف ہو گئی‘ یہ اختلاف انگریزوں کو سوٹ کرتا تھا چناں چہ برطانوی حکومت نے آر ایس ایس کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا‘ انگریز کی مرضی سے یہ لوگ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہوگئے۔
اپنے دفتر بنائے‘ طالب علم داخل کرائے اور اساتذہ کو فیکلٹی میں شامل کرایا‘ بہرحال قصہ مختصر 1947 تک آر ایس ایس پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی‘ شہروں اور قصبوں میں اس کے کارندے نظر آتے تھے‘ ہندوستان تقسیم ہوا تو آر ایس ایس نے ٹھیک ٹھاک مخالفت کی یہاں تک کہ آر ایس ایس کے ایک رکن نتھو رام گوڈسے نے 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا‘ جواہر لال نہرو اور قائداعظم بھی ان کی ہٹ لسٹ پر تھے لیکن یہ دونوں بچ گئے۔
آر ایس ایس نے بعدازاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نام سے اپنا سیاسی ونگ بھی بنا لیا‘ یہ شروع میں بھاتیہ جتا سنگھ تھا لیکن یہ بعدازاں دوسری ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی ہو گئی‘ بی جے پی شروع میں بری طرح فیل ہو گئی لیکن یہ لوگ جدوجہد کرتے رہے‘ 1984 میں اس نے جنرل الیکشن میں صرف دو سیٹیں حاصل کیں لیکن کانگریس کی غیرمقبولیت اور گاندھی خاندان کی سیاسی حماقتوں کی وجہ سے بی جے پی کا گراف بڑھتا چلا گیا‘ اٹل بہاری واجپائی‘ ایل کے ایڈوانی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے دن رات محنت کی جس کے نتیجے میں 1996 میں بی جے پی لوک سبھا کی اکثریتی جماعت بن گئی اور اس نے 13 دن کی حکومت بھی بنا لی‘یہ 1998میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے ذریعے لمبی مخلوط حکومت بنانے میں کام یاب ہو گئی۔
اٹل بہاری واجپائی اس حکومت کے وزیراعظم تھے‘ یہ لوگ اقتدار میں آ گئے لیکن ان کی سوچ متعصب ہندوانہ تھی‘ ان کے ایک دانشور ویناک دمندر سواکار نے ہندوتوا کے نام سے آر ایس ایس کو ایک اصطلاح بھی دے دی تھی‘ ہندوتوا کا مطلب تھا ہندوماتا پر صرف ہندورہ سکتے ہیں‘ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس نے مسجدوں‘ چرچز‘ جین مندروں اور بودھ ٹمپلز پر حملے شروع کر دیے‘ نریندرمودی 2001 سے 2014تک گجرات کا چیف منسٹر رہا‘ اس کے زمانے میں مارچ 2002میں گجرات میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے اورجون 2002تک 1000 کے قریب مسلمان قتل کر دیے گئے۔
ہزاروں عورتیں ریپ ہوئیں‘ آر ایس ایس کے غنڈوں نے چھوٹے معصوم بچے بھی نہ چھوڑے‘ نریندر مودی کی زندگی کا بڑا حصہ آر ایس ایس اور بی جے پی میں گزرا تھا لیکن بہرحال اس نے مسلمانوں کے خلاف تعصب کے باوجود گجرات میں 13 سال بہت اچھا پرفارم کیا‘ گجرات کی معیشت نے پورے بھارت میں ریکارڈ قائم کر دیا‘ یہ اس پرفارمنس کی بنیاد پر 2014 میں وزیراعظم بن گیا اور یہاں سے نئی کہانی شروع ہو گئی۔
نریندر مودی 2014 سے 2019تک وزیراعظم رہا‘ یہ دوسری مرتبہ 2019 میں وزیراعظم بنا اور مخلوط حکومت کے ذریعے2024 میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گیا‘ اس کے ادوار میں پورے ہندوستان میں آگ لگی رہی‘ یہ ایک طرف معیشت میں کمال کرتا رہا اور دوسری طرف یہ اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا رہا‘ بھارت میں اس کے زمانے میں سیکڑوں مسجدیں‘ چرچ اور ٹمپلز توڑ دیے گئے‘ ہزاروں لوگ نسل کش فسادات میں مارے گئے‘ آر ایس ایس اکھنڈ بھارت کی دعوے دار ہے‘ یہ مسلمانوں کو قتل کر کے بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں کو دوبارہ بھارت میں شامل کرنا چاہتی ہے‘ مودی ہمیشہ اس نفرت کا الیکشنز میں فائدہ اٹھاتا رہا‘ دوسری طرف آر ایس ایس دنیا کی سب سے بڑی رائیٹ ونگ کی تنظیم بن گئی‘ اس کے ممبرز کی تعداد 70 لاکھ تک پہنچ گئی۔
بی جے پی کی14ریاستوں میں حکومتیں بھی ہیں‘ آر ایس ایس نے2014کے الیکشن سے قبل فیصلہ کیا تھا یہ 75 سال سے اوپر کے سیاست دانوں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دے گی‘ ایل کے ایڈوانی اور ڈاکٹر منوہر جوشی اس فیصلے کی وجہ سے سیاسی دوڑ سے باہر ہوئے تھے اور نریندر مودی کو آگے بڑھنے کا موقع مل گیا‘ بہرحال قصہ مختصر بھارت میں پاکستان دشمنی اور اسلامی دہشت گردی ’’ہاٹ پراڈکٹ‘‘ ہے‘ مودی نے ہمیشہ اس کا فائدہ اٹھایا‘ 2014کے الیکشنز سے قبل 27 اکتوبر 2013 کو پٹنہ میں مودی کی ریلی میں بم دھماکے ہوئے‘ مودی نے یہ پاکستان کے کھاتے میں ڈالے اور الیکشن تک پاکستان کو بدلے کی دھمکیاں دیتا رہا اور ووٹوں میں اضافہ کرتا رہا‘ 14 فروری 2019 کو پلوامہ کا واقعہ پیش آ گیا۔
اس میں 44بھارتی فوجی مارے گئے‘ اپریل 2019میں الیکشن تھا‘ نریندر مودی وہ الیکشن جیت کر دوسری بار وزیراعظم بننا چاہتا تھا چناں چہ اس نے پاکستان پر حملے کا اعلان کر دیا‘ آر ایس ایس اس کی پشت پر تھی‘ انڈین ائیرفورس نے 25 اور 26 فروری کی درمیانی رات بالاکوٹ میں سرجیکل اسٹرائیک کی‘ اس میں محض ایک کوا مارا گیا لیکن نریندر مودی نے اعلان کر دیا‘ ہم نے پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپ پر حملہ کر کے 400 دہشت گرد مار دیے ہیں‘ پاکستان نے اگلے دن نہ صرف بھارت کے پانچ ائیر بیسز پر حملہ کر دیا بلکہ وہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر میزائل بھی داغ دیے اور واپسی پر بھارت کے دو طیارے بھی گرا دیے۔
ایک طیارہ بھارت میں گرا جب کہ دوسرا پاکستانی آزاد کشمیرمیں ‘ اس کا پائلٹ ابھے نندن گرفتار کر لیا گیا‘ خطہ اس کے بعد جنگ کے دہانے تک پہنچ گیا لیکن امریکا اور برطانیہ نے مل کر ملبہ سمیٹ لیا‘ نریندر مودی مار کھانے کے باوجود الیکشن میں جیت گیا‘ 2024میں نریندر مودی نے تیسرا الیکشن لڑا‘ یہ الیکشن مقبوضہ کشمیر کے آرٹیکل 370 اور بنگلور کے مارچ 2024 کے بم دھماکوں پر لڑا گیا‘ پوری الیکشن کمپیئن کے دوران نریندر مودی پاکستان پر طنز کرتا رہا‘ کبھی عوام اور فوج کے درمیان اختلافات پر فقرے کستا ‘ کبھی کے پی اور بلوچستان کے حالات کو نشانہ بناتا اور کبھی عوام کو یہ بتا کر ہنساتا رہا ’’میں نے پاکستان کے ہاتھ میں بھیک کا کٹورا پکڑا دیا‘‘ قصہ مزید مختصر بھارت کی بدنصیبی نریندر مودی توقعات سے انتہائی کم سیٹیں لینے کے باوجود اتحادی حکومت بنانے میں کام یاب ہو گیا اور یہ 9جون24 20 کو تیسری مرتبہ بھی وزیراعظم بن گیا۔
ہم اب آتے ہیں 22 اپریل 2025 کے واقعے کی طرف‘ آر ایس ایس 27 ستمبر 2025 کو ناگ پور میں اپنی سو سالہ تقریبات منانا چاہتی ہے‘ نریندر مودی اس تقریب کے مہمان خصوصی ہوں گے‘ یہ اس فنکشن میں کوئی ایسی ٹرافی‘ کوئی ایسا تحفہ لے جانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے آر ایس ایس 75 سال کے بعد ریٹائرمنٹ کا قانون واپس لے لے اور یہ 2029میں چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن سکیں‘ مودی کی عمر اس وقت 74سال ہے‘ موجودہ قاعدے کے مطابق یہ وزارت عظمیٰ کا ان کی زندگی کا آخری دور ہے‘ یہ اگلے سال بی جے پی اور آر ایس ایس کے تمام عہدوں سے ریٹائر ہو جائیں گے لیکن نریندر مودی یہ نہیں چاہتے۔
یہ چین کے صدر شی چن پھنگ کی طرح تاحیات وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ظاہر ہے کوئی بڑا کارنامہ چاہیے اور پاکستان کو شکست دینے کے علاوہ بھارت کے نزدیک کوئی دوسرا کارنامہ کیا ہو سکتا ہے؟ چناں چہ نریندر مودی نے یہ کارنامہ سرانجام دینے کی منصوبہ بندی کی‘ دوسرا آر ایس ایس بھی پاکستان کو شکست دے کر اپنے سو سالہ جشن پر مہاتما گاندھی اور قائداعظم کی سوچ کو غلط ثابت کرنا چاہتی تھی۔
آپ خود سوچیں اگر آر ایس ایس کے سو سال بعد بھی بھارت کے اندر 22کروڑ مسلمان ہوں گے اور سرحدوں کی سائیڈز پر بنگلہ دیش اور پاکستان دو مسلمان ملک ہوں گے تو پھر آر ایس ایس کی کیا جسٹی فکیشن رہ جاتی ہے‘ پھردنیا کی سب سے بڑی آرگنائزیشن کے وجود کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے چناں چہ نریندر مودی پہلگام کے 22 اپریل کے واقعے کو بنیاد بنا کر وہ غلطی کر بیٹھا جو 10مئی کے بعد دنیا بھر کی ملٹری اکیڈمیز میں کیس اسٹڈی کی حیثیت سے پڑھائی جائے گی۔
پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان نے کرایا اور یہ جعفر ایکسپریس کے اغواء کا بدلہ تھا‘ ٹرین کا اغواء ایک ٹیکنیکل کام ہوتا ہے‘ کوئی دہشت گرد جماعت یہ اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک اسے کسی ملک کی مدد حاصل نہ ہو‘ انڈیا نے بی ایل اے کو تیار کیا‘ ہر قسم کی سپورٹ دی اور یہ ٹرین اغواء کرنے میں کام یاب ہو گئی۔
پاکستان کی بہت بے عزتی ہوئی اور اس نے پہلگام میں بھارت کی بے عزتی کر کے اس کا بدلہ لے لیا وغیرہ وغیرہ‘ دوسرا مفروضہ‘ یہ مودی کا فالس فلیگ آپریشن تھا اور اس کا مقصد پاکستان پر جنگ مسلط کرکے اسے معاشی ٹیک آف سے روکنا تھا‘ دونوںمیں کون سا مفروضہ درست ہے یہ فیصلہ وقت کرے گا تاہم یہ طے ہے مودی نے اس کو موقع بنایا اور اسے آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات اور خود کو تاحیات وزیراعظم بنانے کے لیے بطور ٹرافی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا‘ یہ منصوبہ بظاہر پرفیکٹ تھا لیکن اس میں دو خامیاں تھیں‘ پہلی خامی 1971 کا سانحہ تھا‘ پاک فوج نے آدھا ملک گنوا کر یہ سیکھ لیا تھا ہم سائز‘ بجٹ اور وار مشینری میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
ہم صرف ٹریننگ‘ میرٹ اور مستقبل کی اسمارٹ ٹیکنالوجی سے ہی اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن سے لڑ سکتے ہیں‘ پاک فوج کو یہ بھی معلوم ہو گیاانڈیا بنگلہ دیش تک نہیں رکے گا‘ یہ باقی پاکستان کو بھی توڑنے کی کوشش کرے گا لہٰذا فوج نے ہر صورت اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہے تاکہ ملک بچ سکے چناں چہ فوج نے پچھلے 50برسوں میں ٹریننگ‘ آلات جنگ اور بھارت تینوں سے غفلت نہیں برتی‘ 2019کے پلوامہ واقعے کے بعد فوج نے فضائی برتری کے لیے بھی دن رات ایک کر دیے‘ انھیں حکومت سے رقم ملی یا نہیں مگر یہ میزائل پروگرام‘ ائیرفورس اور سائبر وار فیئر پر سرمایہ کاری کرتی چلی گئی‘ آپ اس کا نتیجہ 10مئی کو دیکھ لیں‘ دوسری خامی نریندر مودی یہ فراموش کر بیٹھا پاک فوج پچھلے 45برسوں سے حالت جنگ میں ہے‘ افغان وار سے لے کر فتنہ الخوارج تک فوج اور آئی ایس آئی نے ایک دن سانس نہیں لیا۔
یہ ہر روز حالت جنگ میں رہی اوریہ جنگ تین طرفہ تھی‘ عالمی‘ اندرونی سیاست اور دم توڑتی معیشت‘ ان 45 برسوں میں فوج اور آئی ایس آئی دونوں ہر قسم کے حالات کے لیے ٹرینڈ ہو گئی جب کہ اس کے مقابلے میں انڈین آرمی نے 1971کے بعد کوئی جنگ نہیں لڑی تھی‘ کارگل وارمیں بھارتی فوج نے تھوڑی بہت ہل جل کی لیکن یہ پاکستان جیسے ملک سے لڑنے کے لیے کافی نہیں تھا‘ را کی تمام تر پریکٹس بھی پاکستان میں دھماکوں اور طالبان اور بی ایل اے کی مدد تک محدود تھی جب کہ اس کے مقابلے میں آئی ایس آئی کو مسلسل سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے ساتھ کام کا موقع ملا اور یہ چالیس سال کے جی بی اور موساد کا مقابلہ بھی کرتی رہی‘ اس پریکٹس نے اسے را کے مقابلے میں بہت پختہ کر دیا۔
پاک فوج کی ایک اور برتری ڈرونز اور سائبر ٹیکنالوجی تھی‘ دنیا میں ڈرونز کا افتتاح بھی پاکستان سے ہوا تھا‘ جون 2004میں جنوبی وزیرستان میںدنیا کا پہلا ڈرون حملہ ہوا اور یہ اس کے بعد ہوتے چلے گئے‘ پاکستان نے اس میں بہت نقصان اٹھایا لیکن یہ ڈرون ٹیکنالوجی سیکھ گیا جب کہ بھارت نے یہ ٹیکنالوجی صرف خریدی تھی بھگتی نہیں تھی‘ پاکستان نے پچھلے 25 برسوں میں دنیا کے موسٹ وانٹیڈ مجرموں اور خطرناک ترین آرگنائزیشنز کو بھی بھگتایا ‘ ان میں القاعدہ‘ داعش‘ طالبان اور ٹی ٹی پی شامل ہیں‘ اس نے بھی عوام‘ فوج اور آئی ایس آئی کے اعصاب مضبوط کر دیے‘ پاکستان کو ایک اور برتری چین کی شکل میں بھی حاصل تھی‘ چین ٹیکنالوجی میں امریکا اور یورپ کا مقابلہ کرتا ہے۔
اس نے 40برسوں میں ٹریلین ڈالر کی وار انڈسٹری ڈویلپ کر لی لیکن اس نے کیوں کہ کوئی جنگ نہیں لڑی لہٰذا یہ اپنا اسلحہ ٹیسٹ کر سکا اور نہ دنیا کو بیچ سکا‘ پاکستان پچھلے دس برسوں میں آہستہ آہستہ چین کی ٹیسٹنگ گراؤنڈ بنتا چلا گیا‘ ہمیں اس کے دو فائدے ہوئے‘ ہمیں عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں دس فیصد رقم میں جدید ترین اسلحہ ملنے لگا اور دوسرا وارٹیکنالوجی میں چین کا ہم پر انحصار بڑھتا چلا گیا‘ میں آپ کو سمجھانے کے لیے دو مثالیں دیتا ہوں‘ بھارت نے فرانس سے رافیل طیارے خریدے‘ اسے 36 طیارے 9 بلین ڈالر میں ملے گویا اسے ایک طیارہ 250 ملین ڈالر میں پڑا جب کہ ہم نے چین سے 35 ملین ڈالر کے حساب سے جے ٹین (J-10) طیارے خریدے ‘ دونوں کی قیمت میں آٹھ گناہ فرق تھا۔
ہم نے چین کے ساتھ مل کرجے ایف 17 خود بنا لیا تھا‘ آپ اب فرض کیجیے سات مئی اور 10مئی کو اگر جے ٹین اور جے ایف 17 گر جاتے تو کس کا زیادہ نقصان ہوتا‘ پاکستان یا چین؟ پاکستان اس کے باوجود بچ جاتا کیوں کہ یہ نیوکلیئر پاور ہے‘ دنیا فوراً جنگ بند کرا دیتی لیکن اگر چین کے طیارے گر جاتے تو اس کی ٹریلین ڈالر کی وار انڈسٹری ختم ہو جاتی لہٰذا اس نے ہر صورت ہمارا ’’آؤٹ آف دی وے‘‘ ساتھ دینا تھا کیوں کہ اس سے اسے اپنی ٹیکنالوجی کے وار ٹیسٹ کا موقع مل رہا تھا اور کام یابی کی شکل میں اسے پوری دنیا کی مارکیٹ بھی مل جانی تھی‘دوسرا چین یہ بھی جانتا تھا اگر بھارت جیت گیا تو اس کا اگلا ہدف چین ہو گا‘ یہ معاشی اور عسکری دونوں شعبوں میں پہلوان بن جائے گا اور پھرہمیں ہلنے نہیں دے گا‘ پاکستان نے چین کی ان دونوں مجبوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
نریند مودی کا10مئی کی ہار میں کوئی قصور نہیں تھا‘ اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو مار کھا جاتا‘ کیوں؟ کیوں کہ بھارت ہر سال اپنی فوج پر ساڑھے 80 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ ہماری فوج کوصرف ساڑھے آٹھ بلین ڈالرملتے ہیں‘ بھارت کے پاس جدید ترین توپین ارجن اور بھشما‘ جدید ترین جہاز رافیل‘ مضبوط ترین اینٹی بیلسٹک میزائل ایس 400 اور اسرائیل کے جدید ترین ڈرونز ہاروپ ہیں‘ اس کی فوج کی تعداد 14لاکھ ہے اور اس کے خزانے میں بھی 600 ارب ڈالر پڑے ہیں لہٰذا یہ تکبر میں کیوں نہ آتا؟ ہم نے انڈیا کو 2019 میں آدھ گھنٹے میں زمین پر لٹا دیا تھا‘ یہ بھارت کے لیے بڑا سیٹ بیک تھا۔
مودی نے اس کے بعد ائیرفورس میں رافیل شامل کیے اور مطمئن ہو گیا لیکن پاکستان محدود بجٹ کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اور اس نے طیاروں اور ڈرونز کی کمیونی کیشن ہیک کرنے میں کمال حاصل کر لیا لہٰذا پاکستان نے دس مئی کی صبح انڈین ائیرفورس کا پورا سسٹم جام کر دیا‘ ہم نے بھارت کی 70 فیصد بجلی بند کر دی تھی اور ریڈار سسٹم منجمد کر دیا تھا یہاں تک کہ ہمارے طیارے دہلی تک پہنچ گئے اور وہاں اپنا ’’پے لوڈ‘‘ خالی کر کے واپس آ گئے‘ اس جنگ میںانڈیا کے سات طیارے اور 26ائیربیس تباہ ہو گئے جب کہ ہمارے کسی پائلٹ اور کسی طیارے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا‘ کیا یہ معجزہ نہیں‘ کیا یہ کمال نہیں اور کیا اس پر پوری قوم کو سجدہ شکر بجا نہیں لانا چاہیے؟۔
ہم اب 22 اپریل سے 10مئی کے انتہائی حساس اور مشکل ترین دنوں کی طرف آتے ہیں‘ 22 اپریل کے پہلگام کے واقعے کے بعد جب بھارتی چینلز نے منہ کی توپین کھولیں تو پاکستان اٹھ کر بیٹھ گیا‘ 22 اپریل کی شام تک فوج اور آئی ایس آئی اس نتیجے تک پہنچ چکی تھی ہمیں فوری طور پر جنگ کی تیاری کر لینی چاہیے چناں چہ فوج نے چھٹیاں کینسل کر دیں اور تمام افسروں اور جوانوں کو ہائی الرٹ کر دیا‘ پہلا مقابلہ انفارمیشن وار تھی‘ بھارت نے میجر گورو آریا‘ ارنب گوسوامی‘ امن چوپڑا‘ روبیکا لیاقت‘ سدھیر چوہدری‘ برکھا دت‘ گورو ساونت اور چینلز ری پبلک ٹی وی‘ اے بی پی نیوز‘ آج تک اور این ڈی ٹی کو میدان میں اتار دیا جب کہ ہماری انفارمیشن منسٹری اور ٹی وی چینلز اپنی دھوتی سنبھالتے رہ گئے۔
پاکستانی صحافی کنفیوژڈ بھی تھے اور ڈبل مائینڈڈ بھی چناں چہ آئی ایس پی آر اور چند یوٹیوبرز سامنے آئے اور انھوں نے اتنی انفارمیشن بمنگ کی کہ انڈیا پاکستان کے اکاؤنٹس بند کرنے پر مجبور ہوگیا‘ پاکستان نے اگلے دن زیادہ بڑا کمال کر دیا‘ اس نے جیوٹیکنگ کے ذریعے انڈیا کے تمام بڑے یوٹیوب چینلز پر اپنا ملی ترانہ چلوا دیا‘ آئی ایس پی آر عوام کے رابطے میں بھی رہا‘ ہر قسم کی صورت حال پر ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری عوام کے سامنے آتے اور قوم کو تازہ ترین صورت حال پر اعتماد میں لیتے رہے‘ یہ بار بار عوام کو حوصلہ بھی دیتے تھے اور انھیں یہ بھی بتاتے تھے ہم جس دن جواب دیں گے اس دن دنیا دیکھے گی اور پھر دنیا نے دیکھا‘انڈین ائیرفورس کا پاکستانی ائیرفورس کے ساتھ پہلا سامنا 29 اور 30 اپریل کی درمیانی رات ہوا‘ انڈیا نے حملے کی کوشش کی لیکن پاکستانی جہازوں نے ان کا راستہ روک لیا‘ پاکستان نے ان کا کمیونی کیشن سسٹم بھی جام کر دیا‘ اس کے بعد ایل او سی کا محاذ گرم ہو گیا۔
پاکستان نے گولے مار مار کر انڈین آرمی کا حشر کر دیا‘ پاکستان نے اس دوران اڑی اور بگلیہار ڈیمز کو بھی نشانے پر لے لیا‘ میزائل فٹ کر دیے گئے جس پر انڈیا نے گھبرا کر پانی چھوڑ دیا کیوں کہ ان کا خیال تھا پاکستان ڈیم توڑ کر علاقے میں سیلاب لے آئے گا‘ یہ صورت حال بہرحال 6 اور 7مئی کی درمیانی رات تک چلی‘ اس رات عرب اسرائیل جنگ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی فضائی ڈاگ فائیٹ ہوئی‘ 125 طیارے اس رات ایل او سی پر تھے‘ اسی ڈاگ فائیٹ کے دوران انڈیا نے پاکستان کے 9 شہروں پر میزائل داغ دیے جس سے مسجدیں اور سول عمارتوں کو نقصان پہنچا اور 30لوگ شہید ہو گئے‘ اس کے جواب میں پاکستان نے انڈیا کے پانچ طیارے گرا دیے جن میں تین رافیل بھی موجود تھے‘ یہ دنیا میں تباہ ہونے والے پہلے رافیل طیارے تھے۔
(جاری ہے)
بشکریہ ایکسپریس